12 July 2009 - 13:53
News ID: 12
فونت
آیۃ اللہ جوادی آملی


بعض لوگ کہتے ہیں کہ صرف قرآن و سنت دین کو ثابت کرنے کی دلیل ہے اور عقل کبھی بھی دین کے لئے دلیل نہیں ہو سکتی کیونکہ قرآن مجید دین کے ارکان کو احاطہ سوال و جواب کے لحاظ سے جدا کر دیتا ہے کیونکہ اگر خدا کے بارے میں اس کی توحید ، اس کی ذات اور اقدس الہی وحی و رسالت کے بارے میں اور قیامت کے سلسلہ میں سوال کرنے کی اجازت نہ ہو تو احکام اور خدا کی حکمت کے بارے میں بھی سوال منع ہو جائے گا جس کے نتیجہ میں عقل و نقل کا راستہ بھی دوراور بند ہو جائے گا ۔ حالانکہ عقل سوال و جواب کے ذریعے سے زندہ ہے جس طرح مچھلی پانی کی وجہ سے زندہ ہے ۔

مثال کے طور پر بیان کروں کہ قرآن کریم فرماتا ہے "لا یسئل عما یفعل " جو کام بھی خدا انجام دے اس کے سلسلے میں سوال مت کرو دوسری طرف قرآن میں ہے کہ " ان الحکم الا للہ " حاکمیت مطلق فقط خدا کے لئے ہے جب حاکم مطلق خدا ہے تو سوال کرنے کاحق کسی کو نہیں ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ آزادانہ تعقل و غور و فکر کرنے کا راستہ بند ہو چکا ہے اور فقط راہ نقل کے ذریعے احکام دین اور اس کے بنیادی اصول کو لیا جائے پہلے یہ جان لینا چاہیے کہ علم کی ترقی میں سوال و جواب کی کیا اھمیت اور منزلت ہے ؟ اور اسکا کیا کردار ہے ؟ سوال و جواب کا رابطہ مذکر و مونث کے رابطہ کی طرح ہے جیسا کہ عام طور پر صرف مرد سے یا صرف عورت سے بچہ پیدا نہیں ہوتا بلکہ نسل انسانی کا دوام مرد و زن دونوں کے ملنے کی وجہ سے ہے علمی ترقی بھی اسی طرح ہے کہ صرف سوال سے نہ تو ترقی ہو سکتی ہے اور نہ تو صرف جواب سے بلکہ دونوں کے وجود سے ہی علم کی ترقی ہو سکتی ہے تنقید و سوال مونث کی طرح ہے اور جواب دینا مذکر کی طرح ہے اور سوال و جواب کے درمیان آپسی رابطہ کی وجہ سے ہی علم کی پیدائش اور ترقی ہوتی ہے ۔

یہاں تک کہ سوال صحیح ہو یا نہ ہو لیکن اس کا جواب قانع کرنے والا نہ ہو تب بھی علم بانجھ ہے لہذا معاشرے کی ترقی کے بارے میں مناسب سوال و جواب کے ذریعے زمینہ فراہم کیا جائے جیسے کہ شادی کے بعد بعض لوگوں کے یہاں لڑکی پیدا ہوتی ہے تو کسی کے یہاں لڑکا اور بعض ایسے بھی ہیں جن کے یہاں کوئی اولاد نہیں ہوتی ۔ سوال و جواب کا بھی مسئلہ اسی طرح ہے " یھب لمن یشاء اناثاً و یھب لمن یشاء الذکور او یزوجھم ذکراناً و اناثاً و یجعل من یشاء عقیماً " ( سورہ شوری آیت ۴۹،۵۰ ) خدا وند عالم جسے چاہتا ہے لڑکی عطا فرماتا ہے اور جسے چاہتا ہے لڑکا عنایت کرتا ہے اور ان میں سے بعض کو بانجھ بھی رکھتا ہے ۔

قرآن مجید کی روشنی میں یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ نظام تکوینی میں فیوض الہی کی بقاء و دوام سوال و جواب پر منحصر ہے اسی وجہ سے نظام قدرت میں طبیعی طور پر تمام موجودات خدا سے ہی سوال کرتے ہیں " یسئلہ من فی السماوات والارض کل یوم ھو فی شأن " ( سورہ رحمن آیت ۲۹ ) جب تمام موجودات خدا وند عالم ہی سے سوال کرتے ہیں تبھی خدا وند عالم ان کے تقاضوں اور سوالات کا جواب دیتا ہے اور یہی سوال وجواب فیض الہی کے دوام کا باعث ہے اس لئے کہ خدائے بے نیاز کی نیازمند مخلوق ہمیشہ اپنی ضرورتوں کو خدا کی بارگاہ میں پیش کرتی ہے اور خدائے بے نیاز اپنے مخلوق کی ضرورتوں کو پورا فرماتا ہے ۔ اسی طرح فیض الہی کا چشمہ جاری و ساری ہے ۔

 وہ سوالات جو تحقیر، توھین اور پریشان کرنے کے لئے کیا جاتا ہے وہ سوال فریبی ، بےکاراور بیہودہ ہے ۔ جس میں سوال کرنے والا سوال کا جواب سمجھنے کے لئے سوال نہیں کر رہا ہے بلکہ صرف پریشان کرنا یا نیچہ دکھانا اس کا مقصد ہے اس وجہ سے اس کا سوال بانجھ ہے اور وہ سائل سوال کا مستحق نہیں ہے ۔اسی طرح اگر سوال سمجھنے کے لئے تو ہو لیکن جواب واضح و قانع کرنے والا نہ ہو تب بھی وہ جواب بانجھ ہے اگر چہ جواب ہے لیکن اس میں جواب کی سیرت نہیں ہے ۔ اسی وجہ سے سوال و جواب بذات خود عقیم ہیں ۔ لیکن اگر سوال سمجھنے کی غرض سے اور جواب دینے والا بھی " فاسئلوا اھل الذکر ان کنتم لا تعلمون " کا مصداق ہو یعنی اہل ذکرسے سوال کیا جائے نہ ہر شخص سے تو یہ سوال و جواب بانجھ نہیں ہوں گے ۔

دوسرے الفاظ میں یوں کہا جائے کہ تحقیقی سوال کے تحقیقی جواب سے ہی علم و دانش کی با برکت فکر سامنے آئے گی اور اس طرح علم کی ترقی و حیات سوال و جواب کے سائے میں پروان چڑھے گی ۔

سوال و جواب کے کردار کو بیان کرنے کے بعد اب کہا جا سکتا ہے کہ سوال کی بطور کلی دوقسمیں ہیں :

ممنوعہ سوالات ، و جائز سوالات ۔

جیسا کہ عرف میں بھی بعض سوال ممنوع اور بعض جائز ہیں ۔ ہر وہ مطلب جس میں عقل وفکر کے داخل ہونے کی اجازت ہے وہ جائز ہے ورنہ ناجائز و ممنوع ہے ۔

اب ہم سوال کی کچھ قسموں کو بیان کرتے ہیں :

۱ ) سوال یعنی خدا یا اولیای الہی ( جن کو اس کی اجازت حاصل ہو ) سے کوئی درخواست کرنا : اس طرح کے سوالات نہ یہ کہ ممنوع نہیں ہیں بلکہ ان کی ترغیب دلائی گئی ہے اور تشویق کی گئی ہے ۔

خدا وند عالم نےمتعدد مرتبہ  انسانوں کو اس بات کا حکم دیا ہے کہ " واسئلوا من فضلہ " خدا کے فضل سے مانگو ۔ یا " یسئلہ من فی السماوات و الارض کل یوم ھو فی شأن " تمام عالم امکانات و موجودات خدا سے ہی مانگتا ہے اس طرح کا مانگنا اور دعا کرنا خدا ہی کے حکم سے ہے ۔

۲ ) سوال استفھامی : یعنی کسی علمی مطالب کو سمجھنے کے لئے سوال کرنا : قرآن کریم نے ایسے بھی سوالوں کی طرف ترغیب دلائی ہے جیسا کہ خدا خود ہی فرماتا ہے " فاسئلوا اھل الذکر ان کنتم لا تعلمون " اگر نہیں جانتے ہو تو اھل ذکر سے سوال کرو ( سورہ نحل آیت ۴۳) سوال چاہے تقلیدی ہو یا تحقیقی اپنی جہالت کو دور کرنے اور جاننے کے لئے سوال کرنا لازم و ضروری ہے ۔ پوچھنے والا فروع دین کے مسائل کو مراجع تقلید سے پوچھتا ہے اور اصول دین کے مسائل کو فلسفہ و کلام کے ماہرین افراد سے پوچھتا اور اس میں ممکنہ اشکالات کو سمجھتا ہے تاکہ اس کے دل میں کسی طرح کا کوئی شک و شبھھ نہ رہ جائے ۔ فروع دین میں جانکار ہونے کے یہ معنی ہیں کہ عبادات کو سمجھ سکے لیکن اصول دین میں اسے چاہیے کہ دین کے اصول کو عقلی دلائل کے ساتھ اور اپنی شان و منزلت کے اعتبار سے سمجھے ۔

۳ ) کبھی سوال اعتراض کے معنی میں ہے : اس طرح کے سوال خدا کے بارے میں ممنوع ہیں اور وہ سوالات جو قرآن مجید کی بعض آیتوں میں اس طرح دکھائی دیتے ہیں اسی معنی میں ہیں مثلاً " لا یسئل عما یفعل " یعنی خدا سے بڑھ کر کوئی قانون نہیں ہے خدا پر کسی کی حکومت نہیں چلے گی بلکہ دوسروں سے سوال کیا جائے گا " فلنسئلن الذین ارسل الیھم و لنسئلن المرسلین " (اعراف آیت ۶ )قیامت کے دن ہر شخص سے سوال کیا جائے گا خود پیغمبروں سے بھی سوال کیا جائے گا اور امت سے بھی ۔

 خلاصہ کلام یہ کہ وہ سوالات جو علمی مطالب کو سمجھنے یا تنقید کرنے یا علمی اعتراض کرنے کے لئےہوتے ہیں ( جیسا کہ مناظرہ و مباحثہ میں معمولاً ہوتا ہے ) ممنوع نہیں ہیں ۔ اس وجہ سے خدا وند عالم کے بارے میں مختلف طرح کے سوالات کرنا نہ صرف یہ کہ ممنوع نہیں بلکہ قرآن کریم نے بھی اس طرح کے سوالات کو رد نہیں کیا ہے بلکہ تشویق و ترغیب دلائی ہے ۔

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬