25 July 2009 - 16:29
News ID: 51
فونت
شیعوں کے تیسرے امام ،حضرت امام حسین علیہ السلام ملقب به « سید الشہدا» سوم شعبان کو مدینہ منوّرہ میں پیدا ہوئے ۔
امام حسين عليہ السلام کا روضہ


حضرت امام حسین علیہ السلام  کی ولادت

حضرت امام حسن علیہ السلام کی ولادت کے بعد پچاس راتیں گزریں تھیں کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کا نطفہ وجود بطن مادر میں مستقر ہوا تھا ۔ حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں کہ ولادت حسن اوراستقرارحمل حسین میں ایک طہر کا فاصلہ تھا ۔ (1)

ابھی آپ کی ولادت نہ ہونے پائی تھی کہ بروایتی ام الفضل بنت حارث نے خواب میں دیکھا کہ رسول کریم کے جسم کاایک ٹکڑا لا کرمیری آغوش میں رکھا گیا ہے . اس خواب سے وہ بہت گھبرائیں ، اوردوڑی ہوئی رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوکرعرض کرےی ہیں : حضورآج ایک بہت برا خواب دیکھا ہے۔ حضرت نے خواب سن کرمسکراتے ہوئے فرمایا کہ یہ خواب تونہایت ہی عمدہ ہے۔  اے ام الفضل خواب کی تعبیر یہ ہے کہ میری بیٹی فاطمہ کے بطن سے عنقریب ایک بچہ پیدا ہو گا جو تمہارے ہی آغوش میں پرورش پائے گا ۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ارشاد فرمانے کوتھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ نورنظررسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم امام حسین علیہ السلام بتاریخ ۳/ شعبان    ۴ ء ہجری بمقام مدینہ منورہ بطن مادرسے آغوش مادرمیں آ گئے۔ ( 2 )

ام الفضل کا بیان ہے کہ میں حسب الحکم ان کی خدمت کرتی رہی، ایک دن میں بچے کولے کر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئی آپ نے آغوش محبت میں لے کرپیارکیا اور آپ رونے لگے میں نے سبب دریافت کیا توفرمایا کہ ابھی ابھی جبرئیل میرے پاس آئے تھے وہ بتلاگئے ہیں کہ یہ بچہ امت کے ہاتھوں نہایت ظلم وستم کے ساتھ شہید ہوگا اور اے ام الفضل وہ مجھے اس کی قتل گاہ کی سرخ مٹی بھی دے گئے ہیں . (3)۔

اور دوسری کتابوں میں ملتا  ہے کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا دیکھو یہ واقعہ فاطمہ سے کوئی نہ بتلائے ورنہ وہ سخت پریشان ہوں گی .
ملا جامی لکھتے ہیں کہ ام سلمہ نے بیان کیا کہ ایک دن رسول خدا میرے گھراس حال میں تشریف لائے کہ آپ کے سرمبارک کے بال بکھرے ہوئے تھے  اورچہرے پرگرد پڑی ہوئی تھی ، میں نے اس پریشانی کودیکھ کرپوچھا کیا بات ہے فرمایا مجھے ابھی ابھی جبرئیل عراق کے مقام کربلامیں لے گئے تھے وہاں میں نے جائے قتل حسین دیکھی ہے اوریہ مٹی لایا ہوں اے ام سلمہ اسے اپنے پاس محفوظ رکھو جب یہ مٹی  خون میں بدل جائے توسمجھنا کہ میرا حسین شہید ہوگیا ۔ ( 4 ) ۔

  آپ کااسم گرامی

 صاحب نورالابصار لکھتے ہیں کہ ولادت کے بعد سرور کائنات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے امام حسین علیہ السلام  کی آنکھوں میں لعاب دہن لگایا اور اپنی زبان ان کے منہ میں دے کر بڑی دیرتک چسایا، اس کے بعد داہنے کان میں اذان اوربائیں کان میں اقامت کہی، پھردعائے  خیرفرما کر حسین نام رکھا ( 5 ) ۔

علماء کابیان ہے کہ یہ نام اسلام سے پہلے کسی کا بھی نہیں تھا، وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ نام خود خداوندعالم کا رکھا ہوا ہے . ( 6 ) ۔

کتاب اعلام الوری طبرسی میں ہے کہ یہ نام بھی دیگرآئمہ کے ناموں کی طرح لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے۔


 آپ کاعقیقہ

 امام حسین علیہ السلام  کانام رکھنے کے بعد سرور کائنات نے حضرت فاطمہ سے فرمایا کہ بیٹی جس طرح حسن کا عقیقہ کیا گیا ہے اسی طرح اسی کے عقیقہ کا بھی انتظام کرو، اوراسی طرح بالوں کے ہم وزن چاندی تصدق کرو، جس طرح اس کے بھائی حسن کے لیے کرچکی ہو، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حکم کے مطابق رسم عقیقہ ادا کردی گئی (7) ۔


آپ کی کنیت اور القاب

 آپ کی کنیت صرف ابوعبداللہ تھی، البتہ آپ کے القاب بے شمار ہیں جن میں سید و صبط اصغر، شہیداکبر، اور سیدالشہداء زیادہ مشہور ہیں ۔ علامہ محمد بن طلحہ شافعی کا بیان ہے کہ سبط اور سید خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے معین کردہ القاب ہیں (8) ۔
 آپ کی رضاعت
اصول کافی باب مولدالحسین  میں ہے کہ امام حسین علیہ السلام  نے پیدا ہونے کے بعد نہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کا شیر مبارک نوش کیا اورنہ کسی اوردائی کا دودھ پیا ، ہوتا یہ تھا کہ جب آپ بھوکے ہوتے تھے توسرور کائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تشریف لا کرزبان مبارک آپ کے دہن اقدس میں دے دیتے تھے ، اور امام حسین علیہ السلام  اسے چوسنے لگتے تھے ، یہاں تک کہ سیر وسیرآب ہوجاتے تھے ، معلوم ہونا چاہئے کہ اسی سے امام حسین علیہ السلام  کا گوشت پوست بنا اورلعاب دہن رسالت سے امام حسین علیہ السلام پرورش پا کر کار رسالت انجام دینے کی صلاحیت کے مالک بنے یہی وجہ ہے کہ آپ رسول کریم سے بہت مشابہ تھے ( 9 ) ۔

  خداوند عالم کی طرف سے ولادت امام حسین علیہ السلام  کی تہنیت اور تعزیت

علامہ حسین واعظ کاشفی لکھتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام  کی ولادت کے بعد خلاق عالم نے جبرئیل کوحکم دیاکہ زمین پرجاکرمیرے حبیب محمد مصطفی کومیری طرف سے حسین کی ولادت پرمبارک باد دے دو اورساتھ ہی ساتھ ان کی شہادت عظمی سے بھی مطلع کرکے تعزیت ادا کردو، جناب جبرئیل بحکم رب جلیل زمین پر وارد ہوئے ، اورانہوں نے آنحضرت کی خدمت میں شہادت حسینی کی تعزیت بھی خدا کی جانب سے  اداکی کی ، یہ سن کرسرورکائنات گھبرا گئے پریشان ہو گئے  اورآپ نے پوچھا، جبرئیل ماجرا کیا ہے تہنیت کے ساتھ تعزیت کی تفصیل بیان کرو، جبرئیل نے عرض کی کہ مولا ایک وہ دن ہوگا جس دن آپ کے چہیتے فرزند”حسین“ کے گلوئے مبارک پرکندخنجر چلایا جائے گا اورآپ کا یہ نورنظر بےیار و مددگار میدان کربلامیں یکہ و تنہا تین دن کا بھوکا اور پیاسا شہید ہو جائیگا یہ سن کرسرور عالم محو گریہ ہوگئے آپ کے رونے کی خبرجونہی امیرالمومنین کوپہنچی وہ بھی رونے لگے اورعالم گریہ میں داخل خانہ سیدہ کونین ہوگئے ۔

جناب سیدہ نے جوحضرت علی کوروتا دیکھا دل بے چین ہوگیا، عرض کی ابوالحسن رونے کاسبب کیا ہے فرمایا  بنت رسول ابھی جبرئیل آئے ہیں اور وہ حسین کی تہنیت کے ساتھ ساتھ اس کی شہادت کی بھی خبر دے گئے ہیں حالات سے با خبر ہونے کے بعد فاطمہ کے گریہ گلوگیر ہوگیا ، آپ نے حضرت کی خدمت میں حاضر ہو کرعرض کی باباجان یہ کب ہوگا، فرمایاجب میں نہ ہوں گا نہ توہوگی نہ علی ہوں گے نہ حسن ہوں گے فاطمہ نے پوچھا بابا میرابچہ کس خطا پرشہید ہوگا ، فرمایا فاطمہ میرا لال حسین بالکل بے جرم وخطا صرف اسلام کی حمایت میں شہید کر دیا جائیگا، فاطمہ زہرا سلام اللہ نے عرض کی باباجان جب ہم میں سے کوئی نہ ہوگا توپھراس پر گریہ کون کرے گا اوراس کی صف ماتم کون بچھائے گا، راوی کا بیان ہے کہ اس سوال کاحضرت رسول کریم ابھی جواب نہ دینے پائے تھے کہ ہاتف غیبی کی آواز آئی ، اے فاطمہ غم نہ کروتمہارے اس فرزند کاغم ابدالآباد تک منایاجائے گا اوراس کا ماتم قیامت تک جاری رہے گا ایک روایت میں ہے کہ رسول خدا نے فاطمہ کے جواب میں یہ فرمایا تھا کہ خدا کچھ لوگوں کوہمیشہ پیدا کرتا رہے گا جس کے بوڑھے بوڑھوں پراورجوان جوانوں پراوربچے بچوں پراورعورتیں عورتوں پر گریہ وزاری کرتی رہیں گے۔


فطرس کا واقعہ

علامہ مذکور بحوالہ حضرت شیخ مفید علیہ الرحمہ لکھتے ہیں کہ اسی تہنیت کے سلسلہ میں جناب جبرئیل بے شمارفرشتوں کے ساتھ زمین کی طرف آرہے تھے کہ ناگاہ  ان کی نظرزمین کے ایک غیرمعروف طبقہ پرپڑی دیکھا کہ ایک فرشتہ زمین پرپڑا ہوا زار و قطار رو رہا ہے ، آپ اس کے قریب گئے اورآپ نے اس سے ماجرا پوچھا اس نے کہا اے جبرئیل میں وہی فرشتہ ہوں جوپہلے آسمان پرستر ہزار فرشتوں کی قیادت کرتا تھا میرا نام فطرس  ہے جبرئیل نے پوچھا تجھے کس جرم کی یہ سزاملی ہے اس نے عرض کی ، مرضی معبود کے سمجھنے میں ایک پل کی دیرکی تھی جس کی یہ سزابھگت رہا ہوں بال وپرجل گئے ہیں یہاں کنج تنہائی میں پڑاہوں ۔

ائے جبرئیل خدارا میری کچھ مدد کروابھی جبرئیل جواب نہ دینے پائے تھے کہ اس نے سوال کیا ائے روح الامین آپ کہاں جا رہے ہیں انہوں نے فرمایا کہ نبی آخرالزماں حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کے یہاں ایک فرزند پیدا ہوا ہے جس کا نام حسین ہے میں خداکی طرف سے اس کی ادائے تہنیت کے لیے جا رہا ہوں، فطرس نے عرض کی اے جبرئیل خدا کے لیے مجھے اپنے ہمراہ لیتے چلو مجھے اسی در سے شفا اورنجات مل سکتی ہے جبرئیل اسے ساتھ لے کر حضور کی خدمت میں اس وقت پہنچے جب کہ امام حسین علیہ السلام  آغوش رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں جلوہ فرما تھے جبرئیل نے عرض حال کیا ، سرورکائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ فطرس کے جسم کوحسین سے مس کر دو، شفا ہوجائے گی جبرئیل نے ایسا ہی کیا اورفطرس کے بال وپراسی طرح روئیدہ ہوگیے جس طرح پہلے تھے ۔

وہ صحت پانے کے بعد فخرومباہات کرتا ہوا اپنی منزل”اصلی“ آسمان سوم پرجا پہنچا اورمثل سابق ستر ہزار فرشتوں کی قیادت کرنے لگا، یہاں تک کہ وہ زمانہ آیا جس میں امام حسین علیہ السلام  نے شہادت پائی اوراسے حالات سے آگاہی ہوئی تواس نے بارگاہ احدیت میں عرض کی مالک مجھے اجازت دی جائے کہ مین زمین پرجا کردشمنان حسین سے جنگ کروں ارشاد ہوا کہ جنگ کی ضرورت نہیں البتہ تو ستر ہزار فرشتے لے کر زمین پر جا اوران کی قبرمبارک پرصبح وشام گریہ و ماتم کیا کر اوراس کا جو ثواب ہو اسے ان کے رونے والوں کے لیے ہدیہ کردے چنانچہ فطرس زمین کربلا پرجا پہنچا اورتا قیام قیامت شب و روز امام حسین علیہ السلام  کے مظلومیت پر روتا رہے گا . (10)۔

 

 امام حسین علیہ السلام  رسول اقدس کے سینہ پر

 صحابی رسول ابوہریرہ راوی حدیث کا بیان ہے کہ میں نے اپنی آنکھوں سے یہ دیکھا ہے کہ رسول کریم لیٹے ہوئے اورامام حسین علیہ السلام  نہایت کمسنی کے عالم میں ان کے سینہ مبارک پرہیں، ان کے دونوں ہاتھوں کوپکڑے ہوئے فرماتے ہیں اے حسین تومیرے سینے پرکود چنانچہ امام حسین علیہ السلام  آپ کے سینہ مبارک پر کودنے لگے اس کے بعد حضورصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  نے امام حسین علیہ السلام  کا منہ چوم کرخدا کی بارگاہ میں عرض کی اے میرے پالنے والے میں اسے بے حد چاہتا ہوں توبھی اسے محبوب رکھ، ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت امام حسین علیہ السلام  کا لعاب دہن اوران کی زبان اس طرح چوستے تھے جس طرح کجھور چوسے جاتے ہیں ۔ (11) ۔


عید کے دن جنت سے فرزندان رسول کے لئے کپڑے کا آنا

امام حسن علیہ السلام اورا مام حسین علیہ السلام  کا بچپنا ہے عید آنے والی ہے اور ان اسخیائے عالم کے گھرمیں نئے کپڑے کا کیا ذکر پرانے کپڑے، بلکہ روٹی تک نہیں ہے بچوں نے ماں کے گلے میں بانہیں ڈال دیں مادرگرامی مدینہ کے بچچے عید کے دن نئے نئے کپڑے پہن کرنکلیں گے اورہمارے پاس بالکل نئی لباس نہیں ہے ہم کس طرح عید منائیں گے ماں نے کہا بچوگھبراؤ نہیں، تمہارے کپڑے درزی لائے گا عید کی رات آئی بچوں نے ماں سے پھرکپڑوں کا تقاضا کیا ، ماں نے وہی جواب دے کرنونہالوں کوخاموش کردیا ۔

ابھی صبح نہیں ہونے پائی تھی کہ ایک شخص نے دق الباب کیا، دروازہ کھٹکھٹایا فضہ دروازہ پرگئیں ایک شخص نے ایک بقچہ لباس دیا، فضہ نے سیدئہ عالم کی خدمت میں اسے پیش کیا اب جوکھولاتواس میں دوچھوٹے چھوٹے عمامے دوقبائیں،دوعبائیں غرض کہ تمام ضروری کپڑے موجود تھے ماں کا دل باغ باغ ہوگیا وہ توسمجھ گئیں کہ یہ کپڑے جنت سے آئے ہیں لیکن منہ سے کچھ نہیں کہا بچوں کوجگایا کپڑے دئیے صبح ہوئی بچوں نے جب کپڑوں کے رنگ کی طرف توجہ کی توکہا مادرگرامی یہ توسفید کپڑے ہیں اطفال مدینہ رنگین کپڑے پہننے ہوں گے، والدہ گرامی  ہمیں رنگین کپڑے چاہئیں ۔

حضور انورکواطلاع ملی، تشریف لائے، فرمایا گھبراؤ نہیں تمہارے کپڑے ابھی ابھی رنگین ہوجائیں گے اتنے میں جبرئیل آفتابہ لیے ہوئے آ پہنچے انہوں نے پانی ڈالا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ارادے سے کپڑے سبز اور سرخ ہوگئے سبز جوڑا حسن نے پہنا سرخ جوڑا حسین نے زیب تن کیا، ماں نے گلے لگا لیا باپ نے بوسے دئیے نانا نے اپنی پشت پرسوار کر کے مہار کے بدلے زلفیں ہاتھوں میں دیدیں اور کہا، میرے نونہالو، رسالت کی باگ ڈور تمہارے ہاتھوں میں ہے جدھر چاہو موڑ دو اورجہاں چاہو لے چلو ، (12) ۔

بعض علماء کا کہنا ہے کہ سرور کائنات بچوں کو پشت پر بٹھا کر دونوں ہاتھوں اور پیروں سے چلنے لگے اور بچوں کی فرمائش پر اونٹ کی آواز منہ سے نکال نے لگے ،(13)۔

 امام حسین علیہ السلام  کا سردار جنت ہونا

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی یہ حدیث مسلمات اور متواترات سے ہے کہ ” الحسن و الحسین سیدا شباب اہل الجنة و ابوہما خیر منہما “ حسن اور حسین جوانان جنت کے سردارہیں اوران کے پدر بزرگواران دونوں سے بہترہیں (ابن ماجہ) صحابی رسول جناب حذیفہ یمانی کا بیان ہے کہ میں نے ایک دن سرور کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کو بے انتہا مسرور دیکھ کرپوچھا حضور، افراط مسرت کی کیا وجہ ہے فرمایا اے حذیفہ آج ایک ایسا ملک نازل ہوا ہے جومیرے پاس اس سے قبل کبھی نہیں آیا تھا اس نے مجھے میرے بچوں کی سرداری جنت پرمبارک دی ہے اورکہا ہے کہ” ان فاطمة سیدة نساء اہل الجنة وان الحسن والحسین سیداشباب اہل الجنة “ فاطمة جنت کی عورتوں کی سردارہیں اورحسنین جنت کے مردوں کے سردارہیں (14) ۔

اس حدیث سے سیادت علویہ کامسئلہ بھی حل ہوگیا قطع نظراس سے کہ حضرت علی میں مثل نبی سیادت کا ذاتی شرف موجود تھا اورخود سرورکائنات نے بار بار آپ کی سیادت کی تصدیق سیدالعرب، سیدالمتقین، سیدالمومنین وغیرہ جیسے الفاظ سے فرمائی ہے حضرت علی کا سرداران جنت امام حسن اور امام حسین علیہ السلام  سے بہتر ہونا واضح کرتا ہے کہ آپ کی سیادت مسلم ہی نہیں بلکہ بہت بلند درجہ رکھتی ہے .

 امام حسین علیہ السلام کا عالم نمازمیں پشت رسول پر ھونا

 خدا نے جو شرف امام حسن علیہ السلام اورامام حسین علیہ السلام  کوعطا فرمایا ہے وہ اولاد رسول اورفرزندان علی میں آل محمد کے سواکسی کونصیب نہیں ان حضرات کا ذکرعبادت اوران کی محبت عبادت، یہ حضرات اگرپشت رسول پرعالم نمازمیں سوار ہو جائیں، تو نماز میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا، اکثر ایسا ہوتا تھا کہ یہ نونہالان رسالت پشت پر عالم نمازمیں سوار ہو جایا کرتے تھے اور جب کوئی منع کرنا چاہتا تھا تو آپ اشارہ سے روک دیا کرتے تھے اور کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ آپ سجدہ میں اس وقت تک مشغول ذکررہا کرتے تھے جب تک بچے آپ کی پشت سے خود نہ اترآئیں آپ فرمایا کرتے تھے خدایا میں انہیں دوست رکھتا ہوں توبھی ان سے محبت کر، کبھی ارشاد ہوتا تھا اے دنیا والو! اگرمجھے دوست رکھتے ہو تو میرے بچوں سے بھی محبت کرو(15) ۔

حدیث «حسین منی»
 سرور کائنات نے امام حسین علیہ السلام کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں، کہ اے دنیا والو! بس مختصریہ سمجھ لو کہ ” حسین منی وانامن الحسین “ حسین مجھ سے ہے اورمیں حسین سے ہوں ۔ خدا اسے دوست رکھے جوحسین کو دوست رکھے (16) .

 مکتوبات باب جنت
سرور کائنات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ شب معراج جب میں سیرآسمانی کرتا ہوا جنت کے قریب پہنچا تو دیکھا کہ باب جنت پر سونے کے حروف میں لکھا ہوا ہے ۔

” لاالہ الااللہ محمد حبیب اللہ علی ولی اللہ وفاطمة امةاللہ

والحسن والحسین صفوة اللہ ومن ابغضہم لعنہ اللہ “

 ترجمہ  :  خدا کے سواکوئی معبودنہیں۔ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  اس کے رسول ہیں علی ، اللہ کے ولی ہیں ۔ فاطمہ اللہ کی کنیزہیں، حسن اورحسین اللہ کے برگزیدہ ہیں اوران سے بغض رکھنے والوں پر اللہ کی لعنت ہے .(17)

 امام حسین علیہ السلام  اور صفات حسنہ کی مرکزیت
یہ تومعلوم ہی ہے کہ امام حسین علیہ السلام  حضرت محمد مصطفی صلی علیہ وآلہ وسلم کے نواسے ، حضرت علی و فاطمہ کے بیٹے اورامام حسن کے بھائی تھے اورانہیں حضرات کو پنجتن پاک کہا جاتا ہے اور امام حسین علیہ السلام  پنجتن کے آخری فرد ہیں یہ ظاہرہے کہ آخرتک رہنے والے اور ہردورسے گزرنے والے کے لیے اکتساب صفات حسنہ کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں، امام حسین علیہ السلام  ۳/ شعبان ۴ ہجری کو پیدا ہو کرسرور کائنات کے زیر پرورش  رہے اور آغوش مادرمیں رہے اورکسب صفات کرتے رہے، ۲۸/ صفر   ۱۱ ہجری کوجب آنحضرت شہادت پا گئے اور ۳/ جمادی الثانیہ کو ماں کی برکتوں سے محروم ہو گئے توحضرت علی نے تعلیمات الہیہ اورصفات حسنہ سے بہرہ ورکیا ، ۲۱/ رمضان ۴۰ ہجری کو آپ کی شہادت کے بعد امام حسن کے سر پر ذمہ داری عائد ہوئی ، امام حسن ہرقسم کی استمداد اور استعانت خاندانی اورفیضان باری میں برابرکے شریک رہے، ۲۸/ صفر ۵۰ ہجری کوجب امام حسن شہید ہوگئے توامام حسین علیہ السلام  صفات حسنہ کے واحد مرکز بن گئے، یہی وجہ ہے کہ آپ میں جملہ صفات حسنہ موجود تھے اور آپ کے طرز حیات میں محمد وعلی و فاطمہ اورحسن کا کردار نمایاں تھا اور آپ نے جوکچھ کیا قرآن وحدیث کی روشنی میں کیا ، کتب مقاتل میں ہے کہ کربلا میں حب امام حسین علیہ السلام  رخصت آخری کے لیے خیمہ میں تشریف لائے توجناب زینب نے فرمایا تھا کہ ائے خامس آل عبا آج تمہاری جدائی کے تصورسے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ محمد مصطفی ، علی مرتضی ، فاطمةالزہراء ، حسن مجتبی ہم سے جدا ہو رہے ہیں ۔
حضرت عمرکا اعتراف شرف آل محمد

عہد حضرت عمر میں اگر چہ پیغمبر اسلام کی آنکھیں بند ہوچکی تھی اورلوگ محمد مصطفی صلی علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اور تعلیمات کوپس پشت ڈال چکے تھے لیکن پھر بھی کبھی کبھی ” حق بر زبان جاری “ کے مطابق عوام سچی باتیں سن ہی لیا کرتے تھے ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ حضرت عمر منبر رسول سے خطبہ فرما رہے تھے ناگاہ حضرت امام حسین علیہ السلام  کا ادھر سے گزر ہوا آپ مسجد میں تشریف لے گئے اور حضرت عمر کی طرف مخاطب ہو کر بولے ” انزل عن منبر ابی “ میرے باپ کے منبر سے اتر آئیے اورجائیے اپنے باپ  کے منبر پربیٹھے آپ نے کہا کہ میرے باپ کا توکوئی منبرنہیں ہے اس کے بعد منبر سے اتر کر امام حسین علیہ السلام  کو اپنے ہمراہ گھر لے گئے اور وہاں پہنچ کر پوچھا کہ صاحب زادے تمہیں یہ بات کس نے سکھائی ہے تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے خود سے کہا ہے ، مجھے کسی نے سکھایا نہیں اس کے بعد انہوں نے کہا کہ میرے ماں باپ تم پر فدا ہوں ، کبھی کبھی آیا کرو،آپ نے فرمایا بہتر ہے ، ایک دن آپ تشریف لے گئے تو عمر کو معاویہ سے تنہائی میں محو گفتگو پا کر واپس چلے گئے .


.....................................................
1. اصابہ نزول الابرار واقدی
2. شواہدالنبوت ص ۱۳، انوارحسینہ جلد ۳ ص ۴۳ بحوالہ صافی ص ۲۹۸، جامع عباسی ص ۵۹، بحارالانوار و مصاح طوسی ابن نما ص ۲ وغیرہ
3. مشکواة جلد ۸ ص ۱۴۰ طبع لاہور
4. شواہدالنبوت ص ۱۷۴
5. نورالابصار ص ۱۱۳
6. ارجح المطالب و روضة الشہداء ص ۲۳۶
7. مطالب السؤل ص ۲۴۱
8. مطالب السؤل ص ۳۱۲
9. نورالابصار ص ۱۱۳
10. روضة الشہدا صص ۲۳۶ تا ۲۳۸ طبع بمبئی ۱۳۸۵ ئھ وغنیة الطالبین شیخ عبدالقادر جیلانی
11. ارجح المطالب ص ۳۵۹ و ص ۳۶۱ ، استیعاب ج ۱ ص ۱۴۴، اصابہ جلد ۲ ص ۱۱، کنزالعمال جلد ۷ ص ۱۰۴، کنوزالحقائق ص ۵۹
12. روضة الشہداء ص ۱۸۹ بحارالانوار
13. کشف المحجوب
14. کنزالعمال جلد ۷ ص ۱۰۷، تاریخ الخلفاص ۱۲۳، اسدالغابہ ص ۱۲، اصابہ جلد ۲ ص ۱۲، ترمذی شریف، مطالب السول ص ۲۴۲، صواعق محرقہ ص ۱۱۴
15. اصابہ ص ۱۲ جلد ۲ ومستدرک امام حاکم ومطالب السؤل ص ۲۲۳
16. مطالب السؤل ص ۲۴۲، صواعق محرقہ ص ۱۱۴، نورالابصار ص ۱۱۳ ،صحیح ترمذی جلد ۶ ص ۳۰۷ ،مستدرک امام حاکم جلد ۳ ص ۱۷۷ و مسند احمد جلد ۴ ص ۹۷۲، اسدالغابہ جلد ۲ ص ۹۱ ،کنزالعمال جلد ۴ ص ۲۲۱.
17. ارجح المطالب باب ۳ ص ۳۱۳ طبع لاہور ۱۲۵۱.

 

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬