رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، بحرین کے شیعہ مذھبی رہنما آیت الله شیخ عیسی قاسم نے اس ھفتہ شھر دراز کی مسجد امام صادق(ع) میں منعقد ہونے والی نماز جمعہ میں آیت الله سیستانی کے نمائندے کو بحرین سے نکالے جانے پر سخت عکس العمل کا اظھار کرتے ہوئے کہا: شیخ حسین نجاتی جیسے علمائے کرام کے اخراج، علماء کی خاموشی و نیز سچی باتوں پر پابندی سے گورمںٹ کا کیا مقصد ہے ؟ کیا اس کا مطلب دین کی تضعیف اور دین سے جدائی نہیں ہے ۔
انہوں ںے یہ کہتے ہوئے کہ آل خلیفہ نے اس اقدام کے ذریعہ دین کو نشانہ بنایا ہے کہا: میں کسی خاص مذھب کے خلاف باتیں نہیں کر رہا ہوں بلکہ بحرین میں دین کے نور کا دیا خاموش کئے جانے کی باتیں کر رہا ہوں کیوں کہ ایک مذھب کے نور کی خاموشی دیگر مذاھب کے نور کی خاموشی کا مقدمہ ہے ۔
آیت الله عیسی قاسم نے عدلیہ کی جانب سے علماء کونسل کی فعالیتوں کو غیر قانونی بتائے جانے پر افسوس کا اظھار کیا اور کہا: علماء کونسل ارشاد، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور سیاسی نظریات کو بیان کرنے کی ذمہ داری ہے اور ہرگز اپنی دینی ذمہ داریوں سے کہ جو تمام علماء کا وظیفہ ہے پیچھے نہیں ہٹ سکتی ۔
بحرین کے شیعہ مذھبی رہنما نے مزید کہا: علماء کونسل مسجدوں اور قران کو جلائے جانے کی بہ نسبت اپنی اوازیں بلند کرے گی کہ جو سبھی کا وظیفہ ہے ، پورے قران میں سیاست قابل دید ہے ، کیا ہمیں قرات قران کے لئے بھی حکومت سے اجازت لینی پڑے گی ، کیا ہم قرانی ایاتوں کو حکومت کی سیاستوں کے مخالف ہونے کی بناء پر ان کی تلاوت ترک کردیں ۔
انہوں ںے دینی مسائل میں حکومت کی مداخلت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا: اگر نماز، روزہ ، قرات دعا اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے سلسلہ میں حکومت سے اجازت لینا ہمیں ضروری ہے تو پھر ہم پہلے حکومت کے اطاعت گزار ہیں اور اس کے بعد خدا کے اطاعت گزار ہیں ، کیا یہی دین ہے ؟ کیا یہی اسلام ہے ؟