قائد انقلاب اسلامی:
رسا نیوزایجنسی - قائد انقلاب اسلامی نے امام خمینی (رہ) کے نقطہ نگاہ سے حقیقی اسلام کی ترویج کو اسلامی حاکمیت و اقتدار کی صورت میں ہی ممکن جانا اور اپ نے اسرائیل کےحالیہ وحشی پن کا تذکرہ کرتے ہوئے تاکید کی ، تیس سال پہلے سے اسلامی جمہوریہ ایران اس جانب متوجہ کرتا آ رہا ہے ۔
رسا نیوزایجنسی کی رھبر معظم کی خبر رساں سائٹ سے منقولہ رپورٹ کے مطابق ، امام خمینی کی برسی پر اپ کے مرقد مطھر پہ منعقدہ نماز جمعہ کے خطبے میں امام خمینی (رہ) کے فکری مکاتب کے معیارات کا تذکرہ کیا ۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: حقیقی اسلام محمدی پر دائمی تکیہ، مکتب اسلام کی بنیاد پر لوگوں کو اپنے سے قریب اور دور کرنا، وعدہ الہی پر یقین کامل، روحانی و معنوی محاسبہ و تقوا، اسلامی انقلاب کے سلسلے میں عالمی نقطہ نگاہ، عوام پر بھروسہ اور کسی بھی فیصلے کے وقت افراد کی موجودہ حالت پر توجہ، امام خمینی کے راستے کے معیاروں میں ہیں جنہیں صحیح طور پر بیان کرنے اور ان پر ہمیشہ توجہ رکھنے کی ضرورت ہے۔
ایران کے وفادار، با بصیرت اور سراپا استقامت عوام نے بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی اکیسویں برسی کے پروگراموں کو اپنے امام سے ایرانیوں کی وفاداری کی پرشکوہ جلوہ گاہ میں تبدیل کر دیا اور امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے نورانی راستے پر گامزن رہنے کے سلسلے میں قائد انقلاب اسلامی اور ولی امر مسلمین کی معیت کے اپنے عہد و پیمان کا اعادہ کیا۔
اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی شخصیت کو اسلامی انقلاب کا سب سے نمایاں معیار اور کسوٹی قرار دیا اور فرمایا : امام خمینی کو آپ کے مکتب فکر سے الگ کرکے نہیں دیکھا جا سکتا۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا : حقیقی اسلام محمدی پر دائمی تکیہ، مکتب اسلام کی بنیاد پر لوگوں کو اپنے سے قریب اور دور کرنا، وعدہ الہی پر یقین کامل، روحانی و معنوی محاسبہ و تقوا، اسلامی انقلاب کے سلسلے میں عالمی نقطہ نگاہ، عوام پر بھروسہ اور کسی بھی فیصلے کے وقت افراد کی موجودہ حالت پر توجہ، امام خمینی کے راستے کے معیاروں میں ہیں جنہیں صحیح طور پر بیان کرنے اور ان پر ہمیشہ توجہ رکھنے کی ضرورت ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے سماجی تحریکوں بالخصوص انقلابوں میں اصلی سمت و جہت کی حفاظت کو انحراف اور دگرگونی سے انہیں محفوظ رکھنے کا طریقہ قرار دیا اور فرمایا : جو افراد اور حلقے انقلابوں کی ماہیت کو تبدیل کرنے کے در پے ہوتے ہیں وہ با ضابطہ طور پر اور آشکارا سامنے نہیں آتے بلکہ ان کی حرکت خفیہ اور غیر واضح ہوتی ہے، بنابریں انقلابوں کے سلسلے میں معیارات کی موجودگی انحراف سے محفوظ رہنے کے لئے ضروری ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا : ایران کے اسلامی انقلاب میں سب سے اہم اور بنیادی معیار اور کسوٹی خود امام (خمینی رحمت اللہ علیہ کی ذات) اور امام (خمینی رضوان اللہ علیہ) کا راستہ ہے جو آپ کے وصیت نامے اور رفتار و گفتار میں جلوہ فگن ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے معیاروں کی صحیح وضاحت اور انہیں فراموش ہونے اور پردے کے پیچھے جانے سے بچانے کی ضرورت پر زور دیا اور فرمایا : امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے افکار و نظریات کو غلط انداز میں پیش کرنا یا انہیں فراموش کر دینا اس قطب نما کے خراب ہو جانے کی مانند ہے جو صحیح سمت و رخ کی نشاندہی کرتا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے سامراج، رجعت پسندی، مغربی لبرل ڈیموکرا یسی، منافقین اور دوہرے چہرے والوں کے سلسلے میں امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے موقف کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ہم کچھ افراد اور حلقوں کی خوش آمد کی غرض سے امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے موقف اور نظریات کو پنہاں یا کم رنگ نہیں کر سکتے اور نہ ہمیں ایسا کرنا چاہئے۔ آپ نے فرمایا کہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کو ان کے مکتب فکر سے الگ کرنا ان کی شناخت کو ختم کر دینے اور ان کی پہچان سلب کر لینے کے مترادف ہے، یہ امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی خدمت نہیں ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے ان افراد پر شدید تنقید کی جو امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے بعض نظریات کا انکار کرتے یا انہیں چھپانے کی کوشش کرتے ہیں، آپ نے فرمایا : بد قسمتی یہ ہے کہ یہ کج فکری ان افراد کے ہاں دیکھنے میں آتی ہے جو کسی زمانے میں خود بھی امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے افکار و نظریات کے مروج یا آپ کے پیروکار تھے۔
قائد انقلاب اسلامی نے نوجوانوں کو امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے وصیت نامے کے مطالعے اور جائزے کی سفارش کی اور فرمایا کہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے افکار و اصول اسی وصیت نامے میں منعکس ہیں۔
ولی امر مسلمین آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے مکتب فکر کی ایک شناخت اور معیار حقیقی دین اسلام کی پابندی قرار دیا اور فرمایا : امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے نظرئے کے مطابق حقیقی اسلام ظلم مخالف، انصاف پسند، محروموں، مستضعفوں اور غریبوں کے حقوق کا حامی و طرفدار اسلام ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا : امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے نظرئے کے مطابق امریکی اسلام حقیقی محمدی اسلام کے مد مقابل کھڑا ہے، امریکی اسلام رسمی باتوں تک محدود، ظلم و زیادتی پر خاموش رہنے والا اور استبدادیوں کی اعانت و مدد کرنے والا اسلام ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے نقطہ نظر سے حقیقی اسلام کی ترویج اسلام کی حاکمیت و اقتدار کی صورت میں ہی ممکن ہے۔
آپ نے فرمایا : امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) اسلامی جمہوریہ کو اسلام کی حاکمیت کی تمہید اور مظہر سمجھتے تھے اور اسی لئے اسلامی نظام کی حفاظت، واجبات میں واجب ترین شئے ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے امام خمینی کا بنیادی ترین ہدف حقیقی اسلام کا نفاذ قرار دیا اور فرمایا : امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے اسی ہدف کے تحت آخری لمحے تک پوری توانائی کے ساتھ اسلامی جمہوریہ کی حفاظت کی اور دنیا کے سامنے سیاسی نظام کا ایک نیا نمونہ پیش کیا جس کا دار و مدار عوام کی خواہشات اور اسلامی شریعت پر ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے راستے اور مکتب فکر کا ایک اور معیار مکتب اسلام کی بنیاد پر افراد کو اپنے سے نزیک اور دور کرنا قرار دیا اور زور دیکر فرمایا : سیاسی میدان میں ہر طرح کی دوستی اور بیزاری امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے اصولوں اور نظریات کی بنیاد پر ہی ہونی چاہئے۔
آپ نے امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے لوگوں کو اپنے قریب اور خود سے دور کرنے کے سلسلے کو بہت طویل قرار دیا اور فرمایا : امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی دشمنی اور سختی صرف اور صرف اسلام کے لئے تھی، شخصی اور ذاتی مسائل کے لئے نہیں، اسی لئے امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے تمام قومیتوں اور گروہوں کو خواہ ان کی پسند اور ان کا نقطہ نگاہ مختلف ہو اپنی شفقت آمیز آغوش میں ہمیشہ جگہ دی لیکن کمیونسٹوں، لبرل خیالات والوں اور مغربی نظاموں کے فریفتہ لوگوں کو مسترد کیا اور بارہا ایسا ہوا کہ رجعت پسندانہ نظریات والوں کی سخت اور تلخ الفاظ میں مذمت کی اور انہیں خود سے دور کیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا : امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے مکتب فکر کے اس معیار کی روشنی میں کوئی بھی شخص یہ نہیں کر سکتا کہ خود کو امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کا پیروکار بھی سمجھے اور ان لوگوں کی معیت میں بھی رہے جو کھلے عام امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی مخالفت کا پرچم بلند کئے ہوئے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا: اگر امریکا، اسرائیل، سلطنتی نظام کے حامی، منافقین اور امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے دیگر مخالفین ایک شخص کے قریب جمع ہو جائیں، اس کی تعریف اور اس کا احترام کریں اور وہ شخص اس کا مدعی ہو کہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے راستے پر چل رہا ہے تو اس کا دعوی قابل قبول نہیں ہے، اس میں صداقت ہونا ممکن نہیں ہے کیونکہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) صریحی طور پر تاکید کے ساتھ فرماتے تھے کہ اگر اسلام کے دشمن ہماری تعریفیں کرنے لگیں تو ہمیں جان لینا چاہئے کہ ہم سے خیانت ہوئی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے یوم قدس کے موقع پر امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے اہداف و مقاصد کے بالکل برخلاف موقف اختیار کرنے والوں اور یوم عاشور (سنہ چودہ سو اکتیس) کو شرمناک حرکتیں انجام دینے والوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : اگر کوئی شخص ان سرگرمیوں کے سلسلے میں، جو سرے سے امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے اصولوں کے منافی اور خلاف ہیں موافق رویہ اپنائے یا خاموش ہو جائے تو قوم حقائق کے ادراک کی وجہ سے اس شخص کے اس دعوے کو ہرگز قبول نہیں کرے گی کہ وہ امام(خمینی رحمت اللہ علیہ) کے مکتب فکر پر چلنے والا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اللہ تعالی کے وعدے پر یقین و اعتبار اور روحانی و معنوی محاسبے کو امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے مکتب فکر کی ایک اور خصوصیت قرار دیا اور فرمایا : امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) اپنے فیصلوں اور حکمت عملی میں روحانی محاسبے کو پہلے درجے پر رکھتے تھے اور ان کے ہاتھوں انجام پانے والے ہر عمل کا مقصد رضائے پروردگار کا حصول ہوتا تھا۔
قائد انقلاب اسلامی نے امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے کاموں کو مایوسی، خوف، غفلت اور غرور سے مکمل طور پر عاری قرار دیا اور فرمایا : امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) تمام شخصی، سماجی، سیاسی امور میں اور حتی دشمنوں اور مخالفوں کے سلسلے میں کوئی رائے قائم کرنے کے سلسلے میں تقوے سے کبھی بھی ذرہ برابر الگ نہیں ہوئے، یہ تمام لوگوں بالخصوص انقلابی، با ایمان اور امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے عقیدت مند نوجوانوں کے لئے ایک درس ہے کہ دشمن اور مخالف شخص کے سلسلے میں بھی حق و تقوا اور عدل و انصاف کے تقاضوں کے مطابق عمل کریں۔
قائد انقلاب اسلامی نے امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے مکتب فکر کی ایک اور خصوصیت اور پہچان عوام اور عوامی کردار کو قرار دیا اور فرمایا : امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے انتخابات اور ملک و معاشرے کے دیگر امور میں عوام پر بھروسہ کرنے کے تعلق سے بڑے عظیم کام انجام دئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے محض دو مہینے بعد نظام کی نوعیت کے تعین کے لئے کرائے جانے والے رفرنڈم کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : اتنی کم مدت میں حکومت کی نوعیت کے تعین کے لئے عوام سے رجوع کرنا کسی بھی انقلاب میں نظر نہیں آیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے ہر طرح کی صورت حال حتی مسلط کردہ جنگ کے سخت ترین ایام میں بھی ایران میں انتخابات کے انعقاد کا ذکر کیا اور فرمایا : انقلاب کی تیس سالہ تاریخ میں کبھی بھی انتخابات ایک دن کے لئے بھی ملتوی نئے نہیں کئے گئے اور یہ چیز جمہوریت کے دعویدار کسی بھی نظام میں نہیں ملے گی۔
قائد انقلاب اسلامی نے نماز جمعہ کے خطبے میں امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے مکتب فکر کی خصوصیات اور معیارات کو بیان کرتے ہوئے اسلامی تحریک کے عالمی پہلو کا ذکر کیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی انقلاب اور تحریک کو عالمی تحریک قرار دینے کے تعلق سے امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی جرات و شجاعت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کا یہ اقدام دوسرے ممالک کے امور میں مداخلت کرنے یا انقلاب کو سامراجی و استعماری صورت میں برآمد کرنے سے بالکل مختلف ہے، امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کا مقصد یہ تھا کہ دنیا کی قومیں اس تاریخی تحریک کی خوشبو محسوس کریں اور آگاہی و بیداری کے ساتھ اپنے فرائض پر عمل کریں۔
آپ نے فرمایا : امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی جانب سے ملت فلسطین کا منطقی اور پر زور دفاع اسلامی انقلاب کے سلسلے میں امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے عالمی نقطہ نگاہ کا ایک نمونہ ہے اور امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) صریحی طور پر فرماتے تھے کہ اسرائیل سرطانی پھوڑا ہے اور یہ ظاہر ہے کہ سرطانی پھوڑے کا علاج اسے کاٹ کر پھینک دینا ہی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے ملت فلسطین کے دفاع کے سلسلے میں امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے موقف کو انتہائی منطقی اور معقول موقف قرار دیا اور فرمایا : عالمی سامراجیوں نے ایک قوم پر ظلم و جور، قتل و غارتگری اور شکنجہ و ایذا رسانی کے ذریعے ایک جغرافیایی یونٹ کو ختم کرنے اور سراسر غیر منطقی اقدام کے تحت اس کی جگہ پر اسرائیل نامی ایک نقلی اور مصنوعی ملک قائم کرنے کی کوشش کی، اس کھلے ہوئے تاریخی ظلم کے مقابلے میں امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) سو فیصدی منطقی موقف اختیار کرتے ہوئے فرماتے تھے کہ یہ مصنوعی اور جعلی جغرافیائی یونٹ ختم کر دیا جانا چاہئے اور حقیقی ملک یعنی فلسطین کی زندگی تاریخ میں جاری رہنی چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا :غاصب اسرائیل کے سلسلے میں امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کا موقف پوری طرح واضح تھا لیکن اب اگر کوئی اس سلسلے میں اشارتا بھی گفتگو کرتا ہے تو مکتب امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) سے تعلق رکھنے کے دعویدار کچھ لوگ اس پر اعتراض کرتے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے مکتب فکر کی خصوصیات اور معیارات کو بیان کرتے ہوئے کسی شخص کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ کرنے اور رائے قائم کرنے کے سلسلے میں آپ کی نظر میں اس شخص کی موجودہ صورت حال کو محور اور بنیاد قرار دینے کا ذکر کیا اور فرمایا : امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) بارہا فرماتے تھے کہ لوگوں کے سلسلے میں کوئی بھی رائے ان کی موجودہ حالت کی بنیاد پر قائم کی جانی چاہئے، یہ چیز امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے مکتب فکر کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کے تعلق سے بہت اہم معیار ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا : لوگوں کے ماضی کو بنیاد قرار دینا اس صورت میں قابل قبول ہے جب ان کا حال ان کے ماضی کے مد مقابلے نہ نظر آ رہا ہو، لیکن اگر ایسا ہو تو پھر ظاہر ہے کہ لوگوں کا ماضی معیار اور بنیاد نہیں قرار دیا جا سکتا۔
قائد انقلاب اسلامی نے صدر اسلام میں طلحہ اور زبیر کی طویل درخشاں کارکردگی اور پھر ان کے موقف میں آنے والی تبدیلی کا ذکر کیا اور فرمایا : طلحہ اور زبیر سے امیر المؤمنین (حضرت علی علیہ السلام) کا سخت برتاؤ افراد کے بارے میں کوئی بھی رائے قائم کرنے کے لئے زمانہ حال کی صورت حال پر توجہ دینے کی ضرورت کے سلسلے میں ایک تاریخی نمونہ ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے تحریک انقلاب کے اوائل کے بعض ساتھیوں کے سلسلے میں امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی جانب سے کئے جانے والے سخت فیصلے کو اس معیار پر آپ کی مکمل اور عملی پابندی کی علامت قرار دیا اور فرمایا : بعض افراد نجف سے ہی آپ کے ساتھ تھے لیکن ایسا موقع آیا کہ آپ نے ان کے موقف کی وجہ سے انہیں مسترد کر دیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے مکتب فکر کی خصوصیات اور معیارات پر اپنی گفتگو کے اختتام پر عوام بالخصوص نوجوانوں کو امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے ان معیارات اور اصولوں کے بارے میں تحقیق، مطالعے اور غور و فکر کی دعوت دی۔
قائد انقلاب اسلامی نے امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی رحلت کے بعد بھی ملت ایران اور اسلامی جمہوریہ کی طاقت میں ہونے والے روز افزوں اضافے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : دشمنوں کی کوئی بھی منصوبہ بندی ہو اور خواہ سادہ لوحی اور غفلت کے شکار لوگوں کی مدد بھی اس میں شامل ہو جائے آخرکار عظیم ملت ایران کی بصیرت و استقامت کے زیر سایہ اسلامی جمہوریہ کی طاقت میں اضافے کا باعث بنے گی۔
قائد انقلاب اسلامی نے ایران کے دسویں صدارتی انتخابات کے بعد سر ابھارنے والے فتنے کی امریکا، برطانیہ، دیگر مغربی ممالک، منافقین اور سلطنتی نظام کے حامیوں کی جانب سے کی جانے والی حمایت کا ذکر کیا اور فرمایا : دشمنوں اور شر پسندوں کی سازباز، 9 دی اور بائیس بہمن تیرہ سو اٹھاسی ہجری شمسی ( تیس دسمبر دو ہزار نو، گیارہ فروری دو ہزار دس) کو ایرانی قوم کے شکوہ و عظمت کے جلوہ فگن ہونے کا باعث بنی اور آئندہ بھی ایرانی قوم اور اس کے تعلیم یافتہ اور بیدار مغز نوجوان تقوا و بصیرت کے ذریعے دشمنوں کی تمام سازشوں کو نقش بر آب کرتے رہیں گے۔
قائد انقلاب اسلامی نے نماز جمعہ کے خطبہ دوم میں بعض اہم عالمی مسائل کا ذکر کیا اور فرمایا : فلسطین کو یہودی سرزمین بنانے کی سازش، غزہ کے محاصرے کا تسلسل اور اس سے متعلق تبدیلیاں اہم عالمی مسائل ہیں جن پر توجہ دینے اور جن کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
قائد انقلاب اسلامی کے مطابق فلسطین کو یہودی سرزمین بنانے بنانے کا مقصد فلسطین میں اسلام کی جڑیں کاٹ دینا ہے۔ آپ نے فرمایا :عالم اسلام کو چاہئے کہ اپنے پورے وجود سے اس بھیانک جرم کے سامنے ڈٹ جائے اور اسے روکے۔
قائد انقلاب اسلامی نے غزہ کے محاصرے کے تسلسل کو وحشیانہ اقدام قرار دیا اور فرمایا : غزہ میں پندرہ لاکھ انسانوں کی ناکہ بندی امریکا، برطانیہ اور انسانی حقوق کی حفاظت کی دعویدار دیگر مغربی طاقتوں کی حمایت و اعانت سے جاری ہے اور بد قسمتی یہ ہے کہ عرب اور اسلامی ممالک بھی خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں اور بعض تو پس پردہ خائنانہ حرکتیں بھی کر رہے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے غزہ کے لئے امدادی اشیاء لے جانے والے بحری کارواں پر بین الاقوامی سمندری علاقے میں صیہونی حکومت کے حملے اور اس معاملے میں صیہونیوں کے ڈھٹائی اور دروغگوئی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : اس اقدام نے صیہونیوں کی وحشیانہ خصلت کو دنیا کے سامنے آشکارا کر دیا، یہ وحشی پن وہ حقیقت ہے کہ جس کا ذکر تیس سال سے اسلامی جمہوریہ ایران کرتا آ رہا ہے لیکن مغرب کی جھوٹی اور ریاکار طاقتوں نے بے اعتنائی برتی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے غزہ کے لئے امدادی اشیاء لے جانے والے بحری کارواں پر صیہونی حکومت کے حملے کو صیہونیوں سے اندازے کی بہت بڑی غلطی قرار دیا اور فرمایا : صیہونی حکومت سے جس طرح لبنان پر حملے اور پھر غزہ پر حملے کے سلسلے میں اندازے کی شدید غلطیاں ہوئیں اس واقعے میں بھی اس سے بہت بڑی غلطی ہوئی ہے اور یہ پے در پے سرزد ہونے والی غلطیاں اس بات کی غماز ہیں کہ صیہونی حکومت ایک ایک قدم کرکے اپنے حتمی اور یقینی انجام یعنی عدم و نابودی کی کھائی میں سقوط کے قریب جا رہی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے عالمی سطح کی ایک اور اہم تبدیلی کے طور پر نیویارک میں ہونے والے این پی ٹی پر نظر ثانی کے ایک مہینے تک چلنے والے اجلاس کے نتیجے کو قرار دیا اور فرمایا : اس اجلاس کا جو نتیجہ سامنے آیا وہ تسلط پسند طاقتوں کی منصوبہ بندی اور خواہش کے برخلاف تھا کیونکہ ایک سو نواسی ممالک کے دباؤ کے نتیجے میں صیہونی حکومت کو این پی ٹی میں شمولیت کا پابند کیا گیا اور ایٹمی ہتھیاروں کی نابودی کی ضرورت پر توجہ دی گئی۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا :جو کچھ این پی ٹی سے متعلق اجلاس میں ہوا اس سے ثابت ہو گیا کہ دنیا میں امریکا جیسی متکبر اور تسلط پسند طاقت کی بات سننے والا اب کوئی بھی نہیں ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا : اسلامی جمہوریہ ایران ملت ایران کی تیس سالہ استقامت و پائیداری کے نتیجے میں عالمی رائے عامہ کے اندر یہ تاثر قائم کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے کہ قومیں ہی نہیں حکومتیں بھی امریکا کے سامنے ڈٹ سکتی اور اس کی مرضی کے خلاف ووٹ دے سکتی ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے نماز جمعہ کے خطبوں کے اختتام پر فرمایا : یہ عالمی مسائل اور واقعات عظیم ملت ایران کے لئے الہی بشارتوں کا جز ہیں۔
تبصرہ بھیجیں
برای مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
قوانین ملک و مذھب کے خالف اور قوم و اشخاص کی توہین پر مشتمل تبصرے نشر نہیں ہوں گے