یوم قدس منانے کی ضرورت
عالمی یوم قدس نزدیک آکر دنیا کے غیور مسلمانوں کو مظلوم فلسطینی قوم کے دفاع و حمایت کی سنگین ذمہ داری کی، پہلے سے زیادہ تاکید کے ساتھ، یاد دہانی کراتا ہے۔ امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے اس دن کا اعلان کرکے انسانی ضمیروں کی سطح پر مسئلہ فلسطین کو زندہ رکھا اور صیہونی حکومت کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو (ایک نقطے) پر مرکوز کر دیا، نتیجے میں ہم ہر سال مسلمانوں میں اس دن (یوم قدس) کی وسیع پذیرائی کا مشاہدہ کرتے ہیں۔
جو لوگ مقبوضہ سرزمینوں پر مظلومانہ انداز میں جہاد کر رہے ہیں، سختیاں برداشت کر رہے ہیں اور فلسطین کی آزادی اور غاصب حکومت کی نابودی کی ساری امیدیں جن کی اسی داخلی سطح کی جد و جہد سے وابستہ ہیں، یہ یاد رکھیں کہ پورے عالم اسلام میں قومیں ان کی فکر میں ہیں اور ان کی حمایت کر رہی ہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ان مظلوم مجاہدین کے اندر جو اپنے ہی وطن میں بیگانے ہو گئے ہیں، یہ احساس پیدا ہو تو عالم اسلام کی سطح پر یہ مظاہرے انجام دئے جانے چاہئے۔ ہمارے عظیم القدر قائد ہمارے امام (خمینی رہ) کی جانب سے یوم قدس کے تعلق سے نئی شروعات اسی نکتے کے پیش نظر تھی ورنہ یہ تو ظاہر سی بات ہے کہ جو لوگ تہران کی سڑکوں پر مظاہرہ کر رہے ہیں وہ یہاں سے اسرائیل کے خلاف مسلحانہ کاروائی تو نہیں کر سکتے ہیں۔
یوم قدس کا عقیدت مندانہ انعقاد
عالم اسلام کو چاہئے کہ یوم قدس منائے۔ مسلم عوام، ضمیر فروش حکومتوں کو اس کی ہرگز اجازت نہ دیں کہ وہ ظاہری پرامن فضا میں جو انہوں نے قائم کر لی ہے، فلسطین کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیں، رفتہ رفتہ اسے نگل لیں اور سب کچھ بھلا دیا جائے۔ جن حکومتوں نے غاصب حکومت سے سازباز کی اور فلسطینیوں کو قربان کر دیا انہیں کبھی فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے۔ یوم قدس کو عقیدت و احترام سے منائیے اور اس کو خاص اہمیت دیجئے۔ اگر عالمی میڈیا اسے منعکس نہیں کرتا تو نہ کرے۔ جو لوگ صیہونی جیلوں میں بند ہیں انہوں نے ہم سے کہا ہے کہ آپ کے نعروں، میدان میں آپ کی آمد اور آپ کی بھنچی ہوئی مٹھیوں سے جو آپ کے عزم و ارادے کی صداقت کی غماز ہے، ہمیں تقویت ملتی ہے، مضبوطی کا احساس ہوتا ہے۔ جو لوگ صیہونی جیلوں کی دیواروں کے اندر ہیں انہیں احساس تنہائی نہ ہونے دیا جائے تاکہ وہ استقامت جاری رکھیں۔ وہ عورتیں اور مرد جو بیت المقدس، غزہ پٹی اور مقبوضہ فلسطین کے دیگر شہروں کی گلیوں اور کوچوں میں صیہونی اوباشوں کے حملوں کا نشانہ بن رہے ہیں، یہ محسوس کریں کہ آپ ان کی پشتپناہی کے لئے موجود ہیں تاکہ وہ مزاحمت و استقامت کو جاری رکھیں۔ البتہ حکومتوں کے بھی فرائض ہیں۔
یوم قدس کی تاثیر
اگر عالم اسلام اس دن کو کما حقہ منائے اور صیہونیوں کے خلاف فلک شگاف نعرے بلند کرنے کے لئے اس دن کا بخوبی استعمال کرے تو کافی حد تک دشمن کو شکست دی جا سکتی ہے، اسے پسپائی پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ ملت ایران پیش قدمی کرکے یہ دکھائے گی کہ یوم قدس اور مسئلہ فلسطین کے سلسلے میں موقف کے اعلان کے موقع سے بھرپور استفادہ کیا ہوتا ہے۔
فلسطینی مظلوموں کو احساس ہو چلا ہے کہ دنیا میں ایسے لوگ موجود ہیں جو مسئلہ فلسطین کے سلسلے میں بہت حساس ہیں۔ یہ حساسیت ظاہر ہونا چاہئے۔ اسرائیل پر دباؤ بڑھنا چاہئے۔ فلسطینیوں کو بھی چاہئے کہ جہاد کرنے کے ساتھ ساتھ مسئلہ فلسطین کو زندہ کرنے کی ذمہ داری بھی اٹھائیں۔ جہاد حالانکہ بہت سخت کام ہے لیکن صیہونیوں کے دباؤ میں زندگی بسر کرنا اس سے بھی زیادہ دشوار اور سخت ہے۔ اگر وہ جہاد کرتے ہیں تو ان کا مستقبل سنور سکتا ہے۔ اگر انہی حالات میں زندگی بسر کرتے رہے تو سختیاں روز بروز بڑھتی جائیں گی۔ البتہ آج مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں فلسیطینی عوام میں بیداری پیدا ہو گئی ہے لیکن فلسطین میں داخلی سطح پر جد و جہد عمومی اور ہمہ گیر ہو جانی چاہئے۔ اسے امت مسلمہ کی گہرائیوں سے متصل ہو جانا چاہئے اور پھر پوری دنیا مین مسلمان قوموں کو ان کی مدد کے لئے آگے آنا چاہئے۔
یوم قدس کی مخالفت
اسرائیل کے رسمی اور با ضابطہ حامیوں اور اسی طرح اس کے اتحادیوں کی طرف سے جو اسرائیل کے غیر رسمی حامی ہیں، یوم قدس کی مخالفت، قابل دید حرکت ہے۔ یوم قدس کے مخالفین تیار کئے گئے ہیں اور اس دن کو ذہنوں سے مٹا دینے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ہم نے عالم اسلام میں کہیں بھی نہیں دیکھا کہ عالمی طاقتیں اس بات کا موقع دیں کہ مقامی حکومتیں عوام کو اس مظاہرے اور جلوس کی ترغیب دلائیں۔ افسوس کی بات ہے کہ دنیا کی بڑی طاقتوں کی پالیسیاں بہت سے مسلم ممالک میں اثرانداز واقع ہوئی ہیں۔ یہ مسلمانوں اور عالم اسلام کی بد بختی ہے۔ اسلامی ممالک کی حکومتیں یوم قدس پر عوام کو سڑکوں پر نکل کر مظاہرے کرنے کی ترغیب کیوں نہیں دلاتیں؟ کیا ان کا کچھ بگڑ جائے گا؟ اگر وہ فلسطین کی امنگوں کی حامی ہیں تو اس کی اجازت کیوں نہیں دیتیں؟
یوم قدس پر امت مسلمہ کا فریضہ
تمام رائج اسلامی مکاتب فکر میں اس سلسلے میں کوئی اخلاف نظر نہیں ہے اور سارے فقہا اس بات پر متفق ہیں کہ اگر اسلامی سرزمین کا کوئی حصہ دشمن نے جدا کر دیا ہے اور اس ٹکڑے پر دشمنان اسلام کی حکومت قائم ہو گئی ہے تو زمین کے اس ٹکڑے کو سرزمین اسلامی سے دوبارہ ملحق کرنے کے لئے جہاد اور سعی و کوشش کو ہر ایک کو اپنا فریضہ تصور کرنا چاہئے۔ لہذا مسلم قوموں کو چاہئے کہ وہ دنیا میں جہاں کہیں بھی آباد ہیں اسے اپنا فریضہ تصور کریں۔ البتہ بہت سے لوگ کوئی اقدام کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں لیکن جو لوگ اقدام کر سکتے ہیں وہ جس طرح بھی ممکن ہو اقدام کریں۔ یہی وجہ ہے کہ عالم اسلام ہر سال رمضان المبارک کے آخری جمعے کا خیر مقدم کرتا ہے جسے امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے یوم قدس قرار دیا ہے۔
یوم قدس ایران سے مخصوص نہیں ہے۔ یہ عالم اسلام کا دن ہے۔ اسی لئے تمام عالم اسلام میں مسلمانوں نے اپنے فلسطینی بھائیوں کے دفاع کے لئے میدان عمل میں اپنی موجودگی کا اعلان کیا ہے۔ مسلمانوں نے اس دن مظلوم اور خون میں ڈوبے ہوئے فلسطین میں اسرائیل اور امریکا کی سازشوں اور حربوں کے مقابلے کے لئے عمومی عزم و ارادے کا اظہار کیا ہے۔
عالم اسلام فلسطین سے غافل نہ ہو
فلسطین کا پرانا زخم صیہونیوں اور سامراج کے مہروں نے لگایا ہے اور اسلامی معاشرے اور عالم اسلام کے پیکر میں یہ زخم سامراجی عناصر کے ہاتھوں مسلسل گہرا ہوتا گیا ہے۔ عالم اسلام کو چاہئے کہ مسئلہ فلسطین کے سلسلے میں کوئی غفلت نہ برتے، فلسطین کو ہرگز فراموش نہ کرے۔ امریکا، عالمی سامراج اور اس کی دائمی پشتپناہی کرنے والی صیہونی، مسلمانوں پر یہ غفلت اور فراموشی مسلط کر دینا چاہتے ہیں۔