ولادت کی گھڑی سے ہی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زبان سے ان کی شفقت بیان کی گئی تاکھ اس بی بی کی بلند و بالا منزلت پہچانی جائے کیونکہ عصمت کبری فاطمھ زھرا سلام اللہ علیھا کی بیٹی ایک وقت میں جو دور نہیں ہے ایک عظیم تحریک کی علم بردار اور دین و ولایت کی مدافع ہو گی ۔
تاریخ نے بارہا و بارہا ان کے فضائل و کمالات کو آئمہ معصومین علیھم السلام اور علماء و بزرگان اور عقیدت مندوں کی زبان سے اپنے سینے میں محفوظ کر لیا ہے اور حقیقتاً آئمہ معصومین علیھم السلام کے علاوہ ھر بیان کرنے والے کی زبان اور لکھنے والے کے قلم ان کے تمام فضائل کے ذکر سے عاجز و نا توانا ہیں حقیقتا ان کے کمالات کے فقط کچھ گوشے کی طرف ہی اشارہ کیا جا سکتا ہے ۔
ھم بزرگوں اور صاحبان نظر کی نگاہ سے عقیلہ بنی ھاشم حضرت زینب کبری سلام اللہ علیھا کے بعض فضائل پر ایک طائرانہ نگاہ ڈال رہے ہیں اگر چھ جناب زینب سلام اللہ علیھا کے فضائل و کمالات کے سلسلے میں آئمہ معصومین علیھم السلام کی جانب سے بہت زیادہ نورانی بیانات وارد ہوئے ہیں جو خود ایک مستقل باب اور مستقل گفتگو کے طلب گار ہیں اسی بنا پر ہم یہاں صدیقھ صغری حضرت زینب کبری سلام اللہ علیھا کے سلسلے میں مؤرخین اور صاحبان نظر کے نظریات کے فقط چند گوشے کی جانب اشارہ کرنے پر اکتفا کر رہے ہیں ۔
۱ ) یحیی مازینا : بیان کرتے ہیں کھ ھم مدینے میں بھت دن تک مولائے کائنات علی بن ابی طالب علیھ السلام کے پڑوس میں زندگی بسر کرتے رہے تھے مگر خدا کی قسم ھرگز نہ کبھی زینب کبری سلام اللہ علیھا کو دیکھا اور نہ کبھی ان کی آواز سنی ۔
۲ ) شیخ صدوق : سے روایت ہے کہ زینب سلام اللہ علیھا اپنے علم و معرفت کی بنیاد پر امام حسین علیھ السلام کی خاص نائب تھیں ۔۔ لوگ شرعی مسائل ، حرام و حلال میں ان کی جانب مراجعہ کیا کرتے تھے ۔
ایک جگہ منقول ہے کھ ایک روز امام حسن و و امام حسین علیھما السلام مرسل اعظم پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی فرمائشات کے سلسلے میں آپس میں گفتگو کر رہے تھے کھ حضرت زینب سلام اللہ علیھا وارد ہوئیں اور انھوں نے اس گفتگو میں شرکت فرمائی اوراپ دونوں بھائیوں کے سامنے مسئلھ کو اس کے تمام جوانب کے ساتھ بیان کیا ۔ حضرت امام حسن علیھ السلام نے جب بہن کی بصیرت فھم دیکھی تو انھیں خطاب کر کے فرمایا " انت حقا من شجرۃ النبوۃ و من معدن الرسالۃ " واقعاً آپ نبوت کے درخت سے اور معدن رسالت سے ہیں ۔
۳ ) جاحظ جو خود عرب کے ادیبوں میں سے ہیں اوراپنے اس فن میں کم نظیر ہیں ۔ حزیمھ سے روایت کرتے ہیں کھ امام حسین علیھ السلام کی شھادت کے بعد میں کوفے میں اس وقت وارد ہوا جو ورود اسیران کربلا کے کوفے میں وارد ہونے اور جناب زینب کبری سلام اللہ علیھا کے خطبہ دینے کے مصادف تھا ۔ وہ کہتے ہیں کھ ھم نے کسی اسیر عورت کو اس طرح بولتے نہیں دیکھا جیسا کھ حضرت زینب کبری سلام اللہ علیھا بول رہی تھیں گویا حضرت علی علیھ السلام کے دھن مبارک سے سخن باھر آ رہے تھے ۔
۴ ) حاکم نیشاپوری شرح حال اور عظمت و منزلت حضرت زینب کبری سلام اللہ علیھا کے بیان میں لکھتے ہیں کھ زینب سلام اللہ علیھا تقوی و عبادت الہی میں اپنے والد بزرگوار علی علیھ السلام اور مادر گرامی حضرت فاطمھ زھرا سلام اللہ علیھا کے مانند تھیں ۔
۵ ) ابن حجر عسقلانی : لکھتے ہیں کھ وہ (حضرت زینب سلام اللہ علیھا) مجسم شجاعت اور شھامت تھیں اور قوی ارادہ و بلند ھمت رکھتی تھیں اور عظیم نفس ، بے مثال ، قوت بیان رکھتی تھیں اس طرح کھ مؤرخین حیرت زدہ رہ گئے ہیں ۔
۶ مغربی صاحب قلم لکھتے ہیں : کوفے میں اپ کی تقریر گواھی دیتی ہے کھ وہ سارے مصائب و آلام ان کی توانائی کو سست نہ کر سکے جب کہ اس بات کا پورا پورا امکان تھا کہ تقریر کے درمیان ھی انھیں شھید کر دیا جائے ۔
۷ ) جلال الدین سیوطی : اپنے رسالہ زینبیہ میں لکھتے ہیں زینب سلام اللہ علیھا اپنے جد رسول خدا کے زمانے میں پیدا ہوئیں اور انھیں کی آغوش میں پرورش پائی وہ نھایت سمجھدار اور دور اندیش اور محکم و مستحکم قوت اور ارادے کی مالک تھیں انھوں نے اپنی عمر کے پانچ سال پیامبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ گزارا اور ان ہی کی تربیت یافتھ ہیں ۔ حضرت زینب سلام اللہ علیھا ایک خرد مند ، ذھین اور فصیح و بلیغ عورت تھیں البتھ وہ خرد مند جو صلابت قلبی بھی رکھتی تھیں ۔
۸ ) ابن اثیر جزری : لکھتے ہیں زینب سلام اللہ علیھا علی بن ابی طالب علیھ السلام کی بیٹی اور فاطمھ زھرا سلام اللہ علیھا بنت مرسل اعظم پیامبر اکرم صلی اللہ علیھ و آلھ و سلم کی بیٹی تھیں ۔ زینب اکیلی وہ متفکر اور دانشور بی بی تھیں جو بلند قوت فکر رکھتی تھیں وہ کربلا کے واقعے میں اپنے بھائی حسین بن علی علیھ السلام کے ساتھ اور ان کے بعد قافلھ کے ھمراہ شام گئیں اور یزید بن معاویھ کے سامنے پر زور خطبھ ارشاد فرمایا کھ اس خطبھ کا دینا ان کی سمجھ ، عقل ، فکر و قدرت اور اطمینان قلب کا بیان گر ہے ۔
۹ ) محمد بن غالب شافعی مصری لکھتے ہیں : جناب زینب سلام اللہ علیھا حسب و نسب کے اعتبار سے اھل بیت عصمت و طھارت کی وہ با وقار فرد ہیں جو تقوی الہی اور اعلی ظرفی میں سراپا رسالت اور امامت کا آئینھ ہیں حضرت زینب سلام اللہ علیھا علی بن ابی طالب علیھ السلام کی وہ بیٹی ہیں جن کی مکمل طور پر تربیت کی گئی اور خاندان نبوت کے علم و معرفت سے اسی طرح سیراب ہوئی کہ فصاحت و بلاغت میں الہی آئینھ ہیں اور حلم و کرم اور بصیرت و تدبیر امور میں خاندان بنی ھاشم میں بلکھ جزیرۃ العرب میں شھرت پائی اور جمال و جلال اور سیرت و صورت و اخلاق کردار اور فضائل کو یکجا کر رکھا تھا راتوں کو عبادت الہی میں اور دن کو روزہ رکھتی تھیں اور تقوی الہی اور پارسائی میں مشھور تھیں ۔
۱۰ ) مرحوم علامھ مامقانی لکھتے ہیں : جناب زینب سلام اللہ علیھا حجاب اور عفت میں منفرد تھیں انھیں کسی بھی مرد نے ان کے والد بزرگوار اور بھائی کے زمانے میں روز عاشوراء تک نہیں دیکھا تھا ۔
۱۱ ) سید عبد الحسین شرف الدین ان کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں : اخلاق کے حوالے سے حضرت زینب سلام اللہ علیھا سے بڑا اور بزرگ کوئی نہیں دیکھا گیا غصھ اور غضب کبھی ان پر غالب نہ آیا اور ان کی منزلت کو کم نہ کر سکا اور کبھی بھی آپ نے حلم اور صبر کا دامن نھ چھوڑا، ذھانت اورقوت دل اور اطمینان قلب میں خدا کی نشانیوں میں سے نشانی تھیں ۔
۱۲ ) صاحب انساب الطالبین ذکر کرتے ہیں : جناب زینب سلام اللہ علیھا بہت نیک صفت اور گرانقدر اور با اچھی خصلتوں کی بنا پر دوسروں سے ممتاز تھیں صورت اور سیرت ، اخلاق و کردار ، فضائل و کمالات میں بھی سب سے ممتاز تھیں ۔
۱۳ ) سنی صاحب قلم استاد محمد فرید وجدی لکھتے ہیں : جناب زینب سلام اللہ علیھا علی بن ابی طالب علیھ السلام کی بیٹی ان با فضائل اور بزرگ عورتوں میں سے ہیں جو دور اندیش ، منکسر اور با عظمت تھیں وہ اپنے بھائی حسین بن علی علیھما السلام کے ساتھ واقعھ کربلا میں حاضر رہیں یزید بن معاویہ کے فرمان کے مطابق دیگر اسیروں کے ساتھ انھیں بھی شام اور دیگر شھروں میں لے جایا گیا شام میں جناب زینب کبری سلام اللہ علیھا نے فصیح و بلیغ خطبھ ارشاد فرمایا ۔