11 September 2009 - 13:04
News ID: 253
فونت
احتشام الحسن :
رسا نیوز ایجنسی - حقیقی معنوں میں صبر ، مشکلات و حوادث کا مقابلہ اور جنگ کے میدان میں دشمنوں کے سامنے استقامت کو کہتے ہیں ۔
حجت الا سلام احتشام الحسن

 

رسا  نیوز ایجنسی کے نامہ نگار کے مطابق ، حجت الا سلام مولانا احتشام الحسن مولاے کأینات حضرت علی علیہ السلام کا صبر و استقامت کے سلسلہ میں بیان کرتے ہیں : یوں تو انسان اپنی زندگی کو کامل اور آراستہ کرنے کے لۓ کچھ نہ کچھ اصولوں پر عمل کرتاہے اور ان میں سےسب سے اہم اور بنیادی اصل صبر اور استقامت ہے۔


بعض لوگ صبر کا مفہوم و معنی بیان کرتے ہوۓ لکھتے ہیں کہ صبر یعنی اس دنیا میں اپنے اوپر وارد ہونے والی تمام بدبختی اور ذلت و رسوای کو برداشت کر لینا ہی صبر ہے کہ جو بالکل غلط ہے، بلکہ حقیقی معنوں میں صبر کا مفہوم مشکلات و حوادث کا مقابلہ اور جنگ کے میدان میں دشمنوں کے سامنے استقامت کو کہتے ہیں، نیز محرمات الٰہی کو ترک کرنا اور خواہشات نفسانی کی پیروی کر کے ذلیل و خوار نہ ہونا ہے، جیسا کہ مولی الموحدین حضرت علی بن ابی طالب ارشاد فرماتے ہیں: والصبر یناضل الحدثان والجزع من اعوان الزمان۔ صبر حوادث کا مقابلہ کرتا ہے اور بیقراری و عجلت زمانہ کی مددگار ثابت ہوتی ہے۔


آپ نے صرف حوادث پر ہی صبرنہیں کیا بلکہ اس کے اعلیٰ درجہ، رضا و تسلیم کا مظاہرہ کیا جو اس مقام کو پا لیتا ہے پھر وہ دنیا کی کسی مصیبت سے خوف نہیں کھاتا اور ہر شی کو اپنے لۓ خیر سمجھنے لگتا ہے اور اس پر صبر کرتا ہے اور اپنے لۓ ایک لطف خفی سمجھنے لگتا ہے جیسا کہ امیر المومنین نہج البلاغہ میں ارشاد فرماتے ہیں دنیا میںآنے والے غم و آلام کو صبر کے عزایم (ارادے) اور یقین کے حسن کے ذریعہ رد کردو(نامہ 13)


حجت الا سلام مولانا احتشام الحسن نے پہلے امام کی صبر اور استقامت کو بیان کرتے ہوئے کہا : امام علیہ السلام نے انتہای ناگوار اور سخت حوادث کے سامنے بھی صبر سے کام لیا، مسٔلہ خلافت جس پر صبر ایک ناممکن امر تھا آپ نے اس درناک حادثہ کی طرف اشارہ کرکے فرماتے ہیں میں نے دیکھا کہ سواۓ میرے گھر والوں کے میرا کوئی مددگار نہیں تو میں نے انہیں موت کے منہ میں دینے سے گریز کیا، میں نے اس وقت چشم پوشی کی جب آنکھوں میں خس و خاشاک تھا میں نے غم و غصہ کے گھونٹ پٔے اور گلوگرفتگی اور حنظل سے زیادہ تلخ حالات پر بھی صبر کیا۔ 


غصب خلافت کے بعد بھی آپ علیہ السلام نے امامت و خلافت کے حقوق کے ضایع ہونے کی طرف اشارہ کرکے گلہ کرتے ہوۓ اپنے صبر کو دوسروں کے سامنے خطبۂ شقشقیہ کی صورت میں ارشاد فرماتے ہیں حالانکہ وہ خوف جانتا ہے کہ خلافت کی چکی کے لۓ میری حیثیت مرکزی کیل کی ہے۔ علم ودانش کا سیلاب میری ذات سے گذر کر نیچے جاتا ہے اور میری بلندی تک کسی کا طایر فکر بھی پرواز نہیں کر سکتا ہے پھر میں نے خلافت کے آگے پردہ ڈال دیا اور اس سے پہلو تہو کرلی ۔


آپ نے ہمیشہ زندگی کے تکامل کے اصول بتاۓ کہ اے لوگو مصایب و آلام سے گھبرا کر آہ و بکا کرنے لگو بلکہ صبر کرو جب کہ عبد اللہ میمون نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ ایک دفعہ آپ مسجد میں داخل ہوۓ تو دیکھا کہ ایک شخص گوشہ میں بیٹھکر رورہا ہے وجہ پوچھی تو کہنے لگا کہ میرے والد اور بھائ کا انتقال ہوگیا ہے کہیں میں اسی غم کی فکرمیں دیوانہ نہ ہوجاؤں تو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ تقوی الہی اختیار کرو، صبر کرو تاکہ روز قیامت اس کے پاس جا سکو اس لۓ کہ کسی بھی عمل کے صبر کا مقام ایسا ہی ہے جسے انسانی بدن میں اس کے سر کا اگر چہ جدا ہوجاۓ تو بدن کا فایدہ ہی ختم ہوجاۓ گا اسی طرح سے کسی بھی عمل میں اگر صبر نہ ہو تو تباہی اور فساد ہوتاہے ۔


یہ آپ کا ہی صبر تھا کہ اپنے قاتل کو جانتے ہوۓ بھی جرم کے ارتکاب سے پہلے سزا دینا مناسب نہیں سمجھتے تھے۔ 19 رمضان المبارک 40 ہجری کی صبح کو جب مرتکب جرم ہوتا ہے اور گرفتار کرکے سامنے لایا جاتا ہے توآپ نے سوال کیا کہ بتا میں نے تیرے حق میں کون سا برا کام انجام دیا تھا اور اپنے فرزند سے کہا کہ اس کی مشکیں ڈھیلی کرو اور پیاسا ہے اسے پانی پلاؤ یہ سب کے سب صبر کے بلند ترین معیار ہیں جنہیں آپ نے بتاۓ پروردگارا ہمیں بھی ان نورانی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرما۔

 

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬