حقیقی بعثت
قرآن کریم کی پہلی آیت کے نزول کے سلسلہ میں احادیث مختلف ہیں
۲۷ رجب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعثت کا روز
حقیقی بعثت
قرآن کریم کی پہلی آیت کے نزول کے سلسلہ میں احادیث مختلف ہیں ۔ اور متعدد اعتراض کے ساتھ وارد ہوئی ہیں ، اس سلسلہ میں جو احادیث شیعوں کی کتابوں میں ذکر ہوئی ہیں وہ سند کے اعتبار سے مستحکم اور بہتر ہے ۔
حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے روایت کے ضمن میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صفات کو اس طرح بیان کرتے ہیں ۔ وہ فرماتے ہیں : جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم چالیس سال کے ہو ئے اور خداوند عالم نے ان کے قلب کو بہت ہی بہتر ، بلند ، خاشع اور مطیع قلبوں میں سے پایا تو آسمان کے دروازے کو کھولنے کی اجازت دے دی اور فرشتے کو اجازت دی کہ وہ نازل ہوں ، اس وقت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان سب کو دیکھ رہے تھے پھر عرش سے ان کی طرف رحمت نازل ہو ئی اور وہ روح الامین فرشتہ یعنی جبرئیل جو فرشتہ کے سرار ھیں ان کو دیکھ رہے تھے ۔ جبرئیل ان کے قریب اترے ان کے ہاتھ کو پکڑ کر ہلایا اور کہا : اے محمد ! پڑھو ، محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : کس چیز کو پڑھوں ، جبرئیل نے کہا : اے محمد! « اقرأ باسم ربک الذی خلق.خلق الانسان من علق . اقرأ و ربک الاکرم . الذی علم بالقلم . علم الانسان ما لم بعلم » ۔ اس کے بعد وہ چیز جو ان پر نازل کرنی تھی کی اور خدا کی طرف واپس چلے گئے ۔
محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پہاڑ پر سے اس حالت میں نیچے آئے کہ خدا کی عظمت اور اس کی جلالت اور شان و شوکت ابھی ان کو اپنا مدھوہش کر رکھا تھا اور جسم میں لرزش اور بخار کا سامانا کر نا پڑا تھا ان کی بے چینی اور پریشانی کو جو چیز زیادہ کر رہی تھی ، وہ یہ تھی کہ وہ ڈرتے تھے قریش ان کا تکذیب کریں گے ، اور ان کی طرف دیوانگی کی نسبت دیں گے ۔
حالانکہ وہ ان لوگوں میں عاقل ترین ، معزز اورمحترم ترین شخص تھے ، اور ان کا غصہ اور سب سے زیادہ ناراض ہو نے والی چیز شیطان اور پاگلوں کا پاگل پن تھا ۔ اس لئے خدا وند عالم نے ان کے قلب کو شجاعت سے پر کرنے کا ارادہ کیا اور ان کے دل کو وسعت عنایت کی ، اسی وجہ سے وہ جب بھی کسی پتھر اور درخت کے کنارے سے گزرتےتھے ، تو سنتے تھے وہ سب کہتے ہیں : السلام علیک یا رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) (۱)
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت کو مخلتف زاویہ سے تحقیق کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس کی ضرورت اور اہمیت بہت ہی زیادہ ہے ۔ تا کہ سب لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف رجوع کریں ۔ اور خود ان کے اندر جو خدا نے انکو ذمداری دی جسکا انحصارخدا کے حکم اور ان کے بھیجے ہو ئے پیغمبر اسلام اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ان کی اولاد کی اطاعت کے حکم کی ذمہ داری کا احساس کر سکیں ۔
معاشرہ کے خاص ، چنے ہو ئے ، با خبر لوگ کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ اپنے دوش پر ذمہ داری کا احساس کرتے ہیں ۔ ان کی ذمہ داری جو ان کے ضمیر کو ہمیشہ اس چیز کا احساس دلاتی ہے ۔ وہ لوگون کو جہالت کے اندھیرے سے نکال کر علم اور عمل کی روشنائی کی طرف لے جاتے ہیں ۔
وہ لوگ اپنے آپ کو غیر معصوم رسول سمجھتے ہیں ۔ خدا کے پیغمبر کے رتبے میں نہیں آتے ہیں لیکن رسولوں اور اماموں کے قدم کی جگہ اپنا پاؤ رکھتے ہیں ، یہی بات بہت ہی فکر کرنے کا مقام ہے ۔
قرآن مجید پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تمام بشریت کے لئے پیروی کا بہترین اسوہ اور نمونہ بیان کرتا ہے : « لکم فی رسول الله اسوه حسنه » (۲)تم لوگوں کے لئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا وجود ایک بہترین اور نیک نمونۂ عمل ہیں ۔
پھر قرآن ان کو اخلاق کا نمونہ پہچنوارہا ہے : « انک لعلی خلقٍ عظیم » (۳)بے شک آپ اخلاق کے بالاترین مقام پر فائز ہیں ۔
حقیقی بعثت
قرآن کریم کی پہلی آیت کے نزول کے سلسلہ میں احادیث مختلف ہیں ۔ اور متعدد اعتراض کے ساتھ وارد ہوئی ہیں ، اس سلسلہ میں جو احادیث شیعوں کی کتابوں میں ذکر ہوئی ہیں وہ سند کے اعتبار سے مستحکم اور بہتر ہے ۔
حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے روایت کے ضمن میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صفات کو اس طرح بیان کرتے ہیں ۔ وہ فرماتے ہیں : جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم چالیس سال کے ہو ئے اور خداوند عالم نے ان کے قلب کو بہت ہی بہتر ، بلند ، خاشع اور مطیع قلبوں میں سے پایا تو آسمان کے دروازے کو کھولنے کی اجازت دے دی اور فرشتے کو اجازت دی کہ وہ نازل ہوں ، اس وقت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان سب کو دیکھ رہے تھے پھر عرش سے ان کی طرف رحمت نازل ہو ئی اور وہ روح الامین فرشتہ یعنی جبرئیل جو فرشتہ کے سرار ھیں ان کو دیکھ رہے تھے ۔ جبرئیل ان کے قریب اترے ان کے ہاتھ کو پکڑ کر ہلایا اور کہا : اے محمد ! پڑھو ، محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : کس چیز کو پڑھوں ، جبرئیل نے کہا : اے محمد! « اقرأ باسم ربک الذی خلق.خلق الانسان من علق . اقرأ و ربک الاکرم . الذی علم بالقلم . علم الانسان ما لم بعلم » ۔ اس کے بعد وہ چیز جو ان پر نازل کرنی تھی کی اور خدا کی طرف واپس چلے گئے ۔
محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پہاڑ پر سے اس حالت میں نیچے آئے کہ خدا کی عظمت اور اس کی جلالت اور شان و شوکت ابھی ان کو اپنا مدھوہش کر رکھا تھا اور جسم میں لرزش اور بخار کا سامانا کر نا پڑا تھا ان کی بے چینی اور پریشانی کو جو چیز زیادہ کر رہی تھی ، وہ یہ تھی کہ وہ ڈرتے تھے قریش ان کا تکذیب کریں گے ، اور ان کی طرف دیوانگی کی نسبت دیں گے ۔
حالانکہ وہ ان لوگوں میں عاقل ترین ، معزز اورمحترم ترین شخص تھے ، اور ان کا غصہ اور سب سے زیادہ ناراض ہو نے والی چیز شیطان اور پاگلوں کا پاگل پن تھا ۔ اس لئے خدا وند عالم نے ان کے قلب کو شجاعت سے پر کرنے کا ارادہ کیا اور ان کے دل کو وسعت عنایت کی ، اسی وجہ سے وہ جب بھی کسی پتھر اور درخت کے کنارے سے گزرتےتھے ، تو سنتے تھے وہ سب کہتے ہیں : السلام علیک یا رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) (۱)
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت کو مخلتف زاویہ سے تحقیق کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس کی ضرورت اور اہمیت بہت ہی زیادہ ہے ۔ تا کہ سب لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف رجوع کریں ۔ اور خود ان کے اندر جو خدا نے انکو ذمداری دی جسکا انحصارخدا کے حکم اور ان کے بھیجے ہو ئے پیغمبر اسلام اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ان کی اولاد کی اطاعت کے حکم کی ذمہ داری کا احساس کر سکیں ۔
معاشرہ کے خاص ، چنے ہو ئے ، با خبر لوگ کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ اپنے دوش پر ذمہ داری کا احساس کرتے ہیں ۔ ان کی ذمہ داری جو ان کے ضمیر کو ہمیشہ اس چیز کا احساس دلاتی ہے ۔ وہ لوگون کو جہالت کے اندھیرے سے نکال کر علم اور عمل کی روشنائی کی طرف لے جاتے ہیں ۔
وہ لوگ اپنے آپ کو غیر معصوم رسول سمجھتے ہیں ۔ خدا کے پیغمبر کے رتبے میں نہیں آتے ہیں لیکن رسولوں اور اماموں کے قدم کی جگہ اپنا پاؤ رکھتے ہیں ، یہی بات بہت ہی فکر کرنے کا مقام ہے ۔
قرآن مجید پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تمام بشریت کے لئے پیروی کا بہترین اسوہ اور نمونہ بیان کرتا ہے : « لکم فی رسول الله اسوه حسنه » (۲)تم لوگوں کے لئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا وجود ایک بہترین اور نیک نمونۂ عمل ہیں ۔
پھر قرآن ان کو اخلاق کا نمونہ پہچنوارہا ہے : « انک لعلی خلقٍ عظیم » (۳)بے شک آپ اخلاق کے بالاترین مقام پر فائز ہیں ۔
وہ لوگ جو اپنے آپ کو معاشرہ کے خاص اور باخبر لوگوں میں سمجھتے ہیں ، ان کو چاہئے کہ رسول گرامی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سیرت پر عمل کریں ۔ تا کہ انفرادی اخلاق اور اجتماعی اخلاق کے ساتھ معاشرہ کو دینی اخلاق کی طرف دعوت دیں ، تا کہ اپنے اور معاشرہ کی خوشحالی کا راستہ فراہم کر سکیں ۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعثت کا بہت ہی اہم اور بڑا پیغام یہ ہے کہ آدمی کو چاہئے کہ دوسری مرتبہ اپنے اور معاشرے کی زندگی اور حیات کے لئے اٹھے اور خدا کی اطاعت اور رسولوں کی تعلیمات کی پیروی کرے ، اور خاص کر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ان کی اولاد کی پیروی کرے ۔ بعثت میں ایک بعثت آمادہ کرے ، خود اور معاشرہ کو بلند مرتبے پر پہچنانے کی مدد کرے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1. مجلسی، بحارالانوار، ج18، ص206
2. حشر/21
3. قلم/4
تبصرہ بھیجیں
برای مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
قوانین ملک و مذھب کے خالف اور قوم و اشخاص کی توہین پر مشتمل تبصرے نشر نہیں ہوں گے