25 September 2009 - 16:34
News ID: 319
فونت
مصطفى جعفرپيشه :
1. اسلامى شريعت ميں مقوله اجتهاد ، گرانبها گوهرا ور ختم نہ ہونے والےخزانے کے مانند ہے يہ گوهر اس وقت بے مثال حيثيت کے مانند تجلي پاتا ہے جب مذهب اهل بيت‏عليهم السلام ميں جلوه‏گر ہو، ايسا مذھب جو ھميشہ باب اجتهاد کھلے رہنے کا قائل تھا اور ہے اوربہت سارے اسلامي مذاھب کے بر خلاف کھبي بھي اس نے باب اجتھاد بند نہ ہونے ديا .
رؤيت هلال اورمختلف فقهى نظريات


2. اجتھاد کو قبول کرنا اور اسےمشروع جاننا،متعددنظريات و اراء اورمختلف فتووں کو ، اصول و اجتهادي مبني کے تحت قانوني سمجھنا ، اس فن کا طريقہ اور شيوہ ہے.

ايک فقھي مسله ميں مختلف نظريات ، اجتناب‏ناپذيرواقعيت اور اجتھاد کا لازمہ ہے بہت کم ايسےفقہي مسائل ملتے ہيں کہ جن ميں مختلف اور متفاوت فتوے موجود نہ ہوں ، نماز جمعہ کے حکم ميں اس حال ميں کہ شهيد ثانى اور صاحب حدائق  جيسے فقہاء وجوب تعيينى نماز جمعه کےمعتقد ہيں، بعض ديگر فقہاء جيسے 
سلاّر ، ابن ادريس ، نراقى اور آيت‌اللَّه بروجردى عصر غيبت ميں اسکي حرمت يا توقف کے قائل ہيں .

3. فتووں اورنظريات کا اختلاف اجتھاد کا ذاتي لازمہ اوراسکي اساس ہے يہ مختلف نظريات کے پيش کرنے اور علم فقہ کے پہلنے اور اسکے رشد کا ايک بہترين موقع ہے ، اسے سياسي اختلافات سے ملوث کرکے بدبين افرادکو موقع نہ ديں . 

4. رويت ھلال کا مسلہ فقہي مسائل ميں اھم ترين مسلہ ہے جو مذکورہ قانون سے مستثني نہي ہے ، فقہاء نے اس کے لئے جيسے رؤيت، تواتر، وہ شايعہ جو مفيد علم ہو، مہينہ کےتيس دن پورے ہوجانا ، بيّنه ا ور حکم حاکم کو ثبوت هلال کے راستے بيان کئے ہيں اوران ميں سے ھر ايک عنوان کے ضمن ميں مختلف فتوے موجود ہيں .

5. رؤيت کے ذريعہ ثبوث هلال کي گفتگو ميں ، مختلف فتوے ملتے ہيں کہ مختصر طور پر اسکي اس طرح رپورٹ پيش کي جاسکتي ہے.

1/5) بعض فقہاء رؤيت هلال  ميں اتحاد افق کو قبول کرتےہيں اورايک علاقہ ميںرؤيت هلال کو ديگر تمام علاقوں کے لئے جو شب ميں مشترک ہيں کافي جانتے ہيں جيسے مرحوم آيت اللَّه خويى اورانکےبعض شاگرد جيسے مرحوم آيت اللَّه جواد تبريزى کا نظريات )

1/5) بعض ديگرفقہاء رؤيت هلال  ميں اتحاد افق کو نہي مانتے اور ايک علاقہ ميں رؤيت هلال کو ديگر تمام علاقوں کے لئے کافي نہي جانتے ہيں(مشهورکا نظريه)

6. جو اتحاد افق کو قبول کرتےہيں وہ خود بہ خود دو حصہ ميں تقسيم ہوتے ہيں .

1/6) جوڈائرکٹ انکھ سےيعني بغير کسي وسيلہ کي مددکے معتبر سمجھتے ہيں انکي نگاہ ميں چشم مسلح سے رويت کافى نہي ہے جيسے (حضرت امام اوربعض معاصر فقهاء، آيت اللَّه سيستانى اور آيت اللَّه مکارم کانظريه)

2/6) اور جو فقہاء چشم مسلح کي رويت کو ڈائرکٹ انکھ کي رؤيت کي طرح کافى اورمعتبر جانتے ہيں جيسے(مرحوم آيت‏اللَّه بهجت، مرحوم آيت اللَّه فاضل لنکرانى، مقام معظم رهبرى، آيت اللَّه نورى همدانى و آيت اللَّه موسوى اردبيلى کا نظريه)

نتيجہ يہ کہ ثبوت رؤيت هلال کے سلسلے ميں ھم عصر فقھاء کے درميان تين مختلف فقہي فتوي موجود ہے اور مسلم ہے کہ يہ تين نگاہ خود ان بزرگان اور انکے مقلدين کے لئے حجت ہے اور شرعي اعتبارو نفاذ کا حامل ہے اور نظريات کا يہ فرق کبھي بھي بد طينت افراد کا حربہ نہ بننے پائے اور اسے اختلاف کا رنگ دے کر معاشرے کو مشکلات سے دوچار کيا جائے . 

7.  ثبوت هلال کا ايک دوسرا طريقہ حکم حاکم ہے اس سلسلے ميں بھي دو نگاہ اور فقہي فتوے ملتے ہيں .

1/7) جو لوگ ثبوت هلال کے سلسلے ميں حکم حاکم شرع کو نافذ سمجھتے ہيں اور اسے تمام مجتهدين اور انکےمقلدين کے لئے حجت جانتے ہيں مگر يہ کہ اس کے مستند کي خطاء سے عالم ہو ں (مشهورکا نظريه)

2/7) جو لوگ ثبوت هلال کو حکم حاکم  کے ذريعہ اشکال کرتے ہيںاگر چہ انکار بھي نہي کرتے (آيت اللَّه خويى اور بعض ديگر فقهاء کا نظريه)

8. مذکورہ نظريات کي تحقيق سے يہ نتيجہ نکلتا ہےکہ ثبوت هلال کے طريقے بھي ديگر فقہي مسائل کے مانند فقہاء کےدرميان مورد اختلاف ہے اور ھر ايک مقلد اپنے مجتھد کے فتوے پر عمل کرے مگر يہ حقيقت اسلامي معاشرے ميں اختلاف اور شگاف کا سبب نہ بنے بلکہ ديگر فقہي مسائل کي طرح فقہ و علم فقہ کي ترقي کا سبب ہونا چاھئے.

والحمد للَّه رب العالمين

 

 

 

 

 


تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬