20 May 2012 - 16:38
News ID: 4090
فونت
عورت اوراسلام (4)/ پيشکش : اشھد نقوي
رسا نيوزايجنسي – اسلامي تعليمات ميں بلا تفريق و امتياز انساني فضائل و کمالات جو کہ انسانوں کي برتري کا معيار ہے کي نسبت مردو عورت دونوں کي طرف دي گئي ہے ? کيوں کہ فضائل و کمالات کا منشا انسان کا جسم نہيں ہے بلکہ اس کي روح اوراس کا نفس ہے اور روح کے اعتبار سے مرد اور عورت دونوں ہي برابر ہيں ?
عورت

حضرت آي? اللہ جوادي آملي فرماتے ہيں کہ وہ آيتيں جو علم اور جہالت ، ايمان اور کفر، عزّلت اور ذلّت ، سعادت اور شقاوت ، فضيلت اوربرائي ، حق و باطل ، سچّائي اور جھوٹ ، تقوي? اور فسق ، اطاعت اور عصياں ، فرمانبرداري اور سرکشي ، غيبت اور عدمِ غيبت ، امانت اور خيانت اور ان جيسے ديگر امور کوکمالات اور نقائص جانتي ہيں اور ان ميں سے کوئي بھي اچھائي يا برائي نہ مذکّر ہے نہ مؤنّث ? اس کا مفہوم يہ ہے کہ مسلمان يا کافر کا بدن ، عالم يا جاہل ، پرہيزگاريا فاسق ، صادق يا کاذب نہيں ہے ?

مرحوم علّامہ طباطبائي اس سلسلہ ميں يوں رقم طراز ہيں : مشاہدہ اور تجربہ کي رو سے يہ بات ثابت ہے کہ مردو عورت ايک ہي نوع کے دو افراد ہيں دونوں کا تعلّق فردِ انساني سے ہے ، چونکہ جو کچھ مردوں ميں آشکار ہے وہي عورتوں ميں بھي پايا جاتا ہے ?

کسي بھي نوع کے آثار اور علامات کا ظہور اس کے خارجي وجود کا مظہر ہوا کرتا ہے ليکن عين ممکن ہے کہ ان دو صنفوں کے مشترکہ آثار و علامات ميں شدّت اور کمي پائي جاتي ہو ليکن يہ اختلاف اس بات کا باعث نہيں بنتا کہ دونوں صنفوں کي حقيقت ميں کسي قسم کا کوئي فرق پايا جاتا ہو ?

يہاں سے يہ حقيقت عياں ہو جاتي ہے کہ وہ نوعي فضائل اور کمالات جو ايک صنف کي حد امکاں ميں ہيں وہ دوسري صنف کے لئے بھي ممکن ہيں ? اس کي ايک مثال وہ فضائل اور کمالات ہيں جو ايمان اور اطاعتِ پروردگار کے سايہ ميں مرووعورت دونوں حاصل کرسکتے ہيں ، وہ جامع ترين کلام جو اس حقيقت کو بيان کرتا ہے يہ آيت ہے " أَنِّي لاَ أُضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِنْکُمْ مِنْ ذَکَرٍ أَوْ أُنْثَى بَعْضُکُمْ مِنْ بَعْضٍ (1) ميں تم ميں سے کسي کا عمل ضائع نہيں کروں گا خواہ وہ مرد ہو يا عورت ، تم ايک دوسرے کا حصّہ ہو ?
اس کے علاوہ سورہ? احزاب ميں اسي حقيقت کو تفصيلي طور پر بيان کيا گيا ہے اور مردو عورت کي معنوي خصوصيات کو ترازو کے دو پلڑوں کي طرح ايک ساتھ قرار ديا گيا ہے اور دونوں کے لئے کسي امتياز کے بغير ايک ہي جزا قرار دي گئي ہے ، انساني روح کے اعتبار سے دونوں کو ايک ہي مقام عطا کيا گيا ہے ، دوسرے الفاظ ميں يوں کہا جاسکتا ہے کہ اس سورہ ميں مردوں اور صنف نسواں اور ان کي ممتاز صفات کو ايک جامع عبارت ميں بيان کيا گيا ہے اور ان دونوں صنفوں کے اعتقادي ، اخلاقي ، عملي صفات اور جزا کو يکساں قرار ديا گيا ہے ?

ارشادِ ربّ العزّت ہے " إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَ الْمُسْلِمَاتِ وَ الْمُؤْمِنِينَ وَ الْمُؤْمِنَاتِ وَ الْقَانِتِينَ وَ الْقَانِتَاتِ وَ الصَّادِقِينَ وَ الصَّادِقَاتِ وَ الصَّابِرِينَ وَ الصَّابِرَاتِ وَ الْخَاشِعِينَ وَ الْخَاشِعَاتِ وَ الْمُتَصَدِّقِينَ وَ الْمُتَصَدِّقَاتِ وَ الصَّائِمِينَ وَ الصَّائِمَاتِ وَ الْحَافِظِينَ فُرُوجَهُمْ وَ الْحَافِظَاتِ وَ الذَّاکِرِينَ اللَّهَ کَثِيراً وَ الذَّاکِرَاتِ أَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ مَغْفِرَةً وَ أَجْراً عَظِيماً " (3) بيشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتيں اور مومن مرد اور مومن عورتيں اور اطاعت گزار مرد اور اطاعت گزار عورتيں اور سچّے مرداور سچّي عورتيں اورصابر مرد اور صابر عورتيں اور فروتني کرنے والے مرد اور فروتني کرنے والي عورتيں اور صدقہ دينے والے مرد اور صدقہ دينے والي عورتيں روزہ رکھنے والے مرد اور روزہ رکھنے والي عورتيں اور اپني عفّت کي حفاظت کرنے والے مرد اور عورتيں اور خداکا بکثرت ذکرکرنے والے مرد اور عورتيں ? اللہ نے ان سب کے لئے مغفرت اور عظيم اجر مہيّا کر رکھا ہے ?

مشہور ومعروف مفسّر مرحوم طبرسي مجمع البيان ميں رقمطراز ہيں" جب جنابِ جعفرابن ابي طالب کي زوجہ اسماء بنت عميس اپنے شوہر کے ہمراہ حبشہ سے واپس آئيں تو رسالت مآب حضرت ختمي? مرتبت کي ازواج سے ملاقات کے لئے گئيں، اس موقع پر آپ نے ازواجِ رسول سے جو سوالات معلوم کئے ان ميں سے ايک يہ بھي تھا کہ آيا قرآن ميں عورتوں کے سلسلہ ميں بھي کوئي آيت نازل ہوئي ہے ؟ انہوں نے جواب ديا ، نہيں ،ان کے بارے ميں کوئي آيت نازل نہيں ہوئي ہے ، اسماء بنت عميس پيغمبراکرم کي خدمت ميں شرفياب ہوئيں اور عرض کي اے خدا کے رسول! عورت کي ذات خسارہ و نقصان ميں ہے ? رسولِ خدا نے فرمايا تم نے کہاں سے يہ نتيجہ اخذ کيا ہے ؟ اس نے عرض کي " اسلام اور قرآن ميں عورتوں کے لئے مردوں جيسي کسي فضليت کو بيان نہيں کيا گيا ہے " اس موقع پر مذکورہ آيت نازل ہوئي ، جس نے خواتين کو اس بات کا اطمينان دلايا کہ خدا کے نزديک قرب اور منزلت کے اعتبار سے مرداور عورت ميں کوئي فرق نہيں ہے ، دونوں برابر ہيں ، سب سے زيادہ اہميت اس بات کي ہے کہ يہ دونوں عقيدہ ،عمل اور اسلامي اخلاق سے آراستہ ہوں ?

مذکورہ آيت ميں مردوں اور عورتوں کے لئے دس صفات کو بيان کيا گيا ہے جن ميں بعض صفات کا تعلّق ايمان کے مراحل ،يعني زبان سے اقرار ، دل سے تصديق اوراعضاء و جوراح سے عمل سے ہے? ان ميں سے کچھ صفات زبان ، شکم اور جنسي شہوت کے کنٹرول سے مربوط ہيں ، يہ تين صفتيں انساني اور اخلاقي زندگي ميں سرنوشت ساز کردار ادا کرتي ہيں ، مذکورہ آيت کے ايک دوسرے حصّہ ميں سماج کے محروم اور پسماندہ طبقہ کي حمايت ، سخت اور ناگوار واقعات کے سامنے صبر اور بردباري اور ان تمام پسنديدہ صفات کي پيدائش اور بقا کے اصلي عامل يعني يادِ خدا کا تذکرہ کيا گيا ہے

آيتِ کريمہ کے آخر ميں ارشاد ہو رہا ہے کہ" پروردگارِ عالم نے ان مردوں اور عورتوں کے لئے اجرِ عظيم مہيّا کر رکھا ہے جو مذکورہ صفات سے مزيّن ہو ں? پروردگارِ عالم پہلے مرحلہ ميں بخشش کے پاني سے ان کے گناہوں ( جوان کي روح کي آلودگي کا سبب ہيں ) کو دھوديتا ہے ، اس کے بعد انہيں اس اجرِ عظيم سے نوازتا ہے جسے خدا کے سوا کوئي نہيں جانتا ?
عورت کي پاک و پاکيزہ زندگي ، ايمان اور نيک عمل کي مرہونِ منّت ہے

قرآنِ مجيد کي آيات ميں عورت کي انساني شخصيت کو بہت زيادہ اہميت دي گئي ہے اوراسے مردوں کے ہم پلّہ قرار ديا گيا ہے، ارشاد ربّ العزّت ہے "مَنْ عَمِلَ صَالِحاً مِنْ ذَکَرٍ أَوْ أُنْثَى وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً وَ لَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ مَا کَانُوا يَعْمَلُونَ‌ (?) جو شخص بھي نيک عمل کرے گا وہ مرد ہو يا عورت بشرطيکہ صاحبِ ايمان بھي ہو ہم اسے پاکيزہ حيات عطا کريں گے اور انہيں ان اعمال سے بہتر جزا ديں گے جو وہ زندگي ميں انجام دے رہے تھے ?مذکورہ آيت ميں پاکيزہ حيات کو ايمان اور نيک عمل کے نتيجہ کے طور پر ايک کلّي قانون اور اصول کي شکل ميں بيان کيا گيا ہے ، حياتِ طيّبہ سے مراد ايک ايسے معاشرہ کا قيام ہے جس ميں سکھ چين ، امن و امان ، صلح اور دوستي ، محبّت ، باہمي تعاون اور ديگر انساني اقدار کا دور دورہ ہو جس سماج ميں ظلم ، سرکشي، استکبار ،جاہ طلبي اور خواہشات ِ نفساني کي پيروي سے وجود ميں آنے والے دکھ درداور ظلم و ستم کي دور دور تک کوئي خبر نہ ہو ، پروردگارِ عالم ايسے معاشرہ کے افراد کو ان کے اعمال کے مطابق بہترين جزا دے گا ?

مذکورہ آيت ميں اس حقيقت کو صراحت کے ساتھ بيان کيا گيا ہے اور ان تنگ نظر افراد کو دندان شکن جواب ديا گيا ہے جو ماضي اور حال ميں عورت کي انساني شخصيت کے بارہ ميں شک و شبہ ميں مبتلا تھے اور اس کے لئے مرد کے انساني مرتبہ سے پست مرتبہ کے قائل تھے، يہ آيت عالمِ انسانيت کے سامنے عورت کے سلسلہ ميں اسلام کے نقطہ? نظر کو بيان کر رہي ہے اور اس بات کا اعلان کر رہي ہے کہ کچھ کوتاہ فکر اور تنگ نظر افراد کے برعکس اسلام مردوں کا دين نہيں ہے بلکہ وہ عورتوں کو بھي مردوں کے برابر اہميت ديتا ہے ?

اس مقام پر سب سے اہم نکتہ جو لائق ذکر ہے وہ يہ ہے کہ اگر چہ مفسّرين نے پاکيزہ حيات کے بارے ميں مختلف آراء و نطريات اور تفاسير پيش کي ہيں ، مثال کے طور پر بعض مفسّرين نے حياتِ طيّبہ کو رزقِ حلال اور بعض ديگر نے قناعت اور اپنے حصّہ پر راضي رہنے بعض دوسرے مفسّرين نے پاکيزہ زندگي کو روزمرّہ زندگي کے رزق يا عبادت اور رزقِ حلال سے تعبير کيا ہے ليکن اس لفظ کا مفہوم اس قدر وسيع ہے کہ مذکورہ تمام معني? اور ان کے علاوہ ديگر معاني بھي اس کے دائرہ ميں آسکتے ہيں ،حياتِ طيّبہ سے مراد وہ زندگي ہے جو تمام برائيوں ، ہر قسم کے ظلم و ستم ، خيانتوں ، عداوتوں ، اسارتوں ، ذلّتوں اور حق تلفيوں اور ان جيسي ديگر مذموم صفات سے پاک و پاکيزہ ہو ?

قرآنِ مجيد ميں مثالي خواتين کا تذکرہ

قرآن مجيد کي نگاہ ميں فضائل و کمالات کے حصول ميں مردوعورت کے درميان کوئي فرق نہيں ہے ، يہي وجہ ہے کہ اس آسماني کتاب ميں صرف کلّيات کو ہي بيان نہيں کيا گيا ہے بلکہ ان تعليمات کو عيني شکل ميں بيان کر نے کے لئے عالمِ انسانيت کے سامنے بعض مثالي خواتين کو پيش کيا ہے ?

قرآنِ مجيد کي داستانوں اورقصّوں کي روح اخلاقي اور انساني مسائل ہيں ، وہ ان اہم مسائل کو قصّہ اور داستان کے سانچے ميں بيان کرتا ہے ، ان قصّوں اور داستانوں ميں بھي عورت کا کردار بہت نماياں ہے ، دوسرے الفاظ ميں يوں کہا جا سکتا ہے : قرآنِ مجيد نے اخلاقي اور انساني فضائل و کمالات کو بيان کرتے وقت ، نيز اخلاق ذميمہ کي مذمّت کے سلسلہ ميں جہاں صاحب فضيلت مردوں کا تذکرہ کيا ہے وہيں مثالي خواتين کا نام بھي ليا ہے ? چونکہ نيک کردار مردو عورت دونوں ہي ديگر افراد کے لئے نمونہ? عمل بن سکتے ہيں ، يعني نيک کردار مردو عورت اچھے مردو عورت کے لئے نمونہ? عمل ہيں اور بد کردار مردوعورت ، برے مردو عورت کے لئے اسوہ ہيں ?

حضرت ابراہيم خليل عليہ السّلام اور جنابِ سارہ

حضرت ابراہيم عليہ السّلام کا شمار اولوالعزم پيغمبروں ميں ہوتا ہے جن کو بڑھاپے کے عالم ميں فرشتوں نے ايک عالِم اور بردبار فرزند کي بشارت دي ، چنانچہ يہي خوشخبري فرشتوں نے آپ کي زوجہ کو بھي دي ? فرشتوں نے جنابِ ابراہيم عليہ السّلام سے کہا" فَبَشَّرْنَاهُ بِغُلاَمٍ حَلِيمٍ‌ " (?) پھر ہم نے انہيں ايک نيک دل فرزند کي بشارت دي ? دوسرے مقام پر ارشاد ہوتا ہے " إِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلاَمٍ عَلِيمٍ‌ (7) ہم آپ کو ايک فرزندِ دانا کي بشارت دينے کے لئے اترے ہيں ? جناب ابراہيم عليہ السّلام نے فرمايا: " قَالَ أَ بَشَّرْتُمُونِي عَلَى أَنْ مَسَّنِيَ الْکِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُونَ‌ (8) ابراہيم نے کہا کہ اب جب کہ بڑھاپا چھا گيا ہے تو مجھے کس چيز کي بشارت دے رہے ہو? اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے " قَالُوا بَشَّرْنَاکَ بِالْحَقِّ فَلاَ تَکُنْ مِنَ الْقَانِطِينَ‌ . قَالَ وَ مَنْ يَقْنَطُ مِنْ رَحْمَةِ رَبِّهِ إِلاَّ الضَّالُّونَ‌ (9) انہوں نے کہا ہم آپ کو بالکل سچّي بشارت دے رہے ہيں خبردار ! آپ مايوسوں ميں سے نہ ہو جائيں ? ابراہيم عليہ السّلام نے کہا کہ رحمتِ خدا سے سوائے گمراہوں کے کون مايوس ہو سکتا ہے ?

گذشتہ آيات سے اس بات کا استفادہ ہوتا ہے کہ حضرتِ ابراہيم عليہ السّلام پر بڑھاپا چھا چکا تھا ليکن فرشتوں نے آپ سے کہا: آپ مايوس نہ ہوں ، چونکہ فرشتوں کي بشارت اور خوشخبري ہميشہ ہي سچّي اور حق ہوا کرتي ہے ،اس کے علاوہ کوئي بھي مؤمن شخص کبھي بھي مايوسي کا شکار نہيں ہوتا ،چونکہ مايوسي کے معني? ہيں( معاذاللہ )خدا کي قدرت اور توانائي کے بارے ميں بدگماني ، يہ مايوسي کفر کي حد تک ہے ، کسي بھي انسان کو ناامّيدي اور مايوسي کا حق نہيں ہے ?

قرآن مجيد جنابِ ابراہيم عليہ السّلام کي زوجہ کي بشارت کي طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے " وَ امْرَأَتُهُ قَائِمَةٌ فَضَحِکَتْ فَبَشَّرْنَاهَا بِإِسْحَاقَ وَ مِنْ وَرَاءِ إِسْحَاقَ يَعْقُوبَ‌ (?? ) ابراہيم کي زوجہ اسي جگہ کھڑي تھيں يہ سن کر ہنس پڑيں تو ہم نے انہيں اسحاق کي بشارت دے دي اور اسحاق کے بعد پھر يعقوب کي بشارت دي ? چونکہ خدا کےفرشتے صرف صاحبانِ کمال اور برگزيدہ افراد پر نازل ہوتے ہيں اور ال?ہي وحي اور حقائق کو ان پر نازل کرتے ہيں لہ?ذا مذکورہ بالا آيات سے يہ استفادہ کيا جاسکتا ہے کہ جناب ابراہيم عليہ السّلام کي زوجہ بھي آپ کي ذاتِ گرامي کي طرح کمال کے اعلي? درجہ پر فائز تھي جس کي بنا پر فرشتوں کي بشارت کي سزاوار قرار پائيں ?

فرعوني ظلم و ستم کا مقابلہ کرنے والي خواتين

ظلم و ستم سے پيکار کے ميدان ميں مرد و زن دونوں موجود ہوتے ہيں ليکن فرعون کے ظلم و ستم کا مقابلہ کرنے ميں خواتين کا کردار حيرت انگيز ہے ، قرآن ِ مجيد نے ايسي تين خواتين کا تذکرہ کيا ہے جنہوں نے حضرت موسي? عليہ السّلام کي حفاظت اور تربيت ميں نماياں کردار ادا کيا ہے ، جناب موسي? کي مادرِ گرامي ، ان کي بہن اور فرعون کي بيوي نے جناب موسي? کي پرورش کا بيڑا اٹھايا ، ان خواتين نے اس دور کے ناگفتہ بہ سياسي حالات کا مقابلہ کيا اور اپني جان کو ہتھيلي پر رکھ کر جنابِ موسي? کي جان بچائي ?

جب حکمِ ال?ہي کے مطابق جناب موسي? کي مادرگرامي نے اپنے جگرگوشہ کو صندوق ميں ڈال کے دريائے نيل کي موجوں کے حوالہ کرديا تو ان کي بہن سے کہا : اس صندوق کا پيچھا کرو?فرعون کي زوجہ نے فرعون سے کہا : اس بچّہ کو قتل نہ کرو شايد اس سے ہميں فائدہ پہنچے يا ہم اس کو گود لے ليں ، قرآن ِ مجيد کا ارشاد ہے " وَ أَوْحَيْنَا إِلَى أُمِّ مُوسَى أَنْ أَرْضِعِيهِ فَإِذَا خِفْتِ عَلَيْهِ فَأَلْقِيهِ فِي الْيَمِّ (11). وَ قَالَتْ لِأُخْتِهِ قُصِّيهِ فَبَصُرَتْ بِهِ عَنْ جُنُبٍ وَ هُمْ لاَ يَشْعُرُونَ‌ (12) اور ہم نے مادرِ موسي? کي طرف وحي کي کہ اپنے بچّے کو دودھ پلاؤ اور اس کے بعد جب اس کي زندگي کا خوف پيدا ہو تو اسے دريا ميں ڈال دو، اور انہوں نے اپني بہن سے کہا کہ تم بھي ان کا پيچھا کرو تو انہوں نے دور سے موسي? کو ديکھا جب کہ ان لوگوں کو اس کا احساس بھي نہيں تھا ? فرعون کي بيوي نے بھي کہا" قُرَّةُ عَيْنٍ لِي وَ لَکَ لاَ تَقْتُلُوهُ عَسَى أَنْ يَنْفَعَنَا أَوْ نَتَّخِذَهُ وَلَداً وَ هُمْ لاَ يَشْعُرُونَ‌ (13) يہ تو ہماري اور تمہاري آنکھوں کي ٹھنڈک ہے لہ?ذا اسے قتل نہ کرو کہ شايد يہ ہميں فائدہ پہنچائے اور ہم اسے اپنا فرزند بناليں اور وہ لوگ کچھ نہيں سمجھ رہے تھے ? فرعون کے زمانہ ميں نوزائيدہ بچّہ کي صنف معلوم کرنے کے لئے ہر دودھ پلانے والي عورت کا پيچھا کيا جاتا تھا ، تاکہ لڑکا ہونے کي صورت ميں اسے قتل کرديا جائے ، اس خطرناک ماحول ميں جنابِ موسي? کي بہن کي طرف سے ايک دائي کي تجويز کوئي معمولي اقدام نہيں تھا بلکہ ايک خطرناک اقدام تھا ، موت سے روبرو ہونے کا مقام تھا اور وہ بھي ايک ايسے ماحول ميں جہاں جنابِ موسي? عليہ السّلام کي مادرِگرامي کا حاملہ ہونا اور بچّہ کو پيدا کرنا سب صيغہ? راز ميں تھا ، يہ تجويز اور بھي زيادہ خطرناک تھي ، ليکن اس پر عمل ہوا اور فرعون کي زوجہ کي تجويز کو بھي قبول کر ليا گيا?

جنابِ مريم ، ان کا مرتبہ اور مقام

جنابِ مريم بھي ان خواتين ميں سے ہيں جن کے مرتبہ ، عظمت اور کرامت کا ذکر قرآن مجيد ميں آيا ہے ، قرآن مجيد نے آپ کي ذاتِ والا صفات کو صاحبانِ ايمان کے لئے نمونہ? عمل قرار ديا ہے ، ارشاد ہوتا ہے : " وَ مَرْيَمَ ابْنَةَ عِمْرَانَ الَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيهِ مِنْ رُوحِنَا وَ صَدَّقَتْ بِکَلِمَاتِ رَبِّهَا وَ کُتُبِهِ وَ کَانَتْ مِنَ الْقَانِتِينَ‌ (14) اور مريم بنت عمران کو بھي (اللہ مثال کے طور پر پيش کرتا ہے ) جس نے اپني عصمت کي حفاظت کي تو ہم نے اس ميں اپني روح پھونک دي اور اس نے اپنے رب کے کلمات اور اس کي کتابوں کي تصديق کي اور وہ فرمانبرداروں ميں سے تھي ? آياتِ قرآن سے استفادہ ہوتا ہے کہ جنابِ مريم کي کفالت حضرتِ زکريا عليہ السّلام کے ذمّہ تھي ، جب بھي جنابِ زکريا محرابِ عبادت ميں جنابِ مريم کي ملاقات کے لئے جايا کرتے تھے تو وہاں قسم قسم کے ميوہ اور غذائيں ديکھتے تھے ، جنابِ مريم عليہا السّلام ان پھلوں اور غذاؤں کے سلسلہ ميں فرمايا کرتي تھيں کہ يہ سب خدا کي طرف سے ہے ، پروردگارِ عالم نے انہيں بے حساب نعمتوں سے نوازا ہے ? ارشادِ ربّ العزّت ہے "کُلَّمَا دَخَلَ عَلَيْهَا زَکَرِيَّا الْمِحْرَابَ وَجَدَ عِنْدَهَا رِزْقاً قَالَ يَا مَرْيَمُ أَنَّى لَکِ ه?ذَا قَالَتْ هُوَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَرْزُقُ مَنْ يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ‌ (15) جب زکريا عليہ السّلام محرابِ عبادت ميں داخل ہوتے تو مريم کے پاس رزق ديکھتے اور پوچھتے کہ يہ کہاں سے آيا اور مريم جواب ديتيں کہ يہ سب خدا کي طرف سے ہے وہ جسے چاہتا ہے رزقِ بے حساب عطا کرديتا ہے ? قرآن کے اعتبار سے يہ بات مستند ہے کہ فرشتے جنابِ مريم سے گفتگو کيا کرتے تھے اور آپ کي باتوں کو سنا کرتے تھے، ارشاد ہوتا ہے " وَ إِذْ قَالَتِ الْمَلاَئِکَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَاکِ وَ طَهَّرَکِ وَ اصْطَفَاکِ عَلَى نِسَاءِ الْعَالَمِينَ‌ .

يَا مَرْيَمُ اقْنُتِي لِرَبِّکِ وَ اسْجُدِي وَ ارْکَعِي مَعَ الرَّاکِعِينَ‌ (16) اور اس وقت کو ياد کرو جب ملائکہ نے مريم کو آواز دي کہ خدا نے تمہيں چن ليا ہے اور پاکيزہ بناديا ہے اور عالمين کي عورتوں ميں منتخب قرار دے ديا ہے ? اے مريم! تم اپنے پروردگار کي اطاعت کرو ، سجدہ کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو?

پس عورت بھي عالمِ ملکوت تک رسائي حاصل کرسکتي ہے ، وہ بھي فرشتوں کي مخاطب قرار پاسکتي ہے ?

مردوں اور عورتوں ميں عفّت اور پاکدامني کے استاد

قرآنِ مجيد نے عفيف اور پاک دامن انسان کے تعارف کے لئے مرداور عورت دونوں کي مثال پيش کي ہے ، اس ميدان ميں مرد اور عورت دونوں ہي جلوہ افروز ہيں ?

قرآن مجيد نے مردوں ميں سے حضرت يوسف عليہ السّلام اور عورتوں ميں سے جناب مريم عليہا السّلام کو عفّت اور پاکدامني کے نمونہ کے طور پر پيش کيا ہے ، حضرتِ يوسف بھي امتحان ميں مبتلا ہوئے اور اپني عفّت کي وجہ سے نجات حاصل کي ، جنابِ مريم عليہا السّلام کا بھي امتحان ليا گيا وہ بھي اپني عفّت کے سايہ ميں نجات سے ہمکنار ہوئيں?

قرآنِ مجيد نے حضرتِ يوسف عليہ السّلام کے امتحان کو ان الفاظ ميں بيان کيا ہے " وَ لَقَدْ هَمَّتْ بِهِ وَ هَمَّ بِهَا لَوْ لاَ أَنْ رَأَى بُرْهَانَ رَبِّهِ (??)اور يقينا اس (مصري) عورت نے ان سے برائي کا اردہ کيا اور وہ بھي ارادہ کر بيٹھتے اگر اپنے رب کي دليل نہ ديکھ ليتے ، اس عورت نے جنابِ يوسف عليہ السّلام کا پيچھا ضرور کيا ليکن جناب ِ يوسف نے نہ صرف يہ کہ گناہ کا ارتکاب نہيں کيا بلکہ اس کے مقدّمات کو بھي فراہم نہيں کيا بلکہ انہوں نے اس گناہ کا تصوّر بھي نہيں کيا چونکہ وہ اپنے پرودگار کي دليل کا مشاہدہ کرچکے تھے ، ان پر الزام لگانے والے آخر کار ان کي بے گناہي کے اعتراف پر مجبور ہوگئے " الْآنَ حَصْحَصَ الْحَقُّ أَنَا رَاوَدْتُهُ عَنْ نَفْسِهِ وَ إِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ(18)( توعزيزمصر کي بيوي نے کہا) اب حق بالکل واضح ہو گيا ہے کہ ميں نے خود انہيں اپني طرف مائل کرنے کي کوشش کي تھي اور وہ صادقين ميں سے ہيں ، ان الفاظ کے ذريعہ عزيزِ مصر نے جنابِ يوسف عليہ السّلام کي طہارت کي گواہي دي اور بتايا کہ نہ فقط جنابِ يوسف برائي کي طرف مائل نہيں ہوئے بلکہ برائي بھي ان کي طرف مائل نہيں ہوئي" کَذ?لِکَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوءَ وَ الْفَحْشَاءَ مِنْ (??) يہ تو ہم نے اس طرح کا انتظام کيا کہ ان سے برائي اور بدکاري کا رخ موڑ ديں، قرآن کا ارشاد ہے کہ ہم نے گناہ کو بھي اس بات کي اجازت نہيں دي کہ وہ جنابِ يوسف کي طرف جائے ?

حضرت يوسف تمام عالم انسانيت کے لئے عفّت اور طہارت کا نمونہ ہيں حضرتِ مريم بھي ملکہ ? عفّت کے اعتبار سے جنابِ يوسف سے کسي درجہ کم نہيں ہيں بلکہ وہ جنابِ يوسف کي ہم پلّہ يا ان سے بھي بالا ہيں ، چونکہ قرآنِ مجيد جناب مريم کي حالت کو بيان کرتے ہوئے فرماتا ہے " قَالَتْ إِنِّي أَعُوذُ بِالرَّحْم?نِ مِنْکَ إِنْ کُنْتَ تَقِيّاً (20 ) اور انہوں نے کہا کہ اگر تو خوفِ خدا رکھتا ہے تو ميں تجھ سے خدا کي پناہ مانگتي ہوں ، جنابِ مريم نہ صرف يہ کہ بذاتِ خود گناہ کي طرف مائل نہيں ہيں بلکہ اس فرشتہ کو بھي امربالمعروف کرتي ہيں جو انساني شکل وصورت ميں متمثّل ہوا تھا اور فرماتي ہيں اگر تم خوفِ خدا رکھتے ہو تو يہ فعل انجام نہ دو حالانکہ حضرتِ يوسف نے خدا کي دليل اور برہان کا مشاہدہ کيا جس کي وجہ سے يہ قبيح فعل انجام نہيں ديا?

نتيجہ اور ماحصل :

مذکور تمام باتيں بيان گر ہيں کہ انساني اقدار کے حصول ميں مردو عورت کو برابري حاصل ہے کيوں کہ دونوں ہي يکساں طور سے راہِ تکامل اور کمال کو طے کرسکتے ہيں اور ميدانِ عمل ميں بھي فضائل و کمالات سے يکساں طور پر مزيّن ہو سکتے ہيں ? بعض کامل مردوں اور خواتين کو بطورِ مثال پيش کرکے يہ بھي واضح کرديا گيا کہ يہ ہمسري اور يکسانيت محض تِھيوري اور نظريہ تک محدود نہيں ہے بلکہ عملي ميدان ميں بھي يہ دونوں صنفيں ان اقدار سے ہمکنار ہوئي ہيں ?


?????????????????????????????????????????????
حوالہ جات
1. سوره آل عمران، آيه 195.
2. الميزان، ج 4، ص 94.
3. سوره احزاب، آيه 35.
4. مجمع البيان، ج 7، ص 357 ـ 358؛ نورالثقلين، ج 4، ص 275.
5. سوره نحل، آيه 97.
6. سوره صافات، آيه 101.
7. سوره حجر، آيه 53.
8. سوره حجر ، آيه 54.
9. سوره حجر ، آيه 55 ـ 56.
10. سوره هود، آيه 71.
11. سوره قصص، آيه 7.
12. سوره قصص، آيه 11.
13. سوره قصص ، آيه 9.
14. سوره تحريم، آيه 12.
15. سوره آل عمران، آيه 37.
16. سوره آل عمران ، آيه 42 ـ 43.
17. سوره يوسف، آيه 24.
18. سوره يوسف ، آيه 51.
19. سوره يوسف، آيه 44.
20. سوره مريم، آيه 17.

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬