رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر کی رپورٹ کے مطابق عزاداری اور کردار سازی کے باہمی ربط کو اگر سمجھنا ہے تو پہلے ہمیں انسان کی زندگی میں کردار کی اہمیت اور سیرت اہلبیت کی عظمت کو سمجھنا ہوگا ۔
کردار یا کریکٹر در حقیقت سیرت، اخلاق اور زندگی جینے کے طریقے کو کہتے ہیں اورانسان کی خلقت کا مقصد یہی کردار سازی ہے اللہ نے زندگی اور موت کو اس لئے خلق کیا تاکہ اپنے بندوں کا امتحان لے سکے کہ ان میں احسن عمل انجام دینے والا یعنی اچھا کردار پیش کرنے والا کون ہے ۔اللہ کی نظر میں حقیقی بندہ وہی ہے جس کا کردار اچھا ہو ۔
پروردگار کی جانب سے اسی کوبندگی کی سند ملتی ہے اور اسی کو رحمت اور لقا پروردگار نصیب ہوتی ہے جس نے اپنی زندگی اللہ کی مرضی کے مطابق گزاری ہو ۔ تنہاء چیز جسے انسان اس دنیا میں اپنا کہہ سکتا ہے اور جس کے بھروسے اپنے رب سے نجات و سعادت کی بھیک مانگ سکتا ہے یہی کردار ہے کردار انسان کا پورا سرمایہ ہے اگر کرادر نہیں کچھ بھی نہیں چنانچہ کرادر کی اسی اہمییت کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک مفکر نے کیا خوب کہا :
If wealth is lost nothing is lost
if health is lost some thing is lost
if character is lost every thing is lost
یعنی اگر دولت ضایع ہوگئی توسمجھو کچھ نہیں کھویا اگر صحت ضایع ہوجائے تو سمجھو کچھ کھوگیا اور اگر کردار ضایع ہوجائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ سب کچھ ضایع ہوگیا ۔
اگر ہم اپنا کرادر سنوارنا چاہتے ہیں تو ہم کو کردار ایسااختیار کرنا چاہئے جو ائمہ معصومین کے کرادر کی مطابقت کرتا ہو تب ہی ہم یہ امید کرسکتے ہیں کہ امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف ہمارے کردار کی بنیاد پردنیا میں ہمیں اپنا یاور و ناصر چنیں گے اور آخرت میں ہماری شفاعت فرمائیں گے۔
کردار سازی کیلئے اہلبیت کی پیروی ضروری ہے ۔
انسان کو منزل کمال پر پہچانے کیلئے رب العالمین نے آسمانی کتابوں اور انبیا و مرسلین کا سلسلہ قائم کیا جس کی انتہاء خاتم النبیین حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ و آلہ پر ہوئی آپ نے تعلیمات الہی کا خزانہ قرآن مجید کی صورت میں دنیا کے سامنے پیش کیا مگرکتاب علم کا سرمایہ بن سکتی ہےاور عمل کیلئے کتاب کے علاوہ تربیت اور کردار سازی کی ضرورت ہے اس لئے اللہ سبحانہ تعالی نے سرورکائنات کی سیرت کو اسوہ بنایا جس کیلئے قرآن میں یہ آیت آئی "قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ "۔
"ان سے کہہ دیجئے کہ اگر اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ بھی تمہیں دوست رکھے گا ۔
حدیث ثقلین کی رو سے پیغمبر کی وفات کے بعد اہلبیت کی عملی سیرت کو ہماری نجات کا ذریعہ قرار دیا گیا بے شک یہ وہ افراد تھے جن کو رسالت مآب نے اپنے بعد دنیا میں نمونہ عمل قرار دیا لیکن فرض کے طور پر کسی کے اتباع و اطاعت کا اپنے اوپر لازم واجب سمجھنا ایک ایسی چیز ہے جو انسانی طبیعت پر گراں گذرتی ہے لیکن یہی فرض اگر طبعی نظام کے تحت انسانی خواہش اور فطرت کے مطابق بن جائے تو پھر وہ اتباع و اطاعت بار نہیں لگتی اور انسان خوشی خوشی اسے قبول کرلیتا ہے ۔ نظام قدرت نے رسول اسلام اور اہلبیت علیہم السلام کی سیرت کی پیروی کو آسان بنانے کیلئے ایسے اسباب مہیا کئے جس سے اہلبیت کےاقوال و افعال مرکز توجہ قرار پائیں اور لوگوں کے دل ان کی جانب راغب ہوں۔
پہلا سبب جس سے ایک انسان دوسرے کی جانب جذب ہوتا ہے محبت ہے محبت کے نام پر آپ بڑا سے بڑا کام لیجئے وہ آسان لگتا ہے انسان جس سے محبت کرتا ہے اسکی ہر بات مانتا ہے اور اس کے اقوال پر عمل پیرا ہوتا ہے جب اس سے محبت کرتا ہے تو اس کے افعال سے بھی محبت کرتا ہے اور خود ان کے اختیار کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اہلبیت رسول کیلئے اس پہلو پر خاص طور زور دیا گیا اور مسلمانوں کو انکی محبت دعوت دی گئی ۔رسول اسلام نے اپنے قول و عمل سے مسلمانوں کو اہلبیت سے محبت کی دعوت دی۔ ان کی محبت کو اجر رسالت قرار دیا ۔
دوسرا سبب جو ہمیں سیرت اہلبیت کی پیروی کیلئے آ مادہ کرتا ہے وہ ہے اہلبیت کے کثرت فضائل ہیں ایک انسان جس کی عظمت اس کے مختلف ذاتی خصوصیات اور کمالات کے اعتبارسے انسان کے ذہن نشین ہو چکی ہو اس کے افعال و اعمال کو انسان نظر غائر سے دیکھتا اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اہل بیت رسول کو یہ خصوصیت بھی انتہائی معراج کمال پر حاصل ہے اور رسول نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ ان حضرات کے فضائل کے بیان میں صرف کیا یقینا فضائل کا بیان اس لئے تھا کہ یہ مربی خلق اور نمونہ عمل ہیں لہذا ان کے کمالات کو بیش از پیش واضح کرنے ضرورت ہے ۔
پیروی اور اطاعت کیلئے تیسرا سبب کسی شخص سے اغراض کا وابستہ ہونا ہے اس خصوصیت کو بھی اہلبیت کیلئے نظر انداز نہیں کیا گیا مسلمانوں کی نظر میں بلا شبہ دنیا سے زیادہ آخرت کا سوال مقدم ہے اس لئے دنیا کے نہیں آخرت کے اغراض اہلبیت سے وابستہ قرار دئے گئے ساقی کوثر ،حامل لوا ء،قاسم جنت و نار ،شافع خلق جیسے الفاظ کے ساتھ ان کے روحانی اقتدار کا سکہ قائم کیا گیا لیکن شفاعت و سقایت کوثر یہ تما م چیزیں انہی کیلئے ہے جو استحقاق رکھتے ہوں ان کیلئے نہیں جن کے اعمال دیکھ کر خود شفیع اکرم کو شرم آجائے اور وہ شفاعت سے کنارہ کشی کرلیں۔اس لئے بہرحال اتباع کی ضرورت ہے تاکہ شفعاء سے آنکھیں چار کرنے موقع رہے اور انکی شفاعت ہمارے کام آئے۔
چوتھا سبب جو کسی کی جانب جذب ہونے کا سبب بنتا ہے وہ ہے مظلومیت یقینا مظلوم کی طرف دنیا کا دل کھنچتا ہے اور اس کے افعال و اقوال کے ساتھ غیر معمولی دلچسپی پیدا ہوتی ہے اور اس سے بھی اطاعت و اتباع کے مقصد کو تقویت ملتی ہے۔
پس مذکورہ مطالب کے بیان سے پتہ چلا کہ فضائل و مصائب اہلبیت میں ایک ہی روح مضمر ہے اور وہ دعوت عمل ہے جس سے اصلاح خلق یعنی کردار سازی کا مقصد پورا ہو اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم اہلبیت کے واقعات کو اس نظر سے دیکھیں کہ ان سے کون سے سبق حاصل ہوتے ہیں اور انسان کی عملی زندگی میں اس کے کیانتائج برآمد ہوسکتے ہیں ۔
عزاداری اور کردار سازی
عزائے حضرت حسین کا مقصد یہی ہے کہ ہم عزاداری کے ان ایام میں اہلبیت اور شہدائے کربلا کے کردار کو اسوہ بناکر اپنی کرادر سازی کریں ۔اس لئے کہ محرم میں ہر وقت سے زیادہ ہمارے دل تبدیلی کیلئے امادہ ہوتے ہیں اور ہمارے لئے ایسے اسباب فراہم ہوجاتے ہیں جہاں ہم اہلبیت سے اپنی محبت کا ظہار کرتے ہیں ان کے فضائل اور عظمت کا اعتراف کرتے ہوئےاپنی سعادت و نجات کیلئے ان سے متوسل ہوتے ہیں اور ان سے شفاعت کی درخواست کرتے ہیں۔
گویا ائمہ معصومین نے عزاداری کے نام سےہمیں ایک تبلیغی اور زریں اصول دیا ہے جس سے مظلوم کربلا کی یاد ہمیشہ ہمیشہ زندہ رہ سکے اور خلق خدا کی ہدایت بھی ہمیشہ ہمیشہ ہوتی رہے اس لئے عزادری امام مظلوم ہماری رگ حیات اور ایک ایسی کارفرما روح ہے جو ہماری زندگی کے ہر شعبے پر حکمراں ہے ماہ محرم میں امام حسین کے ماننے والوں پر یہ فرض عائد ہوجاتا ہے کہ وہ عشرہ محرم میں حسینی یادگار کو اس طریقہ سے منائیں کہ حسینی تذکرہ ہماری روحوں کو گرمادے اور ہمارے دلوں میں ذوق عمل کی تڑپ پیدا کردے اور عزاداری کا اصل مقصد یہی ہے کہ جس راستے میں انہوں نے جان دی جس مقصد کی خاطر انہوں نے اپنا گھر بار لٹادیا اور جس راہ میں انہوں نے ظاہری عزت و آبرو تک کو عزیز نہ کیا اس راستہ کو ہم سمجھیں اور چلتے رہنے کی کوشش کریں ،ان کے مقصد کو جانیں اور عملا اس کے محافظ ہوں۔
عام طور پر واقعہ کربلا کو ایسے غم ناک حادثہ کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے جس پر ہمارا کام آنسو بہانا اور اظہار رنج و ملال کرنا ہو اور بس مگر یہ تو ایک فطری تقاضائے انسانیت ہے اس کو مقصد حسین یا واقعہ کربلا کا اصل مفاد سمجھنا کسی طرح درست نہیں ہے حسین کابلند نصب العین ہم سے کچھ اور چاہتا ہے وہ یہ کہ اپنی سیرت زندگی کو حسینی سیرت کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرتے رہیں امام حسین علیہ السلام یقینا نجات دہندہ امت ہیں لیکن اس معنی میں کہ آپ نے نجات کا راستہ نمایاں کردیا اور ایک ایسی جماعت کی بقا کا سامان کردیا جو اپنے عمل سے نجات کی حقدار ہو اگر واقعہ کربلا کا جہاداور اس کے بعد یہ عزاداری نہ ہوتی تو دین و شریعت کی اصلی صورت رخصت ہوجاتی بادشاہوں کی سیرت سنت الہیہ قرار دی جاتی اور انکی تقلید ہی معیار نجات سمجھی جاتی اس طرح امت ابدی ہلاکت میں مبتلا ہوتی حسین نے اپنے اسوہ حسنہ سے ہم نجات کے قابل بنادیا حسین نے ہمارےے قوائے عمل کو معطل نہین کیا بلکہ آپکا اسوہ حسنہ ہمارے لئے بہترین محرک عمل ہوسکتا ہے ۔
پیشوایان مذہب نے جو گریہ و بکا کی تاکید کی اور اس کیلئے آخرت کے بہترین ثواب بتائے اس کا فلسفہ یہی تھا کہ اگر یہ ثواب ہمارے پیش نظر ہوگا تو ہم ان کے حالات کو زیادہ سننے اور یاد کرنے کی کوشش کریں گے اس کا اثر یہ ہوگا کہ ہمارے اعمال پر اس کا اثر پڑے گا ۔
اگر اتنی اہمیت اس واقعہ کو بحیثیت مصیبت نہ دی گئی ہوتی تو دنیا کے تمام دیگر واقعات کی طرح یہ بھی تاریخ کے اوراق کے سپرد ہوجاتا اور یہ جو بچہ بچہ اس سے واقف ہے یہ کبھی نہ ہوتا اور جب ہم پورے طور پر واقف نہ ہوتے تو سبق کیا حاصل کرتے ۔اگر ہر سال کی طرح اس سال بھی حسین کی یاد اگر پوری طاقت اور نئی زندگی کے ساتھ ہمارے دل میں تازہ ہوئی ہے تو اس کا اثر ہمارے کردار پر پڑنا چاہئے اس لئے کہ واقعہ کربلا اور یہ عزاداری ایک مدرسہ تربیت ہے جہاں دنیا کو مذہب ،اخلاق اور فرائض شناسی کے اصول بتائے گئے ہیں لائق مبارک باد ہیں وہ افراد جو اس سے سبق حاصل کریں اور اپنے کوعملی حیثیت سے ویسا ہی پیش کریں جیسا کہ امام حسین دنیا کو بنانا چاہتے تھے۔