21 July 2009 - 16:56
News ID: 36
فونت

گفتگو:

رسا نیوز ایجنسی : ریڈیو معارف کے ڈائریکٹر نے کہا : بغیر موسیقی کے پروگرام کی ریلیز موسیقی کے حرام ہونے کی بناء پہ  نہیں ہے ۔

ریڈیو معارف ایک ایسا میڈیا ہے جو ابتداء تأسیس سے دینی اور مذہبی پروگرام کو بغیر میوزیک اور موسیقی کے ریلیز کرتا رہاہے اس ابتدائی ایام ہے سے  اس کے موافقین کے ساتھ مخالفین بھی رہے جو کچھ آپ کے سامنے ہے وہ رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر کا حجۃ الاسلام والمسلمین جناب عاطفی نیاسر ریڈیو معارف کے ڈائریکٹر سے اس کے پروگرام اور اس کی کار کردگی اور اس میڈیا سے سامعین کی رضایت کے سلسلے میں لیا ہوا  انٹرویو ہے :

رسا : ریڈیو معارف کب اور کس طرح تأسیس ہوا ؟

سن 1997 مختلف موضوعات پر ریڈیو کے کھلنے کا زمانہ تھا اسی  سال رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت ایتھ اللہ  سید علی خامنہ ای دام ظلہ کی فرمائش اور جناب لاریجانی ریڈیو اور ٹی وی کے ڈائریکٹر کی ہدایات کے مطابق معارف اسلامی کے موضوع اور عنوان پر ایک ریڈیو چینل مخصوص کیا جانا طے پایا ۔

اسی سال کے نیمہ دوم سے اس کی پروگرامینگ اور تحقیقات شروع ہوئی اور پھر افراد کا انتخاب کیا گیا اور اس کے بعد ان لوگوں کو مزید تربیت دینے کے لئے تہران بھیجا گیا اور اس سلسلے میں جو کار کردگی انجام پائی اس کے تحت ریڈیو معارف اسلامی ۲۲ بہمن انقلاب اسلامی کی سالگردکے دن آزمایش کے طور پہ شروع کیا گیا اور۲۸ بہمن ( فروری ۱۹۹۸ ) کواس چینل نے رسمی طور پر اپنی سرگرمی شروع کردی  ۔

رسا : منتخب افراد کو کس طرح کی تعلیم دی گئی ؟

ریڈیو معارف کی خاصی سیاست کے مطابق بناء اس بات پر رکھی گئی کہ ان افراد کو پروگرام آمادہ کرنے کی اساسی اور بنائی تعلیم دی جائے اور اسی طرح پروڈیوسر اور سخنوری اور آوازریکارڈنگ اور رپورٹنگ کی تعلیم دی جائے اس سلسلے میں پہلا گروہ تیرہ ماہ ۱۳۷۷ (شمسی) میں بھیجا گیا ۔

 رسا : منتخب افراد کی تعلیمی سطح کیا تھی ؟

پروڈیوسر کے شعبہ میں سارے افراد طلاب علوم دینی میں سے تھے البتہ ان لوگوں نے یونیورسٹی سے بھی تعلیم حاصل کی تھی اور سخنوری کے شعبہ میں کچھ طلاب علوم دینی اور کچھ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل تھے ۔ اور آواز ریکارٖڈنگ کے شعبہ میں چونکہ خاص مہارت کا ہونا ضروری تھا اس لئے اسی میں ان افراد کا انتخاب کیا گیا جو ٹیکنیکل کورس کر چکے تھے ۔

نوآوری کے لحاظ سےگزشتہ سال کی کارکردگی کیسی رہی ؟

ھم نے ابتداء سال سے اس شعبہ کی ذمہ داری سنبھالی اورابتداءہی میںتین اہم پروگرام کی طراحی کی تاکہ نوآٓوری کے سال میں نئے پروگرام بننے کے ساتھ ساتھ خود ریڈیومیں بھی نیا پن ہونا چاہئے   

 رسا : کس قسم کی نو آوری تھی ؟

ہمارا پہلا اہم پروگرام پروانہ تھا کہ ہم اپنے فنی اور ٹیکنیکل پروگرام میں فقط اپنی انتظامیہ سے استفادہ نہ کریں بلکہ دیگر ادارے جو ٹیکنیکل امور میں مہارت رکھتے ہیں انہیںبھی بروئےکارلائیں۔
 اسی بناء پرہم نے پروگرام کے ٹیکنیکل مسائل کو ان اداروں کے حوالے کیا اور اصل پروگرام کو آمادہ کرنے کی ذمہ داری ہم نے خود اپنے ذمہ رکھی اوراس طرح ہم نے ایک ریڈیو پروگرام آمادہ کیا۔
 ہم نے اس سلسلے میں علوم حدیث یونیورسٹی اور موسسہ تخصصی مہدویت اور نور مبین اور نشر آثار امام خمینی
ؒ کے ساتھ اپنا کام شروع کیا ۔
اوردوسرا پروگرام جس کی ہم نے طراحی کی وہ ریڈیو کے مخاطبین کی سماعتوں کے ساتھ ساتھ ان کی بصارت کو بھی مشغول رکھنے کا پروگرام تھا اور وہ اس طرح کہ ہم نے بعض مناسبتوں اور مواقع پر اپنے اسٹوڈیو کو ریڈیو اسٹیشن کے احاطہ سے باہر  بھیجا اور پرواگرام اجراء کرنے والوں نے لوگوں کے درمیان اپنا پروگرام اجراء کیا۔
تہران کی نمایشگاہ قرآن کریم اورقم کی نمایشگاہ کریمہ اہلبیت حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہما میں اور اسی طرح نیمہ شعبان میں نمایشگاہ حضرت حجت عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف میں اس طرح کی کار کردگی انجام پائی ۔

اور تیسرا پروگرام ریڈیو کی خاص سیاست میں تبدیلی تھی کہ اس سال سے ہم نے مصمم ارادہ کیا ہے کہ ماہرین کی جدیت کے ساتھ راہنمائی کی جائے تاکہ ان کے سخن اور بیان میں بطور واضح تبدیلی واقع ہو اور ان کی زبان تأثیر گزار رہے
 کیونکہ ہمارے ماہرین معمولاً حوزہ علمیہ اور یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ ہیں اور ایک خاصی حیثیت کے حامل ہیں قطعاً اپنے مخاطبین سے مکمل طور پر رابطہ برقرار کر سکتے ہیں۔
 اوراسی طرح ہم کوشش کر رہے ہیں کہ مزید جوان ماہرین کو جذب کر کے انہیں جوانوں کا مخاطب قرار دیں تاکہ ہر صنف سے خود اس کے لہجے میں سخن سرائی ہو سکے ۔

رسا : کیا خاص نوعیت کی نو آوری بھی تھی ؟

اس سال ہم نے ارادہ کیا ہے کہ ریڈیو معارف کے برابر سننے والوں کے علاوہ دیگر سامعین کو بھی مخاطب بنا سکیں اور ان کی شناسائی کر سکیں اس بنا پر ہم نے اپنی کلاسیں ، انسان کی زندگی میں احادیث نبوی کی کار آئی ، قرآن کریم کے ترجمہ کرنے کا طریقہ ، خلقت کا نگینہ ( امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف سے مربوط ) کے معلومات پر رکھیں اور اسی طرح صحیفہ امام خمینی اور ان کے وصیت نامہ کو پڑھا گیا۔
ابتداء میں ان کلاسوں میں شرکت کرنے والے افراد کا نام لکھوایا گیا اور پھر ان ک امختصرامتحان لیا گیا اور کلاسوں کے ختم ہونے پر ان کو گواہی نامہ و تصدیق نامہ بھی دیا گیا ۔
ان کلاسوں کا اچھا استقبال ہوا ،خصوصا رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای دام ظلہ کی حضرت امام خمینی کے وصیت نامہ پر  خاص تاکید کی بناء پر احزاب اور ادارات سے ارتباط برقرار کیا گیا اور ان لوگوں کی جانب سے بہت استقبال ہوا اور ایجوکیشن منسٹری  نے بھی اس سلسلے میں کافی حد تک ہمارا ساتھ دیا کہ تہران اور اس کے اطراف کے شہروں میں ۹۰ ہزار استاد کو اسی پروگرام کے اجراءکرنے میں ہمارے ساتھ رہنے پر مآمور کیا۔

اور زندہ پروگرام میں فقط ۹۰ منٹ کا صبح گاہی کا پروگرام تھا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم نے اسے ۱۲۰ منٹ تک پہونچا دیا ۔

انگلیش چینل سے ابتداء میں ۲۱ گھنٹہ کا پروگرام آمادہ کیا گیا اور رفتہ رفتہ اسے بھی ۹۰ گھنٹہ تک پہونچا دیا پہلے اس چینل سے فقط تقریریں ہوا کرتی تھیں مگر اس وقت پروگرام وسعت پا کر مکس پروگرام نشر ہوتا ہے ۔

رسا : اس سال کے پروگرام کی تشریح کریں ؟

امسال بھی پچھلے سال ہی کی طرح بناء اس بات پر ہے کہ زیادہ سے زیادہ مخاطبین کو جذب کیا جا سکے مطالب عمیق اور مناسب اور اچھی کیفیت اور دینی قالب میں نشر کیا جائے ۔
 روز مرہ کے مسائل اور شبہات کی شناسائی ، جوانوں کی مشکلات سے آگاہی اور معاشرہ جن دینی مسائل سے روبرو ہے ان کے لئے خاص پروگرام آمادہ کرنا ریڈیو معارف کی اس سال کی دیگر فعالیتوں میں شامل ہے ۔

طے پایا تھا کہ اس سال ہمارا پہلا دورہ حکومت اسلامی کے موضوع پر ہو جسے مجلس خبرگان کے دفتر کی مدد سے مہیا ہونا تھا مگر ابھی تک وہاں سے جواب نہیں ملا ہے اور انشاء اللہ طول سال میں دیگر تعلیمی کلاسیں رکھی جائیں گی ۔ ہمیں امید ہے کہ سب سے پہلے مہدویت کے موضوع پر گذشتہ سال کی گفتگو کا سلسلہ پھر سے شروع کیا جائے اور دوسرا دورہ استاد فرزانہ علامہ آیۃ اللہ مرتضیٰ مطہری کی شہادت کی ۳۰ ویں برسی کی مناسبت سے ان کی افکار پر بحث و گفتگو رہے ۔

رسا : ویب لاگ بوی سیب کے سلسلے میں کچھ توضیح دیں گے ؟

ہم گذشتہ سال اس نتیجے پر پہنچے کہ میڈیا کی دنیا میں فقط ریڈیو کے ذریعہ حضور مناسب طریقہ نہیں ہے بلکہ ریڈیو کو مختلف قسم کے میڈیا کی صورت میں تبدیل ہونا چاہیے اسی بنا پر ہم نے بوی سیب کے عنوان سے ویب لاگ کا مسابقہ آمادہ کیا ۔

 ریڈیو معارف کی ویب سایٹ کا فعال ہونا اور مسابقوں کا منعقد ہونا جیسے " وہ ضرور آئیں گے " اور " بوی سیب " کے عنوان سے ویب لاگ کا مسابقہ اور دیگر پروگرام متنوع میڈیا کی جانب قدم بڑھانے کے مساوی ہے ۔

رسا : ویب لاگ ہی کیوں  ؟

ویب لاگ جوان نسل کیلے دلچسپ میڈیا ہے اور اسی سلسلے میں ان کے اندر زیادہ رجحانات پائے جاتے ہیں ۔ ویب لاگ کے سلسلے میں جو تحقیقات انجام پائی ہیں وہ مذہبی ویب لاگ کی بنیادوں کا ضعف اور سستی ہے۔
اسمیں نظم لانے جہت دینے کیلے " بوی سیب " کے عنوان سے ویب لاگ کا مسابقہ رکھا گیا تاکہ اسکی خاص راستہ کی جانب ہدایت کی جا سکے اور تأثیر گزار ہو سکے ۔
 مذہبی ویب لاگ میں جو موضوع کمتر مورد توجہ رہا وہ محرم الحرام اور امام حسین علیہ السلام کی شہادت کا مسئلہ ہے اسی بناء پر " بوی سیب " کے عنوان سے ویب لاگ کے مسابقہ کا اعلان کیا گیا ۔
 اسی کا پہلا مرحلہ گذشتہ سال منعقد ہوا تھا جس کا ویب لاگ لکھنے والوں نے کافی حد تک استقبال کیا اور نفیس آثار روانہ کئے تھے کہ جو اپنی نوعیت میں بے نظیر تھے ۔

امسال ہم نے اس مسابقہ کے اعلان کے ساتھ ساتھ منابع کی بھی معرفی کی اور جہان تک ممکن ہوسکا اسے شرکت کرنے والوں کے اختیار میں قرار دیا ۔ اس سلسلے میں ۱۷۰۰ اثر ہم تک پہنچ چکے ہیں جو گذشتہ سال کی بہ نسبت ۷۰ فیصد زیادہ ہیں ۔

رسا : سامعین کس حد تک ریڈیو معارف سے راضی ہیں ؟

ریڈیو معارف کا پروگرام عوام ، مراجع عظام ، اور بزرگان کی خاص عنایت اور توجہ کا حامل رہا ہے اور سبھی نے اس ادراہ کی کار کر دگی کے شکر گزار رہے ہیں گیارہ شہروں میں ہمارے 17 فیصد سننے والوں میں سے 87 فیصد راضی رہے ہیں 87 فیصد رضایت بغیر موسیقی کے پروگرام کے لئے قابل توجہ ہے ۔

رسا : ریڈیو کے ذمہ داروں کی نگاہ میں ریڈیو معارف کی کیا حیثیت ہے ؟

ریڈیو کے ذمہ داروں کی نگاہ اس میڈیا کے سلسلے میں مثبت ہے بہت اچھے امکانات فراہم کئے ہیں جسکی بناء پر ہم نے کسی حد تک اسے ڈیجیٹل کر دیا ہے ۔

رسا : سگنل غائب ہونے کے سلسلے سے آپ کے اقدامات کیا ہیں ؟

دو ٹیکنیکل ٹیم اسی مرکز کی جانب سے اسی مشکل کو رفع کرنے کے لئے آمادہ کی گئی ہے تاکہ اسی کی رسیدگی کریں البتہ قم اور تہران کے بیچ کا فاصلہ اور مالی مسائل اس مشکل کی اساس ہیں ۔

رسا : بغیر موسیقی کے پروگرام ہی کیوں ؟

بغیر موسیقی کے پروگرام نشر ہونا موسیقی کے حرام ہونے کی بنیادپر نہیں ہے بلکہ یہ خود ایک قسم کا پروگرام ہے اس طریقہ کا پروگرام اس سے پہلے بھی ریڈیو قرآن سے نشر ہو چکا ہے بیرونی ممالک حتی غیر اسلامی ممالک کے ریڈیو بھی اسی طرح کے پروگرام نشر کرتے رہے ہیں۔
 ابتدا میں بہت سارے ماہرین کو ایسے پروگرام میں کامیابی کا یقین نہیں تھا مگر ہم کامیاب رہے اور مختلف فیسٹیول میں ہم نے اچھا مقام حاصل کیا ہے ۔

رسا : ریڈیو معارف اور رسا نیوز ایجنسی کے روابط کیسے ہیں ؟

ہمارے اخبار کے شعبے میں رسا نیو زایجنسی سے استفادہ کیا جاتا ہے خصوصاً اس لحاظ سے کہ دونوں مذہبی مراکز ہیں آپسی تعامل کا 

رسا : رسا نیوز ایجنسی آپ کے اس قیمتی وقت کے لئے شکر گزار ہے ۔

ختم خبر رسانیوز ایجنسی

 

 

 

 

 

 

 

 

 

" عدالت اور حقوق بشر اسلام اور معاصر مکاتب فکر کی نگاہ میں " کے عنوان سے علمی نشست کی رپورٹ ۔

رسا نیوز ایجنسی : عدالت اور حقوق بشر اسلام اور معاصر مکاتب فکر کی نگاہ میں " کے عنوان سے قم میں علمی نشست منعقد ہوئی ۔

رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر کی رپورٹ کے مطابق عدالت اور حقوق بشر اسلام اور معاصر مکاتب فکر کی نگاہ میں " کے عنوان سے قم میں علمی نشست منعقد ہوئی اس نشست کے ابتداء میں صدر جلسہ ڈاکٹر محمد حسن ضیائی فر نے گذشتہ نشستوں کے مطالب کی رپورٹ کی صورت میں پیش کرتے ہوئے یہ سوال اٹھایا کہ کیا لوگوں کی رضایت کا نا رضایتی قوانین کے عادلانہ یا غیر عادلانہ ہونے کا معیار ہے انھوں نے فرمایا کہ بعض افراد جو دینی رجحان رکھتے ہیں ان کے یہاں نقطہ عدالت مد نظر ہے وہ لوگوں کی فہم و نگاہ کو توجہ نہیں دیتے کیونکہ عوام ممکن ہے ایک مختصر زمانے میں عدالت جو ایک خاص مفہوم رکھتی ہے ایک دوسرا تصور رکھتی ہو اور بعض اہل نظر کا کہنا ہے کہ لوگوں کی رضایت یا نا رضایتی اسلام میں مورد توجہ رہی ہے ۔

محقق حجۃ الاسلام حسین جوان آراستہ نے جواب میں اسی سوال کے مخاطبین کی دستہ بندی کرتے ہوئے کہا : معاشرہ کے عوام الناس ، ماہرین اور کسی خاص موضوع کے متخصص افراد پر مشتمل ہے ۔ حقوق قوانی اور معاشرہ کی رضایت کے درمیان نسبت منطقی حوالے سے عام و خاص من وجہ ہے اسی بنا پر نہ بطور کامل اثبات ہے اور نہ بطور کامل رد ۔ انھوں نے مزید کہا : ممکن ہے کبھی بعض مواقع پر رضایت عادلانہ ہونے پر دلیل بر تبریہ امر ہمہ گیر نہیں ہے ۔

حجۃ السلام حسین جوان آراستہ نے کہا : ممکن ہے عوام لناس کی بہ نسبت کہا جائے کہ ان کے نظریات معاشرے میں حاکم فضا سے متأثر ہیں البتہ یہ بات تحصیل افراد کے لئے بھی کہی جا سکتی ہے جیسا کہ ہم نے اصحاب امیر المؤمنین علی بن ابی طالب علیہ السلام کے اصحاب کے درمیان جنگ جمل میں دیکھا کہ حقیقت ان پر مشتبہ ہو گئی ۔

حجۃ السلام ارگانی نے اس نشست کے سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا : گفتگو کو دو حصوں میں تقسیم ہو نا چاہیے پہلا حصہ علمی اور نظریاتی اور دوسرا حصہ عملی و اجرائی ۔

انھوں نے کہا : علمی معیار کے لحاظ سے کوئی بھی مشارہ احکام کو مشروعیت عطا نہیں کرتا چاہے وہ عام لوگ ہوں یا خاص لوگ ۔ کیونکہ لازم ہے کہ احکام کا مرجع نص ہو مگر عملی اور اجرائی حوالے سے معاشرہ مشروعیت کے مد نظر رہا ہے اور تحقق اور اجراء کے لئے لازم و ضروری ہے ۔

اسی محقق نے اپنی گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا : یہاں پر جس سوال کا اٹھانا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ کیا ممکن ہے کہ شارع مقدس ( خدا و رسول ) کوئی ایسا حکم صادر کریں جو تمام لوگوں کے منافی اور مقابل میں ہوں ؟ میری نگاہ مین کلیات میں یہ اتفاق پیش نہیں آسکتا ہاں جزئی اور چند مصادیق میں اس امر کا تحقق ممکن ہے کہ لوگ پسند نہ کریں کہ یہ خود نادر اور بہت کم ہے البتہ ان موارد میں بھی اسلام نے زمینہ سازی اور افکار کی تشریح کر کے لوگوں کو آمادہ کر رکھا ہے ۔

اس نشست میں حجۃ السلام مہرامی فقہ و حقوق کے ریسرچ سینٹر کے رکن نے کہا : ابتداء میں ہی ہمیں ملاحظہ کرنا چاہیے کہ ہم عدالت کی دنیا کے بدلتے ہوئے حالات کی تحت تعریف کر رہے یا گذشتہ اور قدیمی تعریف کے تحت قبول کر رہے ہیں ۔

انھوں نے کہا : عدالت انسان کا خاصہ ہے چاہے فردی زندگی ہو یا اجتماعی ، لہذا ضروری ہے کہ پہلے انسان پہچانا جائے ۔

انھوں نے مزید کہا : غرب کے فلاسفی انسان کی شناخت کے مباحث میں بے نتیجہ رہ گئے ہیں لہذا وہ انسان کو عمل اور تجربہ کی نگاہ سے دیکھ رہے مگر حقیقت یہ ہے کہ انسان کو پہچاننے کے لئے منبع وحی کی جانب متوجہ ہونا چاہیے ۔

اس نشست علمی کے ایک دوسرے مقرر حجۃ السلام میر دامادی حوزہ علمیہ اور یونیورسٹی کے استاد نے اس علمی گوشہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مفاہیم کی تشخیص کی گفتگو میں طرف ( عام مخاطبین ) سے مراد تحصیل کردہ افراد ہیں جن کا علم فقہ میں بھی تذکرہ ہے ، انھوں نے مزید کہا : عدالت کے اجرا کرنے میں ہمیں ان متخصص افراد کی ضرورت ہے جو عدالت کی حقیقت اور حقیقی معنی اور مفہوم کو سمجھتے ہوں اور صحیح طریقہ سے اس کو جامہ عمل پہنا سکیں مگر عدالت کی ضرورت اور احتیاجات کے مرحلے میں عوام الناس اور خواص دونوں مساوی ہیں۔  انھوں نے اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا : امیر المؤمنین علیہ السلام نے مالک اشتر کے عہد نامہ میں عوام الناس کی رضایت کو بیان کیا ہے تاکہ معاشرے کے اندر یہ احساس باقی رہے اگر چہ اسلامی مملکت اور نظام میں حاکم اسلامی قوانین کے اجرا کرنے پر موظف ہے ۔

حجۃ الاسلام صوامی نے اسی نشست میں اپنے نظریات بیان کرتے ہوئے کہا : لوگوں کی رضایت کے نقش کو عدالت کے معیار میں اور عدالت کے اجرا ہونے میں فرق قائل ہونا ضروری ہے کیونکہ اسلام اپنے مقاصد کو جبراً جامہ عمل نہیں پہناتا ۔

 حجۃ الاسلام میر دامادی نے اس مطلب کی تنقید کرتے ہوئے کہا : احکام عدالت کی بنیاد پر اور عدالت عام فہم معنی اور مفہوم رکھتی ہے ۔

انھوں نے نمونہ کے طور پر کچھ احکام جو عدلیہ قوانین کے مطابق صادر نہ ہوئے تھے مگر اسی علاقہ میں لوگوں کی رضایت کے حامل تھے کا ذکر کرتے ہوئے کہا : آج کل دنیا کے معاشرے میں عدالت کو اسی طرح سے توصیف کیا جائے جس میں ماہرین کا معاشرہ اثر انداز نہ ہو ۔

حجۃ الاسلام میر دامادی نے اسی گوشہ کی جانب کی قومیت کے اختلاف کا ملاحظہ کیا جانا ضروری ہے اشارہ کرتے ہوئے کہا منشور حقو ق بشر کے تیسرے بند میں دین اور دیانت کا تذکرہ نہیں کیا گیا ہے جب کہ یورپ کی اکثریت عیسائی ہے ۔

اسی نشست کے اختتام پر ڈاکٹر ضیائی فر نے کہا : اس نشست اور گفتگو کا مقصد اور ہدف یہ ہے کہ حکومت اسلامی بن چکی ہے اور یہ مملکت دنیا کی نگاہ میں ایک خاص مقام رکھتی ہے ۔

 

 

قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا ہے کہ اسلامی معاشرے کی سب سے اہم عصری ضرورت بعثت کے پیغام پر عملدرآمد، عقل و خرد کو معیار قرار دینا، اخلاقی اقدار کی بالادستی اور قانونی نظم و ضبط کا بنیاد قرار پانا ہے اور اس سلسلے میں اہم شخصیات اور بزرگوں کی ذمہ داریاں سب سے اہم ہیں۔

عید بعثت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے موقع پر مختلف عوامی طبقات اور اسلامی نظام کے حکام کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے قائد انقلاب اسلامی نے بعثت پیغبر اسلام کو تاریخ بشریت کا نہایت اہم موڑ قرار دیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے امت مسلمہ اور ایرانی عوام کو عید بعثت کی مبارکباد پیش کی اور عاقلانہ تربیت و دانش پسندی اور تفکر و تدبر کو بعثت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ کے پیغام کا سب سے اہم جز قرار دیا اور فرمایا: پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا سب سے پہلا کام اسلامی معاشرے میں عقل و خرد کی بالادستی کو قائم کرنا تھا کیونکہ معاشرے میں عقل و خرد اور فکری صلاحیت کی تقویت و پرورش، تمام مشکلات کا حل، نفس کو قابو میں رکھنے والی اور انسان کے لئے بندگی کی راہ ہموار کرنے والی ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے اخلاقی پرورش کو بعثت کے پیغام کا دوسرا اہم جز قرار دیا اور فرمایا: معاشرے میں اخلاقی قدروں کا رواج اس لطیف ہوا کی مانند ہے جو صحتمند زندگی کی ضامن ہوتی ہے اور انسان کو حرص و طمع، جہالت و نادانی، دنیا طلبی و مادہ پرستی، ذاتی بغض و عناد اور ایک دوسرے سے بدگمانی سے دور رکھتی ہے۔ اسی لئے اسلام میں تزکیہ (نفس) اور اخلاقی نشو نما کو تعلیم پر بھی ترجیح دی گئی ہے۔

قائد انقلاب اسلامی نے قانونی نظم و ضبط کو بعثت کے پیغام کا تیسرا جز قرار دیا اور اسلامی احکامات اور فرامین پر عملدرآمد میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیش پیش رہنے کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا: یہ ساری مثالیں اسلامی معاشرے کے لئے معیار اور کسوٹی کا درجہ رکھتی ہیں، اور میدان زندگی انسانوں کی آزمائش کا مقام ہے۔

قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ملت ایران کے موجودہ وقار کو گزشتہ تیس برسوں کی آزمایشوں میں کامیابی اور سرخروئی کا نتیجہ قرار دیا اور فرمایا: اللہ تعالی نے ان کامیابیوں کے بدلے میں ملت ایران کو بہت عظیم ثمرات عطا کئے ہیں اور آج بھی لوگ بلند اسلامی اہداف کی سمت گامزن اور کوشاں ہیں جس کا نتیجہ ملت ایران کے اندر اپنی شناخت اور اپنے با وقار ہونے کا احساس ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: یہ جو دنیا کی سامراجی طاقتوں نے اسلامی جمہوریہ ایران سے مقابلے کو اپنا نعرہ بنا لیا ہے اور اسلامی نظام کو اپنے اہداف کی راہ میں خاص طور پر مشرق وسطی کے علاقے میں بڑی رکاوٹ کے طور پر دیکھتی ہیں وہ ایرانی حکومت و قوم و نظام کی عظمت کا غماز ہے۔

قائد انقلاب اسلامی نے ان ثمرات کو دین کے احکامات پر عمل آوری کے سلسلے میں ملت ایران کی پیشقدمی کا نتیجہ قرار دیا اور معاشرے کی علمی شخصیات اور اہم رہنماؤں کے کردار کے عوام کے لئے نمونہ عمل قرار پانے کی حقیقت کی نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا: گزشتہ تیس برسوں میں ملت ایران نے ثابت کر دیا کہ وہ وفادار اور متحمل مزاج قوم ہے، صدارتی انتخابات کے بعد کے مسئلے میں بھی ملت ایران کی یہ خصوصیت ایک بار پھر نمایاں ہوئی۔

قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: سماجی زندگی کی سطح پر ملت ایران کے اندر الگ الگ طرز فکر موجود ہیں اور ہر کوئی اپنا نظریہ پیش کرتا ہے، لیکن جیسے ہی ملت ایران کو یہ احساس ہوتا ہے کہ (اسلامی) نظام سے دشمنی کی بات آ گئی ہے اور "کوئی ہاتھ" نظام پر وار کرنے کے لئے کسی تحریک کو منظم کر رہا ہے تو قوم اس سے دوری اختیار کر لیتی ہے خواہ وہ اسی نعرے کا سہارا کیوں نہ لے جس کی ملت ایران معتقد ہے۔

آپ نے حالیہ واقعات کو ملت ایران کے لئے گزشتہ برسوں کے تجربات کے ساتھ ہی حاصل ہونے والا اہم درس اور تجربہ قرار دیا اور فرمایا: یہ واقعات اس درس اور تجربے کے حامل تھے کہ ایسے وقت میں بھی کہ جب کوئی بڑا عمل مکمل امن و ثبات کی فضا میں انجام پا رہا ہو تب بھی دشمنوں کے مکر و حیلے سے غافل نہیں ہونا چاہئے۔

قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: ایسے عالم میں کہ جب سارے لوگ کہہ رہے تھے کہ چار کروڑ لوگوں کی شرکت سے منعقد ہونے والے حالیہ انتخابات آغاز انقلاب سے اب تک کا بے نظیر واقعہ اور تیس سال کے بعد بھی عوام کو میدان میں لانے کی اسلامی نظام کی صلاحیت کا ثبوت تھا، سب کو محسوس ہو گیا کہ ایسے عالم میں بھی قوم پر ضرب لگانے کے دشمنوں کے منصوبوں سے غفلت نہیں برتنا چاہئے۔ قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ایران کے داخلی امور میں مداخلت نہ کرنے کے دشمنوں کے دعوؤں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ایسے وقت جب ان کی مداخلت اور خاص طور پر ان کے ذرائع ابلاغ کا کردار بالکل آشکارا ہے، ان کا یہ دعوا بے حیائی کی علامت ہے۔

آپ نے چند سال قبل قوموں کو خود مختاری و عزت و وقار کی راہ سے منحرف کرنے کے ہدف سے جاری سامراج کے تشہیراتی اور خفیہ اداروں کی سرگرمیوں کے سلسلے میں اپنے انتباہ کی یاد دہانی کراتے ہوئے فرمایا: ملت ایران کے دشمن اپنے ذرائع ابلاغ کے ذریعے نادان و غافل بلوائی گروہوں کے لئے بد امنی، تخریبی اقدامات اور جھڑپوں کے سلسلے میں اعلانیہ احکامات اور ہدایات جاری کرتے ہیں اور دوسری جانب یہ دعوی بھی کرتے ہیں کہ وہ ایران کے داخلی امور میں مداخلت نہیں کرتے جبکہ بالکل اعلانیہ طور پر مداخلت کر رہے ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے بلوائیوں اور عوام کے درمیان فرق قائم کئے جانے کی ضرورت پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: سامراجی ذرائع ابلاغ بلوائیوں کی حمایت کے مقصد سے انہیں ایرانی عوام کا نام دیتے ہیں جبکہ ایرانی عوام تو وہ کروڑوں لوگ ہیں جو ان بلوائیوں اور تخریب کاروں کو دیکھتے ہے خود کو الگ کر لیتے ہیں اور انہیں نفرت و بیزاری کی نظر سے دیکھتے ہیں۔

قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ کسی بھی عہدے اور مقام پر فائز کوئی بھی شخص اگر معاشرے کو بد امنی کی جانب لے جانے کی کوشش کرے گا ملت ایران کی نظر میں منفور قرار پائے گا۔

قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ملت ایران کے بلند اہداف اور معاشرے کی دنیا و آخرت کی سعادت و خوشبختی کا حصول امن و سکون کے ماحول میں ہی ممکن ہے۔ آپ نے امن و امان کی صورت حال کو نقصان پہنچانے کو بہت بڑا گناہ قرار دیا اور بااثر شخصیات کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: اہم شخصیات ہوشیار رہیں کیونکہ ان کی ہر وہ بات، تجزیہ اور اقدام جو معاشرے کے امن و امان کے مختل ہو جانے پر منتج ہو، ملت ایران کی پیشقدمی کی سمت اور جہت کے خلاف ہے۔

قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ہر کوئی اپنے بیان، موقف حتی اپنے سکوت کے تئیں محتاط رہے کیونکہ ان مسائل کے سلسلے میں سکوت جن کو بیان کرنا ضروری ہے در حقیقت فریضے پر عملدرآمد نہ کرنا ہے اور ایسی باتیں کہنا جو نہیں کہنی چاہئیں فریضے کے خلاف عمل کرنے سے عبارت ہے۔

قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: بڑی شخصیات محتاط رہیں کیونکہ ان کے سامنے بڑے عظیم امتحان کا لمحہ آن پہنچا ہے جس میں کامیاب نہ ہونا صرف فیل ہو جانا نہیں بلکہ ان کے سقوط کا موجب ہوگا۔ آپ نے ایسے انجام سے رہائی کی واحد راہ عقل و خرد کو معیار قرار دینا بتایا اور فرمایا: عقلمندی یہ رائج سیاست بازی نہیں ہے کیونکہ سیاست بازی عقل کے منافی ہے اور جو لوگ سیاست بازی کو عقلمندی تصور کرتے ہیں غلطی کر رہے ہیں۔

آپ نے فرمایا کہ صحیح عقلی طریقہ وہی ہے جو اللہ تعالی کی عبادت کی راہ ہموار کرتا ہے اور اس کا معیار یہ ہے کہ ہم خود فیصلہ کریں کہ ہمارا بیان اور موقف اللہ تعالی کی خوشنودی کے لئے اخلاص کے ساتھ ہے یا بعض افراد کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے کیلئے۔ ہمیں خود کو دھوکہ نہیں دینا چاہئے۔

قائد انقلاب اسلامی نے بعثت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیغاموں پر غور کرنے اور اسے ایک جشن سے بالاتر واقعے کی حیثت سے دیکھنے کی ضرورت پر زور دیا اور فرمایا: بعثت، انسانیت کے لئے بہت اہم موڑ ہے کیونکہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی دس سالہ حکومت کے زمانے میں جو اقدامات کئے اور تاریخ انسانیت میں جو تبدیلیاں پیدا کیں ان کا کسی بھی اقدام اور تبدیلی سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔

قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل صدر مملکت ڈاکٹر احمدی نژاد نے عید بعثت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مبارکباد دی اور انسانوں کو جہل و ظلم کی تاریکی سے نجات دلانے اور انہیں نور ہدایت کی سمت گامزن کرنے میں اس عظیم تاریخی واقعے کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ پیغمبر اسلام، دین کے احکامات پر عمل کے سلسلے میں سب سے پیش پیش رہتے تھے۔ انسانیت کی موجودہ مشکلات کی بنیادی وجہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی راہ سے دوری ہے۔

 

 

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬