05 September 2009 - 15:16
News ID: 226
فونت
سید محمد سبطین باقری :
رسا نیوز ایجنسی – انسان کے کمال کی بلندی خدا کو پہچاننے میں اور اسکی معرفت حاصل کرنے اور اس کی عبادت کرنے میں ہے ۔
سيد محمد سبطين باقري

 

رسا نیوز انجنسی کے نامہ نگار کے مطابق ، حجت الاسلام سید محمد سبطین باقری فرماتے ہیں : کہا جاتا ہے کہ شیطان ماہ رمضان المبارک میں زنجیر میں جکڑ دیا جاتا ہے ۔ تو پھر اس مہینہ میں ہمارے گناہ کی وجہ کیا ہے اور کیوں خدا وند نے شیطان کو مہلت دی ہے کہ وہ ہمیں گناہ کی جانب کھینچے اور ہم اسکے شر سے بچنے کیلۓ ان سختیوں کو برداشت کریں ۔ ؟

1
۔ خدا وند عالم کا مقصد انسان کی خلقت کا یہ ہے کہ وہ انسان کو کمال تک پہنچائے ۔


2۔ انسان کے کمال کی بلندی خدا کو پہچاننے میں اور اسکی معرفت حاصل کرنے میں یہ ہے کہ وہ اسکی عبادت کرے ۔ جس کے لۓ خود خدا وند عالم کا ارشاد ہے { وما خلقت الجنّ والانس الّا لیعبدون}   میں نے جن وانس کو صرف اپنی عبادت کیلۓخلق کیا ہے ۔


3۔ وہ انسان جو عبادت گزار ہے اور کمال کو حاصل کرنے میں مشغول ہے ہم اسی وقت سمجھینگے کہ وہ درجہ کمال کو پانے کیلۓ کوشاں ہے جب وہ اپنے علم اور اختیار سے اس راستہ کا انتخاب کرے ۔ نہ یہ کہ فرشتوں کی طرح صرف عبادت میں مشغول رہے اور گناہ و خدا کی نافرمانی کرنے پر قدرت نہ رکھتا ہو ۔ { بل عباد مکرمون٬ لا یسبقونہ بالقول و ھم با مرہ یعلمون}
ترجمہ : بلکہ وہ سب اسکے باعزت بندے ہیں . اور کسی بات میں اللہ پر سبقت نہیں کرتے ہیں اور اسکے حکم پر عمل کرتے ہیں ۔


4۔ خدا وند عالم نے اسی وجہ سے انسان کو مختار پیدا کیا ہے اسکے سامنے راہ کمال و راہ بدبختی کو رکھا ہے وہ اپنے اختیار سے جسے چاہے انتخاب کرلے ۔

خداوند عالم قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے۔ {انّ ھدیناہ السبیل امّا شاکرا و امّا کفورا} 
ترجمہ : بیشک ہم نے اسے راہ ھدایت دکھا دی اب وہ چاہے شکر کرے یا چاہے نا شکری .

5۔ خدا وند عالم انسانوں کا امتحان لےگا یہ بات تعجب کے قابل نہیں ہے کیونکہ اس نے انسان کو مخلوق مختار بنا کر پیدا کیا ہے اور وہ اسی وجہ سے انسانوں کا امتحان لیگا یہ بات اس آیہ کریمہ سے صاف واضح ہے ۔
{انّا خلقنا الانسان من نطفةٍ امشاج نبتلیہ} 
ترجمہ : بیشک ہم نے انسان کو ملے جلے نطفہ سے پیدا کیا ہے تاکہ اسے آزما سکو ں .


6۔ خداوند عالم نے انسان کو تمام مخلوقات میں اشرف المخلوقات کا درجہ عطا کیا ہے اور اسکی پہدائش پر صرف اپنی تعرف کرتا ہے ۔ {فتبارک اللہ احسن الخالقین} 
ترجمہ : برکتوں والا ہے وہ خدا جو سب سے بھترین پیدا کرنے والا ہے .
 

سبطین باقری نے انسان کے کمال اور نیکی کے راستہ کو اختیار کرنے کے سلسلہ میں بیان کرتے ہیں : انسان کمال اور نیکی کے راستہ کو انتخاب کرے اس کے لۓ خدا نے بہت سارے امکانات اور وسائل مہیہ کیۓ ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں ۔


1. خدا نے انسان کو اسکی فطرت پر پیدا کیا ہے ۔ { فا قم وجھک للدین حنیفاً فطرت اللہ التی فطرالناس علیھا}
ترجمہ : آپ اپنے رخ کو دین کی طرف رکھیں اور باطل سے کنارہ کش رہیں کہ یہ دین وہ فطرت الھی ہے جس پر اسنے انسان کو پیدا کیا ہے ۔


2. حق کی جانب ھدایت اور رہبری کرنے والا خدا ہے ۔ {قل اللہ یہدی للحقّ} 
ترجمہ : کہ دو اللہ ہی حق کی ھدایت کرتا ہے .  


3۔ انسان پر اچھائی اور برائی کا الھام ہوتا ہے تاکہ انسان اس سے آگاہ ہوجاۓ { فا لھمھا فجورھا و تقواھا} 
ترجمہ : پھر بدی اور تقوی کی ھدایت دی۔


4۔ خدا پہ ایمان رکھنے والے کو اور جو اسکے دل میں ہے اسے محبوب قرار دینا ۔ { حبّب الیکم الایمان و زیّنہ فی قلوبکم} 
ترجمہ : اللہ نے تمہارے لیۓ ایمان کو محبوب بنا دیا ہے اور اسے تمہارے دلوں میں آراستہ کر دیا ہے ۔


5 ۔ مومنیں کی مدد کرنا انکی زندگی میں ۔ { انّا لننصر رسلنا والذین آمنوا فی الحیاة الدنیا}
ترجمہ : بیشک ہم اپنے رسول اور ایمان لانے والوں کی دنیا کی زندگی میں بھی مدد کرتے ہیں . 


6. ھدایت کے راستہ کو کھلا رکھنا انسان کی محنت اور کوشش کی وجہ سے ہے ۔ {والذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا و انّ اللہ لمع المحسنین } 
ترجمہ : اور جن لوگوں نے ہمارے حق میں جھاد کیا ہے ہم انھیں اپنے راستوں کی ھدایت کریں گے اور یقیناًً اللہ حسن عمل والوں کے ساتھ ہے .


7 ۔ بہر حال ان تمام امکانات اور وسائل کے باوجود خیر کی جانب کی قوت اور برائی کی جانب کی قوت انسان کے لۓ آزمائش الھی کا سبب بنتی ہے ۔ یعنی وہ قوت جو انسان کو برائی کی جانب قدم بڑھانے کے لۓ وسوسہ پیدا کرتی ہے اس وقت انسان دو راہے پر کھڑا ہوتا ہے کے وہ کدھر جاۓ ایسی حالت میں وہ اپنے عزم و ارادہ سے کسی ایک راستہ کا انتخاب کرتا ہے ۔


حجت الاسلام سید محمد سبطین باقری فرماتے ہیں : دوسرے جملوں میں یوں کہا جاۓ کہ وسوسہ شیطانی باعث بنتی ہے کہ انسان اپنے نفس سے لڑنے کے لۓ آمادہ ہوتا ہے اور عنایت الھی کی مدد سے اس جنگ کا آغاز کرتا ہے تاکہ اس کا نفس کامل طور پر پرورش پاۓ اور کمال کے بلند مرتبہ کو حاصل کرے ۔
شیطان نے نافرمانی کی اور بارگاہ الھی سے نکالا گیا اس وقت اس نے خدا سے مہلت طلب کی کہ وہ انسانوں کو بہکاۓ گا ۔ خدا نے بھی اسے اجمالی طور پر اجازت دی کہ جا تو اپنی طاقت کا امتحان کرلے جو ہمارے نیک و صالح بندے ہونگے وہ تیرے بہکانے میں کبھی نہ آ ئینگے ۔


یہ اجازت نیک و صالح بندوں اور جو شیطان کے بہکاوے کا شکار ہوۓ ہیں صرف انکی پہچان کے لۓ ہے ۔


اس کے باوجود بھی خدا نے شیطان کی طاقت کو محدود رکھا ہے اور اسے اتنی طاقت و قوت عطا نہیں کی کہ وہ ہمیشہ انسان پر مسلط رہے ۔{وما کان لہ علیھم من سلطانٍ الّا لنعلم من یومن بالآ خرة ممّن ھو منھا فی شکٍ} 
ترجمہ : اور شیطان کو ان پر اختیار حاصل نہ ہوتا مگر ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کون آخرت پر ایمان رکھتا ہے اور اسکی طرف سے شک میں مبتلا ہے ۔


8۔ شیطان کا بہکانا صرف اسی انسان پر اثر انداز ہو تا ہے جو برائی کو نیکی پر ترجیح دیتے ہیں ۔ لیکن جو اللہ کے نیک اور صالح بندہ ہیں ان پر شیطان کا کوئی حربہ اثر انداز نہیں ہوتا ہے ۔


جیسا کہ شیطان نے اس بات کا خود اعتراف کیا ہے کہ وہ اللہ کے صالح اور خاص بندوں کو بہکانے میں ناکام رہا ہے ۔ { فبعزتک لا غوینھم اجمعین الّا عبادک المخلصین}
ترجمہ : اور میں سب کو گمراہ کرونگا علاوہ تیرے ان بندوں کے جنھیں تونے خالص بنا لیا ہے ۔


اسی بناء پر شیطان کا بہکانا ان کے لۓ ہے جنھوں نے نداۓ فطرت اور الھام رحمانی سے منھ موڑ لیا ہے اور اپنے اختیار سے کفر اختیار کر چکے ہیں . اور جو زمین پر پاک و پاکیزہ ہیں انکی محبت سے محروم ہیں تو ایسے لوگوں کیلۓ سزاوار ہے کہ وہ وسوسہ شیطانی میں مبتلا رہیں ۔


اور یہ ان لوگوں کیلۓ خدا کی جانب سے اس دینا میں خود ایک سزاء ہے۔
{ الم تر انّا ارسلنا الشیاطین علی الکافرین توٴزّ ھم ازّا} 
ترجمہ : کیا تم نے نہیں دیکھا کہ ہم نے شیاطین کو کافروں پر مسلط کردیا ہے اور وہ ان کو بہکاتے رہتے ہیں ۔


9۔ خدا وند عالم نے مومنین کیلۓ خاص عنایت کا اہتمام کیا ہے ۔ انکے لۓ جگہ وقت اور واسطہ قرار دیا ہے تا کہ وہ اس سے مدد حاصل کریں اور معنویت کو محفوظ و محکم رکھنے کیلۓ تلاش اور کوشش کرتے رہیں ۔


کمال اور معنویت کو حاصل کرنے کا بھترین موقع رمضان کا مہینہ خصوصاً شب قدر ہے۔


خداوند عالم نے اس مہینہ میں شیطان کی طاقت کو محدود کردیا ہے .
( اسی محدودیت کو شیطان کے زنجیر میں جکڑنے سے تعبیر کیا گیا ہے)
لیکن یہ صرف بہترین زمینہ ہے کمالات معنوی کی جانب قدم بڑھانے کا جو انسان کی خواہش پر مبنی ہے ۔


انہوں نے کہا : اگر انسان نہیں چاہے کہ وہ کمال ایمانی کے راستہ پر برقرار رہے چاہے وہ روزہ بھی رکھے لیکن روزہ کی اہمیت کو بڑھانے کیلۓ وہ ترک گناہ کیلۓ کوشش نکرے تو گویا روزہ نے اسکے نفس پر گہرا اثر نہیں ڈالا ہے بلکہ فقط اس سے تکلیف کو ساقط کیا ہے ۔   

 

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬