‫‫کیٹیگری‬ :
04 January 2015 - 18:56
News ID: 7645
فونت
آیت الله جوادی آملی :
رسا نیوز ایجنسی ـ حضرت آیت الله جوادی آملی نے بیان کیا : اگر کوئی شخص ہدایت تک پہوچنا چاہتا ہے تو اس کو جاننا چاہیئے کہ امامت رسالت کا اختمام ہے اور اگر امام کو نہیں پہچان پائے تو رسول کو بھی نہیں پہچان پائے نگے ، اگر رسول کو نہیں پہچانے تو خداوند عالم کو بھی نہیں پہچان پائے نگے ۔
آيت الله جوادي آملي

رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر کی رپورٹ کے مطابق حضرت آیت الله عبدالله جوادی آملی نے اسراء عالمی وحیانی سینٹر میں منعقدہ اپنے ہفتگی درس اخلاق میں سلسلہ امامت کو بیان کرتے ہوئے کہا : اگر لوگ پیغمبر اور امام پر عقیدہ نہ رکھتے ہوں تو جاہلیت کی زندگی بسر کر رہے ہیں ، بعض پیغمبر اور امام کے ہونے کے باوجود اسی جاہلیت میں زندگی بسر کرتے ہیں ۔
حوزہ علمیہ قم کے مشہور و معروف استاد نے پیغمبر اکرام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ایک حدیث نقل کرتے ہوئے بیان کیا : تمام شیعہ اور اہل سنت عالم دین پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اس حدیث «من مات و لم یعرف امام زمانه، مات میتة جاهلیه» کو نقل کرتے ہیں اور اس معنی میں کہ جو شخص بھی اپنے زمانہ کے امام کو پہچانتا ہو تو اس کی زندگی عقل و انصاف کے مطابق رہی ہے اور اس کے مقابلہ میں جو شخص اپنے زمانہ کے امام کو نہیں پہچانے تو اس کی زندگی برباد رہی ہے اور اس کی موت جہالت پر ہوئی ہے ۔  
انہوں نے امام و امامت تک پہوچنے میں شیعہ اور اہل سنت کے نظریہ کے درمیان فرق جانا ہے اور سورہ مبارکہ بقرہ کی آیہ نمبر 124 کی طرف استناد کرتے ہوئے بیان کیا : شیعوں کا عقیدہ اس پر ہے کہ جس طرح قرآن نازل ہوتا ہے اسی طرح امامت بھی خداوند عالم کی طرف سے امام کو عطا کی جاتی ہے اور امامت عہد اللہ ہے ؛ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب خداوند عالم سے امامت کی درخواست کی تو خداوند عالم نے ان حضرت کے ذریت میں امام ہونے کا وعدہ دیا اور اس بات کا معین ہونا کہ کون امام ہوگا یہ خداوند عالم کی طرف سے ہے ؛ اس کے باوجود اہل سنت امام کو خدا کا وکیل جانتے ہیں اور ان کا عقیدہ ہے کہ امام اہل اللہ ہیں ۔
حضرت آیت الله جوادی آملی نے اپنی گفت و گو کے دوسرے حصہ میں امام کا کردار پیغمبران سے بھی اہم جانا اور وضاحت کی : پیغمران صرف رسالت کا کردار انجام دیتے ہیں اور خدا کے پیغام پر عمل کرتے ہیں اور اس کو لوگوں تک پہوچاتے ہیں ؛ حالانکہ امام رسول سے رسالت کا کردار اور معاشرے کی امامت کی ذمہ داری کو بھی سمبھالتا ہے ۔  
قران کریم کے یہ مشہور مفسر نے نماز کو ایک مدرسہ کے عنوان سے تعارف کرایا ہے اور بیان کیا : عبادت کے درمیان اچھی طرح سے بغیر کسی بے ادبی کے ساتھ دشمن سے تبری کی جا سکتی ہے ؛ جب ذکر «بحول الله و قوته اقوم و اقعد» کہتے ہیں اس وقت اشاعرہ اور معتزلہ کے مکتب پر تنقید کی ہے ؛ معروف دعا «اللهم عرفنی نفسک» کی بھی امام جعفر صادق علیہ السلام نے سفارش کی ہے کہ غیبت کے زمانہ میں پڑھی جائے جس کی یہی خاصیت ہے ۔
تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬