21 July 2009 - 14:04
News ID: 30
فونت
حقیقی بعثت
قرآن کریم کی پہلی آیت کے نزول کے سلسلہ میں احادیث مختلف ہیں
۲۷ رجب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعثت کا روز
‏۲۷ رجب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعثت کا روز ‏


حقیقی بعثت

قرآن کریم کی پہلی آیت کے نزول کے سلسلہ میں احادیث مختلف ہیں ۔ اور متعدد ‏اعتراض کے ساتھ وارد ہوئی ہیں ، اس سلسلہ میں جو احادیث شیعوں کی کتابوں ‏میں ذکر ہوئی ہیں وہ سند کے اعتبار سے مستحکم اور بہتر ہے ۔

حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے روایت کے ضمن میں پیغمبر اکرم ‏صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صفات کو اس طرح بیان کرتے ہیں ۔ وہ فرماتے ‏ہیں : جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم چالیس سال کے ہو ئے اور ‏خداوند عالم نے ان کے قلب کو بہت ہی بہتر ، بلند ، خاشع اور مطیع قلبوں میں ‏سے پایا تو آسمان کے دروازے کو کھولنے کی اجازت دے دی اور فرشتے کو ‏اجازت دی کہ وہ نازل ہوں ، اس وقت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان ‏سب کو دیکھ رہے تھے پھر عرش سے ان کی طرف رحمت نازل ہو ئی اور وہ ‏روح الامین فرشتہ یعنی جبرئیل جو فرشتہ کے سرار ھیں ان  کو دیکھ رہے تھے ‏۔ جبرئیل ان کے قریب اترے ان کے ہاتھ کو پکڑ کر ہلایا اور کہا : اے محمد   ! ‏پڑھو ، محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  نے فرمایا : کس چیز کو پڑھوں ‏، جبرئیل نے کہا : اے محمد!  « اقرأ باسم ربک الذی خلق.خلق الانسان من علق . ‏اقرأ و ربک الاکرم . الذی علم بالقلم . علم الانسان ما لم بعلم » ۔ اس کے بعد وہ ‏چیز جو ان پر نازل کرنی تھی کی اور خدا کی طرف واپس چلے گئے ۔

محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پہاڑ پر سے اس حالت میں نیچے آئے ‏کہ خدا کی عظمت اور اس کی جلالت اور شان و شوکت ابھی ان کو اپنا مدھوہش ‏کر رکھا تھا اور جسم میں لرزش اور بخار کا سامانا کر نا پڑا تھا ان کی بے ‏چینی اور پریشانی کو جو چیز زیادہ کر رہی تھی ، وہ یہ تھی کہ وہ ڈرتے تھے ‏قریش ان کا تکذیب کریں گے ، اور ان کی طرف دیوانگی کی نسبت دیں گے ۔

حالانکہ وہ ان لوگوں میں عاقل ترین ، معزز اورمحترم ترین شخص تھے ، اور ‏ان کا غصہ اور سب سے زیادہ ناراض ہو نے والی چیز شیطان اور پاگلوں کا ‏پاگل پن تھا ۔ اس لئے خدا وند عالم نے ان کے قلب کو شجاعت سے پر کرنے کا ‏ارادہ کیا اور ان کے دل کو وسعت عنایت کی ، اسی وجہ سے وہ جب بھی کسی ‏پتھر اور درخت کے کنارے سے گزرتےتھے ، تو سنتے تھے وہ سب کہتے ہیں ‏‏: السلام علیک یا رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) (۱)‏

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کی بعثت کو مخلتف زاویہ سے تحقیق ‏کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس کی ضرورت اور اہمیت بہت ہی زیادہ ہے ۔ تا کہ ‏سب لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف رجوع کریں ۔ اور خود ‏ان کے اندر جو خدا نے انکو ذمداری دی جسکا انحصارخدا کے حکم اور ان کے ‏بھیجے ہو ئے پیغمبر اسلام اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ان کی اولاد کی ‏اطاعت کے حکم کی ذمہ داری کا احساس کر سکیں ۔

معاشرہ کے خاص ، چنے ہو ئے ، با خبر لوگ کی اہم خصوصیت یہ ہے ‏کہ اپنے دوش پر ذمہ داری کا احساس کرتے ہیں ۔ ان کی ذمہ داری جو ان کے ‏ضمیر کو ہمیشہ اس چیز کا احساس دلاتی ہے ۔ وہ لوگون کو جہالت کے ‏اندھیرے سے نکال کر علم اور عمل کی روشنائی کی طرف لے جاتے ہیں ۔

وہ لوگ اپنے آپ کو غیر معصوم رسول سمجھتے ہیں ۔ خدا کے پیغمبر کے ‏رتبے میں نہیں آتے ہیں لیکن رسولوں اور اماموں کے قدم کی جگہ اپنا پاؤ ‏رکھتے ہیں ، یہی بات بہت ہی فکر کرنے کا مقام ہے ۔‏

قرآن مجید پیغمبر اسلام  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تمام بشریت کے لئے ‏پیروی کا بہترین اسوہ اور نمونہ بیان کرتا ہے : « لکم فی رسول الله اسوه حسنه » ‏‏(۲)‏تم لوگوں کے لئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا وجود ایک بہترین اور ‏نیک نمونۂ عمل ہیں ۔

پھر قرآن ان کو اخلاق کا نمونہ پہچنوارہا ہے : « انک ‏لعلی خلقٍ عظیم » (۳)‏بے شک آپ اخلاق کے بالاترین مقام پر فائز ہیں ۔

وہ لوگ جو اپنے آپ کو ‏معاشرہ کے خاص اور باخبر لوگوں میں سمجھتے ہیں ، ان کو چاہئے کہ رسول ‏گرامی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سیرت پر عمل کریں ۔ تا کہ انفرادی اخلاق ‏اور اجتماعی اخلاق کے ساتھ معاشرہ کو دینی اخلاق کی طرف دعوت دیں ، تا ‏کہ اپنے اور معاشرہ کی خوشحالی کا راستہ فراہم کر سکیں ۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعثت کا بہت ہی اہم اور بڑا پیغام یہ ‏ہے کہ آدمی کو چاہئے کہ دوسری مرتبہ اپنے اور معاشرے کی زندگی اور ‏حیات کے لئے اٹھے اور خدا کی اطاعت اور رسولوں کی تعلیمات کی پیروی ‏کرے ، اور خاص کر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ان کی اولاد کی ‏پیروی کرے ۔ بعثت میں ایک بعثت آمادہ کرے ، خود اور معاشرہ کو بلند مرتبے ‏پر پہچنانے کی مدد کرے ۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
‏1. مجلسی، بحارالانوار، ج18، ص206‏
‏2. حشر/21‏
‏3. قلم/4‏

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬