21 July 2009 - 17:41
News ID: 37
فونت
علمي نشست کي رپورٹ
رسا نيوز ايجنسي : عدالت اور حقوق بشر اسلام اور معاصر مکاتب فکر کي نگاہ ميں " کے عنوان سے قم ميں علمي نشست منعقد ہوئي ?

رسا نيوز ايجنسي کے رپورٹر کي رپورٹ کے مطابق" عدالت اور حقوق بشر اسلام اور معاصر مکاتب فکر کي نگاہ ميں " کے عنوان سے قم ميں علمي نشست منعقد ہوئي
اس نشست کے ابتداء ميں صدر جلسہ ڈاکٹر محمد حسن ضيائي فر نے گذشتہ نشستوں کے مطالب کو رپورٹ کي صورت ميں پيش کرتے ہوئے يہ سوال اٹھايا کہ کيا لوگوں کي رضايت يا نا رضايتي قوانين کے عادلانہ يا غير عادلانہ ہونے کا معيار ہے انھوں نے فرمايا کہ بعض افراد جو ديني رجحان رکھتے ہيں ان کے يہاں نقطہ عدالت مد نظر ہے وہ لوگوں کي فہم و نگاہ کو توجہ نہيں ديتے کيونکہ عوام ممکن ہے ايک مختصر زمانے ميں عدل و انصاف سے جو ايک خاص مفہوم رکھتا ہے ايک دوسرا تصور رکھتي ہو اور بعض اہل نظر کا کہنا ہے کہ لوگوں کي رضايت يا نا رضايتي اسلام ميں مورد توجہ رہي ہے ?
محقق حج? الاسلام حسين جوان آراستہ نے اس سوال کے جواب ميں مخاطبين کي دستہ بندي کرتے ہوئے کہا : ہمارامعاشرہ عوام الناس ، ماہرين اور کسي خاص موضوع کے متخصص افراد پر مشتمل ہے ? حقوقي قوانين اور معاشرہ کي رضايت کي درمياني نسبت منطقي حوالے سے عام و خاص من وجہ ہے اس بناء پر نہ بطور کامل قابل اثبات ہے اور نہ بطور کامل قابل رد ? انھوں نے مزيد کہا : ممکن ہے کبھي بعض مواقع پر رضايت عادلانہ ہونے پر دليل ہومگريہ امر ہمہ گير نہيں ہے ?
حج? السلام حسين جوان آراستہ نے کہا : ممکن ہے عوام الناس کي بہ نسبت کہا جائے کہ ان کے نظريات معاشرے ميں حاکم فضا سے متأثرہوتے ہيں البتہ يہ بات تحصيل کردہ افراد کے لئے بھي کہي جا سکتي ہے جيسا کہ ہم نے اصحاب امير المؤمنين علي بن ابي طالب عليہ السلام کے اصحاب کے درميان جنگ جمل ميں ديکھا کہ حقيقت ان پر مشتبہ ہو گئي ?
حج? السلام ارگاني نے اس نشست کے سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا : گفتگو کو دو حصوں ميں تقسيم ہو نا چاہيے پہلا حصہ علمي اور نظرياتي اور دوسرا حصہ عملي و اجرائي ?
انھوں نے کہا : علمي معيار کے لحاظ سے کوئي بھي معاشرہ احکام کو مشروعيت عطا نہيں کرتا چاہے وہ عام لوگ ہوں يا خاص لوگ ? کيونکہ لازم ہے کہ احکام کا مرجع نص ہو مگر عملي اور اجرائي حوالے سے معاشرہ مشروعيت کے مد نظر رہا ہے اوراحکام تحقق اور اجراء کے لئے لازم و ضروري ہے ?
اس محقق نے اپني گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا : يہاں پر جس سوال کا اٹھانا ضروري ہے وہ يہ ہے کہ کيا ممکن ہے کہ شارع مقدس ( خدا و رسول ) کوئي ايسا حکم صادر کريں جو تمام لوگوں کے منافي اور مقابل ميں ہوں ؟ ميري نگاہ مين کليات ميں يہ اتفاق پيش نہيں آسکتا ہاں جزئي اور چند مصاديق ميں اس امر کا تحقق ممکن ہے کہ لوگ پسند نہ کريں کہ يہ خود نادر اور بہت کم ہے البتہ ان موارد ميں بھي اسلام نے زمينہ سازي اور افکار کي تشريح کر کے لوگوں کو آمادہ کر رکھا ہے ?
اس نشست ميں حج? السلام مہرامي فقہ و حقوق کے ريسرچ سينٹر کے رکن نے کہا : ابتداء ميں ہي ہميں ملاحظہ کرنا چاہيے کہ ہم عدالت کي دنيا کے بدلتے ہوئے حالات کے تحت تعريف کر رہے يا گذشتہ اور قديمي تعريف کے تحت قبول کر رہے ہيں ؟
انھوں نے کہا : عدالت انسان کا خاصہ ہے چاہے فردي زندگي ہو يا اجتماعي ، لہذا ضروري ہے کہ پہلے انسان پہچانا جائے ?
انھوں نے مزيد کہا : غرب کے فلاسفي انسان کي شناخت کے مباحث ميں بے نتيجہ رہ گئے ہيں لہذا وہ انسان کو عمل اور تجربہ کي نگاہ سے ديکھ رہےہيں مگر حقيقت يہ ہے کہ انسان کو پہچاننے کے لئے منبع وحي کي جانب متوجہ ہونا چاہيے ?
اس علمي نشست کے ايک دوسرے مقرر حج? السلام مير دامادي حوزہ علميہ اور يونيورسٹي کے استاد نے اس علمي گوشہ کي طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا : کہ مفاہيم کي تشخيص کي گفتگو ميں عرف ( عام مخاطبين ) سے مراد تحصيل کردہ افراد ہيں جسکا علم فقہ ميں بھي تذکرہ ہے ، انھوں نے مزيد کہا : عدالت کے اجرا کرنے ميں ہميں ان متخصص افراد کي ضرورت ہے جو عدالت کي حقيقت اور حقيقي معني اور مفہوم کو سمجھتے ہوں اور صحيح طريقہ سے اس کو جامعہ عمل پہنا سکيں مگر عدالت کي ضرورت اور احتياج کے مرحلے ميں عوام الناس اور خواص دونوں مساوي ہيں?  انھوں نے اپني بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا : امير المؤمنين عليہ السلام نے مالک اشتر کے عہد نامہ ميں عوام الناس کي رضايت کو بيان کيا ہے تاکہ معاشرے کے اندر يہ احساس باقي رہے اگر چہ اسلامي مملکت اور نظام ميں حاکم اسلامي قوانين کے اجرا کرنے پر موظف ہے ?
حج? الاسلام صوامي نے اسي نشست ميں اپنے نظريات بيان کرتے ہوئے کہا : لوگوں کي رضايت کے نقش کو عدالت کے معيار ميں اور عدالت کے اجراءہونے ميں فرق قائل ہونا ضروري ہے کيونکہ اسلام اپنے مقاصد کو جبراً جامہ عمل نہيں پہناتا ?
 حج? الاسلام مير دامادي نے اس مطلب کي تنقيد کرتے ہوئے کہا : احکام عدالت کي بنياد پر اور عدالت عام فہم معني اور مفہوم رکھتي ہے ?
انھوں نے نمونہ کے طور پر کچھ احکام جو عدليہ قوانين کے مطابق صادر نہ ہوئے تھے مگر اس علاقہ ميں لوگوں کي رضايت کا حامل ٹھرے کا ذکر کرتے ہوئے کہا : آج کل دنيا کے معاشرے ميں عدالت کي اس طرح سے توصيف کي جائے جس ميں ماہرين کا معاشرہ اثر اندازہو ?
حج? الاسلام مير دامادي نے اسي گوشہ کي جانب کي قوميت کے اختلاف کا ملاحظہ کيا جانا ضروري ہے اشارہ کرتے ہوئے کہا: منشور حقو ق بشر کے تيسرے بند ميں دين اور ديانت کا تذکرہ نہيں کيا گيا ہے جب کہ يورپ کي اکثريت عيسائي ہے ?
اس نشست کے اختتام پر ڈاکٹر ضيائي فر نے کہا : اس نشست اور گفتگو کا مقصد اور ہدف يہ ہے کہ حکومت اسلامي ہوچکي ہے اور يہ مملکت دنيا کي نگاہ ميں ايک خاص مقام رکھتي ہے ?
ختم خبر:رسا نيوزايجنسي

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬