17 November 2013 - 12:21
News ID: 6126
فونت
قائد ملت جعفریہ پاکستان:
رسا نیوز ایجنسی ـ قائد ملت جعفریہ نے کہا : روز عاشور راولپنڈی کے مر کزی ماتمی جلوس کے دوران ہونے والے ناخوشگوار سانحے کے حقائق جاننے کے لئے فوری طور پر عدالتی کمیشن قائم کر کے عدالتی تحقیقات کرائی جائے۔
علامہ سيد ساجد علي نقوي


رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہا : روز عاشور راولپنڈی کے مر کزی ماتمی جلوس کے دوران ہونے والے ناخوشگوار سانحے کے حقائق جاننے کے لئے فوری طور پر عدالتی کمیشن قائم کر کے جوڈیشل انکوئری (عدالتی تحقیقات) کرائی جائے۔

انہوں نے تاکید کی ہے : تمام پہلوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اعلیٰ پیمانے پر تحقیقات کرا کے سانحہ کے ظاہری اور پس پردہ عوامل اور ذمہ دارن کا تعین کرکے عوام کو حقائق سے آگاہ کیا جائے ، ہمارے نزدیک تمام مذاہب ، مسالک اور مکاتب کے مقدسات ، مساجد ، مدارس ، امام بارگاہیں ، جلوس ہائے عزادار امام حسین علیہ السلام ، عوام کی جان و مال و املاک محتر م ہیں ان کا احترام اور حفاظت ہر شہری کی ذمہ داری ہے ۔

علامہ سید ساجد علی نقوی نے مزید کہا : ہم اشتعال انگیزی ، اور سادہ عوام کے جذبات سے کھیلنے جلائو ، گھیراواور فائرنگ کی شدید مذمت اور نفی کرتے ہیں ۔عوام سے بھر پور مطالبہ کرتے ہیں کی باہمی اتحاد واتفاق ، رواداری ، صبر، حو صلہ ، تحمل و برداشت اور بھائی چارے کے ذریعہ شرپسند عناصر کے مذموم مقاصد کو کامیاب نہ ہونے دیں ۔

انہوں نے کہا : ہم یہاں پر یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ روز عاشور کا مرکزی ماتمی جلوس سال ہا سال سے جاری ہے اور اسی مقررہ راستہ پر گامزن رہتا ہے ، اس میں تمام مکاتب فکر کے علماء ، تجار ، عمائدین  اور عوام شریک ہوتے ہیں ۔ اور اس جلوس کی یہ خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس بازار کے تاجر برادری نواسہ رسول (ص) سے محبت اور باہمی رواداری کے اعلیٰ اصولوں پر عمل پیرا ہو کر انتظامات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے اور عزادارن سید الشہداء بھی سال ہا سال اسی بازار سے نواسہ رسول (ص) کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے پُر امن انداز میں گذر جاتے ہیں ۔

قائد ملت جعفریہ پاکستان نے بیان کیا :: اس طویل ترین عرصہ کے دوران کئی بار عاشورجمعہ المبارک کے روز آیا اور پُر امن گذر گیا ۔ روز عاشور کے حساس ماحول میں نہ اختلافی خطبہ دیا گیا ۔ نہ پتھراو ، نہ فائرنگ ہوئی نہ ہی جلاو گھیراو اور قتل و غارت گری کا کوئی واقعہ رونما ہوا۔ لیکن اس سال انتہائی سنگین سانحہ پیش آیا جسمیں کئی انسانی جانوں کا ضیاع کے ساتھ ساتھ کاروبار اور املاک کا بڑا نقصان ہوا محسوس ایسا ہوتا ہے کہ یہ سانحہ پہلے سے طے شدہ  منصوبہ بندی اورمخصوص مقاصد کے حصول کے لئے کرایا گیا ہے ۔جو اپنے پیچھے بہت سے سوال چھوڑ گیا ہے۔

سید ساجد نقوی نے وضاحت کی : مثال کے طور پر کس کے ایماء پر اشتعال انگیزی ہوئی ؟ پتھراو اور فائرنگ کس نے کی ؟ اوپر سے پٹرول کس نے گرایا؟ آناً فاناً مارکیٹ میں آگ کیسے لگی؟ آگ لگانے کے وسائل کہاں سے آئے ؟ مسجد اور مدرسہ روٹ سے تھوڑا ہٹ کر ہونے کے باوجود کیسے جلے ؟ انسانی جانوں کا ضیاع کیسے ہوا؟ واقعہ کے بعد مسلح دستوں کو کیوں کنٹرول نہ کیا گیا ؟ ان تمام حالات میں انتظامیہ ، پولیس اور دیگرسیکورٹی اداروں کا کردار کیا رہا ؟ اس کے علاوہ بہت سے سوالات ہیں جن کے صیح جوابات عوام جاننا چاہتے ہیں ۔ لگتا ایسا ہی ہے کہ یہ سانحہ عاشور کراچی کی طرح ایک پہلے سے طے شدہ سانحہ تھا ۔

انہوں نے اس سانحہ کی تحقیقات پر زور دیتے ہوئے کہا : اعلیٰ عدالتی تحقیقات کے ذریعہ حقائق منظر عام پر لائیں جائیں اور قانون کو حرکت میں لاکر امن کے قیام کو یقینی بنایا جائے اسی طرح چشتیاں ، بہاولنگر ، ملتان ،شہداد کوٹ اور یگر مقامات پر ہونے والی اشتعال انگیزی ، جلائو گھیراو کے ذمہ داران کے خلاف فوری کاروائی عمل میں لاتے ہوئے شرپسندوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے تا کہ عوام کی بے چینی ختم ہوسکے۔
 

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬