02 December 2014 - 16:44
News ID: 7543
فونت
آخری قسط
رسا نیوز ایجنسی ـ زیارت یعنی عاشق کی دیار معشوق میں حاضری، چاہنے والے کا اپنے محبوب سے چاہت کا اظہار ،ایک دین دار کا اپنے پیشوا کے آگے تسلیم ہونا ،ایک مرید کا اپنے مرادسے وفاداری کا اعلان ہے ۔
زيارت جامعہ


 

تحریر: محمد عباس مسعود

رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق زیارت یعنی عاشق کی دیار معشوق میں حاضری، چاہنے والے کا اپنے محبوب سے چاہت کا اظہار ،ایک دین دار کا اپنے پیشوا کے آگے تسلیم ہونا ،ایک مرید کا اپنے زیارت امتحان کے ترازو میں اپنے آپ کو تولنے کا نام ہے اور ایسا اشتیاق بھرا سفر ہے جو دل سے شروع ہوتا ہے اور دل ہی کے راستے سے طے کیا جاتا ہے اور منزل دل پر جاکر تمام ہوتا ہے جہاں مسافر اپنا بار سفر اتاردیتا ہے ۔

اس زیارت کی بہترین شرح فیلسوف و عارف آیۃ اللہ شیخ عبد اللہ جوادی آملی تحت عنوان " ادب فنای مقربان " ہے ۔

آیۃ اللہ جوادی آملی فرماتے ہیں: زیارت جامعہ کبیرہ، دعائے جوشن کبیر کے ہم پلہ ہے جو وزن و مقام اس دعا کا ہے وہی وزن زیارت جامعہ کا ہے جس طرح دعائے جوشن کبیر میں اللہ کے اسماء و صفات کے ہزار جلوے ہیں تاکہ بندہ اللہ کے کمالات کا ہزار آنکھوں سے مشاہدہ کرسکے اور اسکی معرفت میں اضافہ ہو بالکل اسی طرح زیارت جامعہ میں ائمہ علیہم السلام کے مختلف جلوے پیش گئے تاکہ زائر مختلف دریچوں سے ائمہ کی عظمت کا مشاہدہ کرسکے پھر ان کو اپنا آئیڈیل بناکر انکی تاسی کرسکے بعبارت دیگر دعائے جوشن کبیر ایسا وسیع دسترخوان ہے جس پر ہزار قسم کی توحیدی غذائیں چنی ہوئیں ہیں زیارت جامعہ بھی امام شناسی کی مختلف غذائوں سے چنا ہوا دسترخوان ہے جس سے زائر کی مھمان نوازی کی گئی ہے ۔[28]

زیارت جامعہ کا شمار طولانی ترین زیارتوں میں ہوتا ہے شارحین نے زیارت جامعہ کو مطالب کے اعتبار سے کئی حصوں میں تقسیم فرمایا ہے جس میں زیارت کا ایک چوتھائی حصہ امام شناسی سے تعلق رکھتا ہے جس میں مقام امامت کو مختلف پہلؤوں سے پہچنوایا گیا ہے اس میں کہیں ائمہ معصومین کے اخلاق و خصائل کا ذکر ہے تو کہیں انکی عملی سیرت اور راہ ہدایت میں پیش آنے والی مصیبت و مشکلات کا ذکر اور کہیں پر جہان آفرینش میں انکے مقام و مرتبہ کو بتایا گیا ہے کہ اہلبیت کائینات کی خلقت کا سبب اور مقصد ہیں اوربعض مقامات پر انکی تکوینی و تشریعی ولایت کا تذکرہ ہے کہ وہی ہیں جنہوں نے مسلمانوں کو قرآن اور شریعت محمدی کی تعلیم دی اور علوم اسلامی کو پھیلایا اور کہیں ان کی روش تبلیغ پر روشنی ڈالی گئی خلاصہ یہ کہ زیارت جامعہ میں ائمہ کے اتنے زیادہ فضائل و مناقب ہیں کہ کس کس کا ذکر کیا جائے۔امام شناسی کے علاوہ زیارت جامعہ میں اللہ کی وحدانیت رسول کی رسالت اور ائمہ معصومین کی ولایت کا اقرار ہے اس زیارت کے ایک حصہ میں ائمہ معصومین کے ساتھ امت کے سلوک اور اس کے نتائج کا بیان ہے اور اس زیارت کا ایک اہم پہلو شیعہ زائر کی خصوصیات کے بیان سے متعلق ہے اس کے علاوہ اس زیارت میں دو قرآنی دعاؤں کی جانب اشارہ ہے اور اسی کے ساتھ زائر کی زبانی دعا کا ایک سلسلہ ہے جس میں زائر امام اور حقوق امام کی شناخت کی توفیق اللہ سے طلب کرتا ہے ہے اور دین اسلام پر ثابت قدم رہنے کی دعا مانگتا ہے یہاں ہم اس زیارت کے چند اقتباسات ترجمے اور توضیحی مقدمات کے ساتھ قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔۔

زیارت ترویج مذہب اورزائر کی ہدایت وتربیت میں بے حد مؤثر ہے چاہے وہ عقائد و افکار ہوں یا زائر کی انفرادی اور اجتماعی زندگی ہو مختصر یہ کہ زیارت انسان اور انسانی سماج کی ہدایت اور تربیت میں موثر کردار ادا کرتی ہے عقائد کسی بھی مکتب کی بنیاد ہوتے ہیں اگر عقائد درست اور کامل ہوں تو وہ انسان کی زندگی کو معنی دار بناسکتے ہیں، اسے جہت دے سکتے ہیں، اس کے اندر جینے کی امید اور آرزو جگا سکتے ہیں اور اسے کمال اور ترقی کی جانب تحریک دلا سکتے ہیں ۔

1:ولایت اور توحید کا باہمی ربط

اسلام اور خاص طور سے مکتب تشیع جو اسلا م حقیقی کی مکمل تصویر ہے اس مکتب میں ولایت و امامت کو خاص اہمیت حاصل ہے اتنی زیادہ اہمیت ہے کہ اگر کوئی اپنے وقت کے امام کی معرفت کے بغیر اس دنیا سے چلا جائے تو گویا وہ جاہلیت کی موت مرا ہے ۔ اسلام کی بنیاد ہی ولایت پر رکھی گئی ہے چنانچہ ارشاد ہے اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے نماز زکات روزہ حج اور ولایت ان میں جتنی اہمیت ولایت کو دی گئی کسی اور رکن کو نہیں دی گئی اس لئے کہ ولایت اسلام کی حفاظت اور صراط مستقیم پر لوگوں کی ہدایت کی ضامن ہے اور انہیں منزل سعادت سے ہمکنار کرتی ہے جو فرقے امامت و ولایت سے منحرف ہوگئے دیکھئے وہ جدید مسائل کے حل میں کتنے عاجز ہیں اور شخصی اراء میں کس حد تک گرفتار ،ولایت کے بغیر توحید بھی نامکمل ہے اس لئے کہ ظالموں اور طاغوتوں کی ولایت میں توحید کی حاکمیت بے معنی ہےچنانچہ حدیث سلسلۃ الذہب میں امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں کہ خدا وند عالم نے ارشاد فرمایا کہ " لا الہ الااللہ میرا قلعہ ہے اور جومیرے قلعہ میں داخل ہوگیا وہ میرے عذاب سے محفوظ ہوگیا"کچھ دور جانے کے بعد امام نے پھر فرمایا وہ ایمان توحید جو انسان کو عذاب خداوندی سے محفوظ رکھتا ہے اس کی چند شرطیں ہیں اور ان جملہ شرایط میں سے ایک شرط ائمہ علیہم السلام کی ولایت و امامت کا اقرار اور اس کا عقیدہ بھی ایک شرط ہے ۔

ائمہ کی زیارت سے امامت وولایت کے اس بنیادی عقیدے کوتقویت ملتی ہے زائر، زیارت میں بارہ اماموں کی ولایت کو یاد کرتا اور ان کے ساتھ عہد ولایت باندھتا ہے ہمارے اکثر زیارتناموں کا محور یہی مباحث ہیں جس میں زائر اپنے امام کو مختلف صفات سے یاد کرتا ہے انہیں اپنا پیشوا اور اپنا نمونہ عمل مانتا ہے اور ان سے اطاعت و پیروی اور ان کے دشمنوں سے دشمنی کا کا عہد کرتاہے۔زائر یہ آرزو کرتا ہے اے کاش میں آپ کے ساتھ ہوتا اور آپ کے رکاب میں حرکت کرتا ۔۔۔ابھی بھی میں منتظر ہوں کہ آپ کی حکومت حقہ قائم ہو تاکہ میں آپ کی مدد اور نصرت کیلئے آگے بڑھوں اور اسلام کے نفاذ میں آپ کا ساتھ دوں چنانچہ زیارت جامعہ میں بھی زائر توحید و نبوت اور ولایت کی شہادت دیتا ہے اور مختلف پہلووں سے امام کی توصیف و تمجید کرتا ہے جہاں یہ زیارت اپنے امام کی خدمت میں اپنی محبت کا اظہار ہے وہیں امام ہادی کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے الفاظ امام کی حقیقی شناخت کا باعث ہے یہی وجہ ہے کہ زیارت کے اختتام پر زائر امام کی عظمت کے آگے تسلیم ہوکرپھر ایک بار امام سے عہد ولایت باندھتا ہے :

گواہی توحید

أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ وَحْدَهُ لا شَرِیکَ لَهُ کَمَا شَهِدَ اللَّهُ لِنَفْسِهِ وَ شَهِدَتْ لَهُ مَلائِکَتُهُ وَ أُولُوا الْعِلْمِ مِنْ خَلْقِهِ لا إِلَهَ إِلا هُوَ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ" "

میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ، وہ اکیلا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں ،جس طرح خود اپنی ذات پر گواہی دی ہے اس کی مخلوقات سے فرشتوں اور صاحبان علم نے گواہی دی ہے کہ اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں وہ عزت و حکمت والا ہے ۔

گواہی رسالت

وَ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدا عَبْدُهُ الْمُنْتَجَبُ وَ رَسُولُهُ الْمُرْتَضَى أَرْسَلَهُ بِالْهُدَى وَ دِینِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهُ عَلَى الدِّینِ کُلِّهِ وَ لَوْ کَرِهَ الْمُشْرِکُونَ

اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد اس کے برگزیدہ بندے اور منتخب رسول ہیں ۔ان کو ہدایت اور دین کے ساتھ مبعوث فرمایا ، تاکہ انہیں تمام ادیان پر غلبہ عطا کرے گرچہ مشرکوں کو پسند نہ آئے ۔

گواہی امامت

وَ أَشْهَدُ أَنَّکُمُ الْأَئِمَّةُ الرَّاشِدُونَ الْمَهْدِیُّونَ الْمَعْصُومُونَ الْمُکَرَّمُونَ الْمُقَرَّبُونَ الْمُتَّقُونَ الصَّادِقُونَ الْمُصْطَفَوْنَ الْمُطِیعُونَ لِلَّهِ الْقَوَّامُونَ بِأَمْرِهِ الْعَامِلُونَ بِإِرَادَتِهِ الْفَائِزُونَ بِکَرَامَتِهِ اصْطَفَاکُمْ بِعِلْمِهِ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اور میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ پیشوا اور رہنما ، ہدایت یافتہ ، معصوم ، کریم ، مقربان بارگاہ پرہیزگار ، راست باز ، برگزیدہ ، احکام خدا کے ثابت قدم فرمانبردار اس کے اشارے پرچلنے والے ، بزرگیوں کے حامل ، اس نے آپ کو اپنے علم غیب کے کیلئے منتخب کیا،

2:اولیائے خدا کی ولایت اللہ کی ولایت ہے

مَنْ وَالاکُمْ فَقَدْ وَالَى اللَّهَ وَ مَنْ عَادَاکُمْ فَقَدْ عَادَى اللَّهَ وَ مَنْ أَحَبَّکُمْ فَقَدْ أَحَبَّ اللَّهَ [وَ مَنْ أَبْغَضَکُمْ فَقَدْ أَبْغَضَ اللَّهَ‏] وَ مَنِ اعْتَصَمَ بِکُمْ فَقَدِ اعْتَصَمَ بِاللَّه

جس نے آپ کو دوست رکھا اس نے خدا کو دوست رکھا ، جس نے آپ کو دشمن بنایا اس نے اللہ کو اپنا دشمن بنایا ۔ جو آپ کو دوست رکھے وہ خدا کو دوست رکھتا ہے ، جو آپ سے بغض و کینہ رکھے وہ حدا سے بغض و کینہ رکھتا ہے ۔ اور جس نے آپ سے تمسک اختیار کیا اس نے خدا سے تمسک اختیار کیا ۔

3:عقیدہ معاد، برزخ اور قیامت

تمام الہی ادیان کے اصولی مسائل میں ایک مسئلہ مسئلہ معاد اور عالم آخرت ہے اس عقیدہ کا انسان کی زندگی پر گہرا نقش ہے موت کے بعد عالم آخرت کا عقیدہ انسان کو بے ہدف بے مقصد زندگی اور لا ابالی پن سے نکال کر اس کی اسکی دنیاوی زندگی کو ہدف دار بناتا ہے اگر انسان کی زندگی میں آخرت کا عقیدہ نہ ہو اور موت کے بعد حساب و کتاب اور جنت و جہنم کا یقین نہ ہو تو ایسے انسان کی زندگی حیوان سے پست اور بے نتیجہ ہوگی ۔یہی عقیدہ ہے جو انسان کی زندگی کو معنی بخشتا ہے اور اسے صحیح سمت دکھاتا ہے کہ تاکہ وہ صرف دنیا کی چند روزہ مادی زندگی کیلئے اپنی ساری قوتیں صرف نہ کرے بلکہ اپنے آپ کو عالم آخرت کیلئے تیار کرے تاکہ موت کے بعد جو ابدی زندگی نصیب ہونے والی ہے وہ کمال کے انتہائی عروج پر ہو۔

دوسری طرف یہ اعتقاد حیوانی شہوتوں کو قابو میں کرنے اور انسان کی سرکشی کو روکنے میں خاص کردار ادا کرتا ہے چونکہ جب وہ یہ عقیدہ رکھے کہ اسے دوسری دنیا میں اللہ کی عدالت کا سامنا کرنا اور اپنے اچھے برے اعمال کا نتیجہ دیکھنا ہے تو ایسی صورت میں اس کی کوشش یہی ہوگی کہ برائی کی جانب قدم بڑھانے سے پیچھے ہٹے گا یا اب تک جو خطائیں اس اسے سر زد ہوئیں اس سے پشیمان ہوکر توبہ کرے گا ۔

زائر کے یہ ساتھ یہ عقیدہ ہمیشہ ہے جو عقیدہ معاد نہ رکھے وہ زائر ہی نہیں ہوسکتا نہ اپنے امام سے شفاعت کی درخواست کرسکتا ہے بلکہ جو زائر اس عقیدہ کے ساتھ زیارت کیلئے آتا ہے ائمہ کے مزار پر اس کے اس عقیدہ کو اور تقویت ملتی ہے اور جتنا یہ عقیدہ راسخ ہوگا اتناہی اس کا تربیتی اثر گہرا اہوگا ۔

اسی سے اندازہ ہوجاتا ہے زیارت انسان کے ضمیر کو بیدار کرنے اور اسے سفر آخرت کیلئے آمادہ کرنے میں کس حد تک مؤثر ہے ۔

4۔ائمہ کے فضائل و مناقب

زائر اپنے معتقدات کو امام کے سامنے پیش کرنے کے ساتھ امام کے فضائل و مناقب کو دہراتا ہے تاکہ معرفت امام میں اضافہ ہواور ائمہ کے امت پر احسان کا اعتراف کرتے ہوئے کہتا ہے:

الف۔السَّلامُ عَلَیْکُمْ یَا أَهْلَ بَیْتِ النُّبُوَّةِ وَ مَوْضِعَ الرِّسَالَةِ وَ مُخْتَلَفَ الْمَلائِکَةِ وَ مَهْبِطَ الْوَحْیِ وَ مَعْدِنَ الرَّحْمَةِ وَ خُزَّانَ الْعِلْمِ وَ مُنْتَهَى الْحِلْمِ وَ أُصُولَ الْکَرَمِ وَ قَادَةَ الْأُمَمِ وَ أَوْلِیَاءَ النِّعَمِ وَ عَنَاصِرَ الْأَبْرَارِ وَ دَعَائِمَ الْأَخْیَارِ وَ سَاسَةَ الْعِبَادِ وَ أَرْکَانَ الْبِلادِ وَ أَبْوَابَ الْإِیمَانِ وَ أُمَنَاءَ الرَّحْمَنِ وَ سُلالَةَ النَّبِیِّینَ وَ صَفْوَةَ الْمُرْسَلِینَ وَ عِتْرَةَ خِیَرَةِ رَبِّ الْعَالَمِینَ وَ رَحْمَةُ اللَّهِ وَ بَرَکَاتُهُ

سلام ہو تم پر اے خاندان نبوت ، مرکز رسالت ، فرشتوں کی آماجگاہ ،وحی کی منزل ، معدن رحمت ، علم خدا کے خزانہ دار ، حلم و بردباری کے نقطہ آخر ، شرافتوں کی اصل ، امت کے پیشوا ، نعمتوں کے مالک ، اچھائیوں کی اساس ، خوبیوں کے ستون ، بندگان خدا کے سرپرست ، شہروں کی پناہ گاہ، ایمان کے دروازے ، خدا کے امانتدار ، خلاصہ پیغمبران ، انتخاب رسولان ، کائینات کے برگزیدہ پیغمبر کی ذریت ۔خدا کی نعمتیں اور برکتیں ہو آپ پر ۔

ب۔ أَنْتُمُ الصِّرَاطُ الْأَقْوَمُ [السَّبِیلُ الْأَعْظَمُ‏] وَ شُهَدَاءُ دَارِ الْفَنَاءِ وَ شُفَعَاءُ دَارِ الْبَقَاءِ وَ الرَّحْمَةُ الْمَوْصُولَةُ وَ الْآیَةُ الْمَخْزُونَةُ وَ الْأَمَانَةُ الْمَحْفُوظَةُ وَ الْبَابُ الْمُبْتَلَى بِهِ النَّاس

آپ ہیں اللہ کا سیدھا راستہ ، دنیائے فانی میں گواہ اور جہان آخرت میں شفاعت کرنے والے ، پیہم اور مسلسل رحمت ، اللہ کی وہ نفیس نشانی جس کی حفاظت کی جاتی ہے محفوظ امانت اور وہ دروازہ جہاں لوگوں کی آزمائش ہوتی ہے ۔

ج۔ فَبَلَغَ اللَّهُ بِکُمْ أَشْرَفَ مَحَلِّ الْمُکَرَّمِینَ وَ أَعْلَى مَنَازِلِ الْمُقَرَّبِینَ وَ أَرْفَعَ دَرَجَاتِ الْمُرْسَلِینَ حَیْثُ لا یَلْحَقُهُ لاحِقٌ وَ لا یَفُوقُهُ فَائِقٌ وَ لا یَسْبِقُهُ سَابِقٌ وَ لا یَطْمَعُ فِی إِدْرَاکِهِ طَامِعٌ

خداوند عالم نے شرفاء کی بہترین جگہوں ، مقربان بارگاہ کے اعلی درجات اور رسولوں کی بلند منزلوں تک آپ کو پہنچوایا جہاں پہونچنے والے اس پر سبقت نہیں حاصل کر سکتے ، لالچی اس کی طمع نہیں کر سکتے ۔

د۔ لا أُحْصِی ثَنَاءَکُمْ وَ لا أَبْلُغُ مِنَ الْمَدْحِ کُنْهَکُمْ وَ مِنَ الْوَصْفِ قَدْرَکُمْ وَ أَنْتُمْ نُورُ الْأَخْیَارِ وَ هُدَاةُ الْأَبْرَارِ وَ حُجَجُ الْجَبَّارِ بِکُمْ فَتَحَ اللَّهُ وَ بِکُمْ یَخْتِمُ [اللَّهُ‏] وَ بِکُمْ یُنَزِّلُ الْغَیْثَ وَ بِکُمْ یُمْسِکُ السَّمَاءَ أَنْ تَقَعَ عَلَى الْأَرْضِ إِلا بِإِذْنِهِ وَ بِکُمْ یُنَفِّسُ الْهَمَّ وَ یَکْشِفُ الضُّرَّ وَ عِنْدَکُمْ مَا نَزَلَتْ بِهِ رُسُلُهُ وَ هَبَطَتْ بِهِ مَلائِکَتُهُ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اے ہمارے آقا ہم آپ کی ثنا کو شمار نہیں کر سکتے ، آپ کی مدح کی حقیقت تک نہیں پہونچ سکتا ۔ آپ کے صفات کا اندازہ نہیں کر سکتا ، آپ اچھوں کے نور ، نیکوکاروں کے رہنما اور خداوند جبار کی حجت ہیں ۔ خدا نے آپ ہی سے ابتدا کی ہے اور آپ ہی پر اختتام کرے گا ۔ آپ ہی کی بنا پر بارش ہوتی ہے ۔ آپ ہی کے سبب آسمان زمین پر پھٹ نہیں پڑ رہا مگر اس کی اجازت سے ، آپ ہی کے ذریعہ غم کو برطرف کرتا اور سختیوں کو دور کرتز ہے ۔ وہ تمام چیزیں جو پیغمبران الہی اور فرشتے لائے ہیں وہ سب آپ کے پاس ہیں ں اور آپ کے جد پر ۔

ہ:"ذِکْرُکُمْ فِی الذَّاکِرِینَ وَ أَسْمَاؤُکُمْ فِی الْأَسْمَاءِ وَ أَجْسَادُکُمْ فِی الْأَجْسَادِ وَ أَرْوَاحُکُمْ فِی الْأَرْوَاحِ وَ أَنْفُسُکُمْ فِی النُّفُوسِ وَ آثَارُکُمْ فِی الْآثَارِ وَ قُبُورُکُمْ فِی الْقُبُورِ فَمَا أَحْلَى أَسْمَاءَکُمْ وَ أَکْرَمَ أَنْفُسَکُمْ وَ أَعْظَمَ شَأْنَکُمْ وَ أَجَلَّ خَطَرَکُمْ وَ أَوْفَى عَهْدَکُمْ [وَ أَصْدَقَ وَعْدَکُمْکَلامُکُمْ نُورٌ وَ أَمْرُکُمْ رُشْدٌ وَ وَصِیَّتُکُمُ التَّقْوَى وَ فِعْلُکُمُ الْخَیْرُ وَ عَادَتُکُمُ الْإِحْسَانُ وَ سَجِیَّتُکُمُ الْکَرَمُ وَ شَأْنُکُمُ الْحَقُّ وَ الصِّدْقُ وَ الرِّفْقُ وَ قَوْلُکُمْ حُکْمٌ وَ حَتْمٌ وَ رَأْیُکُمْ عِلْمٌ وَ حِلْمٌ وَ حَزْمٌ إِنْ ذُکِرَ الْخَیْرُ کُنْتُمْ أَوَّلَهُ وَ أَصْلَهُ وَ فَرْعَهُ وَ مَعْدِنَهُ وَ مَأْوَاهُ وَ مُنْتَهَاهُ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

جب یاد کرنے والوں کی زبان پر آپ کا تذکرہ ہو ، تمام ناموں میں آپ کے نام پر فدا ، تمام جسموں میں آپ کے اجسام پر فدا ، تمام روحوں میں آپ کی ارواح پر اور تمام نفسوں میں آپ کے نفوس پر فدا ، تمام آثار پر اور تمام قبروں میں آپ کی قبروں پر فدا ۔ ارے کتنی مٹھاس ہے آپ کے نام میں ، کتنے محترم ہیں آپ کے نفوس ، کتنی عظیم ہے آپ کی شان ، کتنی بلند ہے آپ کی منزل ، کتبا با وفا ہے آپ کا عہد و پیمان اور کسنا سچا ہے آپ کا وعدہ آپ کا کلام نور ، آپ فرمان ہدایت ، آپ کی تصیحت تقوی ، آپ کا کام کار خیر آپ کی روش نیکی ، آپ کی خصلت کرم ۔ آپ کی شان حق ، صدق و احسان ، آپ کی گفتار مستحکم ، آپ کی رائے علم و بردباری و عقل مندی ۔ اگر نیکیوں کا تذکرہ ہو تو آپ ہیں اس ابندا ، اس اصل ، اس کی شاخ ، اس معدن ، اس کا مرکز اور اس کی انتہا ۔

و: وَ بِکُمْ أَخْرَجَنَا اللَّهُ مِنَ الذُّلِّ وَ فَرَّجَ عَنَّا غَمَرَاتِ الْکُرُوبِ وَ أَنْقَذَنَا مِنْ شَفَا جُرُفِ الْهَلَکَاتِ وَ مِنَ النَّارِ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔""
آپ کے سبب خدا نے ہم کو ذلت و خواری سے بچایا ، سختیوں سے نجات دلائی ، قعر مذلت میں ہلاک ہونے اور آسش جہنم میں جلنے سے ہمیں محفوظ رکھا۔
ز: "بِمُوَالاتِکُمْ عَلَّمَنَا اللَّهُ مَعَالِمَ دِینِنَا وَ أَصْلَحَ مَا کَانَ فَسَدَ مِنْ دُنْیَانَا وَ بِمُوَالاتِکُمْ تَمَّتِ الْکَلِمَةُ وَ عَظُمَتِ النِّعْمَةُ وَ ائْتَلَفَتِ الْفُرْقَةُ وَ بِمُوَالاتِکُمْ تُقْبَلُ الطَّاعَةُ الْمُفْتَرَضَةُوَ لَکُمُ الْمَوَدَّةُ الْوَاجِبَةُ وَ الدَّرَجَاتُ الرَّفِیعَةُ وَ الْمَقَامُ الْمَحْمُودُ وَ الْمَکَانُ [وَ الْمَقَامُ‏] الْمَعْلُومُ عِنْدَ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ وَ الْجَاهُ الْعَظِیمُ وَ الشَّأْنُ الْکَبِیرُ وَ الشَّفَاعَةُ الْمَقْبُولَةُ "

خداوند عالم نے آپ کی ولایت اور دوستی کی بنا پر ، ہمیں دین تعلیم دیا ، ہمارے دنیا کے فاسد شدہ امور کی اصلاح کی ۔ اور آپ کی ولایت و محبت کے سبب کلمہ ایمان مکمل ہوا اور نعمت عظیم ہوئی ۔ جدائی محبت و الفت تبدیل ہوئی ۔ آپ کی ولایت اور محبت کی بنا پر واجب عبادتیں قبول ہوتی ہیں ۔ اوج منزلت ، خداوند عالم کے نزدیک آپ کی منزلت معین ، آپ کی عزت بے پناہ ، آپ کی شان عظیم اور آپ کی شفاعت مورد قبول ہے ۔

5: زیارت جامعہ اور مسئلہ تولی و تبری

وَ هَلَکَ مَنْ عَادَاکُمْ وَ خَابَ مَنْ جَحَدَکُمْ وَ ضَلَّ مَنْ فَارَقَکُمْ وَ فَازَ مَنْ تَمَسَّکَ بِکُمْ وَ أَمِنَ مَنْ لَجَأَ إِلَیْکُمْ وَ سَلِمَ مَنْ صَدَّقَکُمْ وَ هُدِیَ مَنِ اعْتَصَمَ بِکُمْ مَنِ اتَّبَعَکُمْ فَالْجَنَّةُ مَأْوَاهُ وَ مَنْ خَالَفَکُمْ فَالنَّارُ مَثْوَاهُ وَ مَنْ جَحَدَکُمْ کَافِرٌ وَ مَنْ حَارَبَکُمْ مُشْرِکٌ وَ مَنْ رَدَّ عَلَیْکُمْ فِی أَسْفَلِ دَرْکٍ مِنَ الْجَحِیم

اور وہ ہلاک ہو گیا جس نے آپ سے دشمنی برتی ۔ جس نے آپ کا انکار کیا وہ نا امید ہو گیا ۔ جو آپ سے جدا ہوا وہ گمراہ ہو گیا ، جس نے آپ سے تمسک اختیار کیا وہ کامیاب ہو گیا ۔ جس نے آپ کے دامن میں پناہ لی وہ محفوظ ہو گیا ، جس نے آپ کی تصدیق کی وہ سلامت رہا ۔ اس نے ہدایت پائی جس نے آپ کا دامن پکڑا جس نے آپ کی پیروی کی جنت اس گھر ہوئی ، جس نے آپ کی مخالفت کی وہ جہنم میں گیا ۔ جو آپ کا انکار کرے وہ کافر اور جو آپ سے جنگ کرے وہ مشرک ہے ، جو آپ کی باتوں کو ٹھکرائے اس کا ٹھکانہ جہنم کے پست ترین طبقے میں ہے ۔

د: أُشْهِدُ اللَّهَ وَ أُشْهِدُکُمْ أَنِّی مُؤْمِنٌ بِکُمْ وَ بِمَا آمَنْتُمْ بِهِ کَافِرٌ بِعَدُوِّکُمْ وَ بِمَا کَفَرْتُمْ بِهِ مُسْتَبْصِرٌ بِشَأْنِکُمْ وَ بِضَلالَةِ مَنْ خَالَفَکُمْ مُوَالٍ لَکُمْ وَ لِأَوْلِیَائِکُمْ مُبْغِضٌ لِأَعْدَائِکُمْ وَ مُعَادٍ لَهُمْ سِلْمٌ لِمَنْ سَالَمَکُمْ وَ حَرْبٌ لِمَنْ حَارَبَکُمْ مُحَقِّقٌ لِمَا حَقَّقْتُمْ مُبْطِلٌ لِمَا أَبْطَلْتُمْ

خدا کو گواہ قرار دیتا ہوں کہ آپ پر ایمان لایا ہوں اور ان تمام چیزوں پر جن پر آپ ایمان لائے ہیں ، آپ کے دشمنوں سے بیزار ہوں اور ان تمام چیزوں کا انکار کرتا ہوں جن کا انکار کرتے ہیں ۔ آپ کی عظمت کا معترف ہوں اور آپ کے دشمنوں کی گمراہی کا قائل ہوں ، آپ کو دوست رکھتا ہوں اور آپ کے دوستوں کو بھی ۔ آپ کے دشمنوں کا دشمن ہوں اور ان سے متنفر ہوں ، جس سے آپ کی صلح ہے اسی سے میری بھی صلح ہے ۔ جو آپ سے جنگ کرے اس سے جنگ کرنے پر آمادہ ہوں ۔ جس چیز کی آپ تصدیق کریں اس کی میں بھی تصدیق کرتا ہوں جسے آپ باطل قرار دیں اسے باطل جانتا ہوں

6:اطاعت امام

امام اپنی تمام عظمت کے ساتھ امت اسلامی کیلئے چراغ ہدایت اور نمونہ عمل ہیں اس لئے ہر کسی کو چاہئے اپنی توانائی اور طاقت کےمطابق اپنے آپ میں امام کی صفات پید ا کرے اور اپنے آپ کو "امام صفت " بنائے ۔عقیدہ امامت کا یہ پہلوبہت ہی اہم ہےاور زیارتناموں میں یہ عنصر بہت واضح طور پر دکھائی دیتا ہے کہ زائر زیارت کی برکت سے یہ ارادہ اور کوشش کرتا ہے کہ خود کو اپنے امام کا مطیع اور ان کا ہمرنگ اور ہمسو بنائے مختلف زیارتناموں میں یہ تعمیری پہلو موجود ہے جیسا کہ ہم زیارت عاشورا میں پڑھتے ہیں "اللھم اجعل محیای محیا محمد و آل محمد و مماتی ممات محمد و آل محمد " ۔

ترجمہ:
دیکھا آپ نے یہ کلام کتنا واضح اور زندگی ساز ہے اگر ہماری زیارتوں میں یہ پہلو زندہ ہوجائے ہمارے سماج میں ایک عظیم انقلاب آجائے گا یقینا یہی زیارتیں ہیں جو انسان کے نفس اور اسکی روح کو پاک و پاکیزہ بناتے ہیں اور انسان کو زیارت کے بے شمار ثوابوں کا حقدار بناتے ہیں زیارت جامعہ میں زائر امام کی سیرت کو بیان کرتے ہوئے ان کو اپنا اسوہ اور آئیڈیل بناتا ہے اور ان الفاظ میں عہد باندھتا ہے:

مُطِیعٌ لَکُمْ عَارِفٌ بِحَقِّکُمْ مُقِرٌّ بِفَضْلِکُمْ مُحْتَمِلٌ لِعِلْمِکُمْ مُحْتَجِبٌ بِذِمَّتِکُمْ مُعْتَرِفٌ بِکُمْ مُؤْمِنٌ بِإِیَابِکُمْ مُصَدِّقٌ بِرَجْعَتِکُمْ مُنْتَظِرٌ لِأَمْرِکُمْ مُرْتَقِبٌ لِدَوْلَتِکُمْ آخِذٌ بِقَوْلِکُمْ عَامِلٌ بِأَمْرِکُمْ مُسْتَجِیرٌ بِکُمْ زَائِرٌ لَکُمْ لائِذٌ عَائِذٌ بِقُبُورِکُمْ مُسْتَشْفِعٌ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ بِکُمْ وَ مُتَقَرِّبٌ بِکُمْ إِلَیْهِ وَ مُقَدِّمُکُمْ أَمَامَ طَلِبَتِی وَ حَوَائِجِی وَ إِرَادَتِی فِی کُلِّ أَحْوَالِی وَ أُمُورِی مُؤْمِنٌ بِسِرِّکُمْ وَ عَلانِیَتِکُمْ وَ شَاهِدِکُمْ وَ غَائِبِکُمْ وَ أَوَّلِکُمْ وَ آخِرِکُمْ وَ مُفَوِّضٌ فِی ذَلِکَ کُلِّهِ إِلَیْکُمْ وَ مُسَلِّمٌ فِیهِ مَعَکُمْ وَ قَلْبِی لَکُمْ مُسَلِّمٌ وَ رَأْیِی لَکُمْ تَبَعٌ وَ نُصْرَتِی لَکُمْ مُعَدَّةٌ حَتَّى یُحْیِیَ اللَّهُ تَعَالَى دِینَهُ بِکُمْ وَ یَرُدَّکُمْ فِی أَیَّامِهِ وَ یُظْهِرَکُمْ لِعَدْلِهِ وَ یُمَکِّنَکُمْ فِی أَرْضِهِ

آپ کا فرمانبردار ہوں اور آپ کے حق کا معترف ہوں ، آپ کی فضیلتوں کا اقرار کرتا ہوں ۔ آپ کے علوم کا خوشہ چیں ہوں ، آپ کی پناہ گاہ میں پناہ لئے ہوں ، آپ کا معترف ہوں ، آپ کی باز گشت کا قائل ہوں اور آپ کی رجعت کا معتقد ہوں ، آپ کے فرمان کا منتظر ہوں ، آپ کی حکومت کی تمنا لیے ہوئے ہوں ، آپ کی باتوں کو غور سے سنتا ہوں اور آپ کے احکام کی اطاعت کرتا ہوں ، آپ ہی سے پناہ کا طالب ہوں ، آپ کی زیارت کرنے والا ہوں ، آپ کے مزاروں سے متمسک ہوں ۔ خداوند عزوجل کی بارگاہ میں آپ کو شفیع قرار دیتا ہوں ، اور آپ کے ذریعے اس کا تقرب حاصل کرتا ہوں۔ اپنی ضرورتوں ، آرزوؤں ، مرادوں اور تمام امور میں آپ کو مقدم کرتا ہوں ۔ ظاہر و باطن ، حضور و غیاب اول و آخر سب حالتوں میں آپ پر ایمان رکھتا ہوں ۔ تمام امور آپ کو وا گذار کر دیتا ہوں ۔ آپ کے سامتے تسلیم ہوں اور آپ کی نصرت کے لیے آمادہ ہوں ، یہاں تک کہ خدا اپنے دین کو آپ کے ذریعہ حیات نو عطا کرے ، اور اپنی حومت کے دوران آپ کو اس دنیا میں واپس لائے ۔ اپنے عدل کے لیے آپ کو ظاہر کرے اور اپنی زمین پر آپ کو قدرت و طاقت عطا فرمائے ۔

اعتقادات کی مضبوطی امام کی شناخت ، اطاعت امام کی جانب توجہ تولی اورتبری کے علاوہ زیارت کےاور بھی کچھ فوائد و آثار ہیں جیسے  ۔

7:توبہ اور استغفار

جب زائر کسی امام کی زیارت کیلئے جاتا ہے تو آداب زیارت میں ایک ادب یہ ہے کہ وہ اپنے گزشتہ گناہوں سے توبہ کرے زیارت ناموں میں بھی اس کا ذکرموجودہے اور زیارت کا ماحول اور اسکی روحانی فضا انسان کو توبہ اور اللہ کی جانب لوٹنے کیلئےابھارتی ہے اگر یہ پشیمانی اور یہ توبہ و استغفار سچے دل سے ہو تو یقینا زائر گناہوں سے پاک ہوگا اور معنوی مدارج کو طے کرنا اس کیلئے آسان ہوجائے گا ۔

8: گریہ

گریہ اور اشک شوق کے اسباب اور اسکے فوائد کا بیان اس قلم کی طاقت سے باہر ہے لیکن اتنا جان لیجئے کہ ائمہ معصومین نے دفاع اسلام میں جن مصائب و مشکلات کا سامنا کیا یہ زیارت ان کی یاد کو تازہ کرتی ہے اور جب عشق اہل بیت سے سرشار زائر اہلبیت پر ٹوٹنے والے مصایب کا تصور کرتا ہے کہ تو بے ساختہ اس کی آنکھ سے آنسو ٹپکنے لگتے ہیں اور یہ آنسو اس کو اہل بیت سے اور زیادہ نزدیک تر اور اسکی محبت، ولایت اور ایمان کو استوارتر کرتے ہیں یہ گریہ و زاری اور یہ اشک عزا اس کو امام کی راہ و روش پر گامزن کردیتے ہیں استاد شہید مطہری کے بقول:"شہید پر بہائے گئے آنسو گریہ کرنے والے کو اس انقلاب اور اس تحریک کا شریک بنادیتے ہیں "ہمارے ائمہ سے بڑھ کر بھلا کون شہید ہوگا جو دشمنی اور کینہ کی تلوار سے یا شربت شہادت سے شہید کردئے گئے ائمہ کے غم میں بہنے والے آنسو کبھی محبت اور الفت کا نتیجہ ہوتے ہیں تو کبھی دلسوزی کا نتیجہ ہوتے ہیں اور کبھی یہ اشک محبوب سے شوق وصال میں بہتے ہیں اور کبھی ہماری گریہ و زاری اپنے گناہوںسے پشیمانی کے سبب ہوتی ہے یہی وہ مرحلہ ہے جہاں گنہگار انسان اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہے اور یہ قسم کھاتا ہے اب کبھی گناہ کی طرف قدم نہیں بڑھائے گا ۔بہرحال یہ گریہ انسان کو انسان بناتا ہے خاص طور سے امام حسین کے غم میں بہائے جانے والے آنسو کی جزا جنت ہے اور زیارتناموں کی کم و پیش اس نکتہ کی جانب بھی اشارہ کیا گیا ہے ۔

زیارت کا اثر جہاں عقائد و افکار اثر پڑتا ہے لازمی طور پر اسکا اثر انسان کی زندگی کی انفرادی اور اجتماعی زندگی پر بھی پڑتا ہے۔

9: ذکر الہی اور اور طلب حاجات

اللہ کا ذکر اور اسکی یاد انسان کو گناہوں سے بچاتی ہے اور اسکی ہدایت و تربیت کرتی ہے اسی لئے قرآن میں مومنین کو دعوت دی گئی ۔[29]
اور ایک مقام ارشاد ہوا :

امام علی دنیا کی محبت کو تمام برائیوں کی جڑ اور اللہ کی یاد کو تمام نیکیوں کی اصل مانتے ہیں پس انسان کی توجہ جتنی خدا کی جانب ہوگی اتنا ہی وہ نیکیوں سے نزدیک اور برائیوں سے دور ہوگا اور جواللہ کو حاضر و ناظر جانے گا وہ گناہوں کی جانب قدم بڑھانے اور واجبات میں کوتاہی سے شرم محسوس کرے گا ہاں اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ کی یاد مومن کے دل میں تقوی ، توکل، زہد و وری اور شکرگزاری کا جذبہ جگاتی ہے دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ ائمہ کی یاد بھی خدا ہی کی یاد ہے وہ اس طرح کہ ائمہ معصومین کی یاد اور ان کی سیرت کا تذکرہ اللہ کی یاد میں اضافہ باعث بنتی ہے اور ائمہ معصومین کی زیارت انسان کو غفلت سےنکال کر خدا سے نزدیک کرتی ہے خاص طور سے اس وقت کہ جب ہمارا عقیدہ یہ ہو کہ ہمارے ائمہ ہمارے افکار و اعمال سے واقف اور ہر پل ہماری حالات پر ناظر ہیں اور جب ہم ان کی زیارت کیلئے جاتے ہیں تو ان کی توجہ ہماری جانب ہوتی ہے وہ ہمارے سلام کا جواب دیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ زائر زیارت جامعہ میں پہلے اہلبیت کے وسیلہ سے اللہ سے راہ حق پر ثبات قدم کی دعا ماگتا ہے اور پروردگار سے مزید ہدایت طلب کرتا ہے:

فَثَبَّتَنِیَ اللَّهُ أَبَدا مَا حَیِیتُ عَلَى مُوَالاتِکُمْ وَ مَحَبَّتِکُمْ وَ دِینِکُمْ وَ وَفَّقَنِی لِطَاعَتِکُمْ وَ رَزَقَنِی شَفَاعَتَکُمْ وَ جَعَلَنِی مِنْ خِیَارِ مَوَالِیکُمْ التَّابِعِینَ لِمَا دَعَوْتُمْ إِلَیْهِ وَ جَعَلَنِی مِمَّنْ یَقْتَصُّ آثَارَکُمْ وَ یَسْلُکُ سَبِیلَکُم ۔
 

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬