29 November 2014 - 21:53
News ID: 7531
فونت
اول قسط
رسا نیوز ایجنسی ـ زیارت یعنی عاشق کی دیار معشوق میں حاضری، چاہنے والے کا اپنے محبوب سے چاہت کا اظہار ،ایک دین دار کا اپنے پیشوا کے آگے تسلیم ہونا ،ایک مرید کا اپنے مرادسے وفاداری کا اعلان ہے ۔
زيارت جامعہ


 

تحریر: محمد عباس مسعود

رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق زیارت یعنی عاشق کی دیار معشوق میں حاضری، چاہنے والے کا اپنے محبوب سے چاہت کا اظہار ،ایک دین دار کا اپنے پیشوا کے آگے تسلیم ہونا ،ایک مرید کا اپنے زیارت امتحان کے ترازو میں اپنے آپ کو تولنے کا نام ہے اور ایسا اشتیاق بھرا سفر ہے جو دل سے شروع ہوتا ہے اور دل ہی کے راستے سے طے کیا جاتا ہے اور منزل دل پر جاکر تمام ہوتا ہے جہاں مسافر اپنا بار سفر اتاردیتا ہے ۔

تمہید

زیارت یعنی عاشق کی دیار معشوق میں حاضری، چاہنے والے کا اپنے محبوب سے چاہت کا اظہار ،ایک دین دار کا اپنے پیشوا کے آگے تسلیم ہونا ،ایک مرید کا اپنے مرادسے وفاداری کا اعلان ہے۔ زیارت امتحان کے ترازو میں اپنے آپ کو تولنے کا نام ہے اور ایسا اشتیاق بھرا سفر ہے جو دل سے شروع ہوتا ہے اور دل ہی کے راستے سے طے کیا جاتا ہے اور منزل دل پر جاکر تمام ہوتا ہے جہاں مسافر اپنا بار سفر اتاردیتا ہے ۔

زیارت انسان کا فطری تقاضہ ہے اس لئے کہ انسان کی فطرت یہ ہے کہ جہاں کہیں کمال ہو حسن ہو زیبائی ہو اس کا دل اس کمال و زیبائی کی جانب مائل ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں صاحب کمال کی تعظیم و تکریم کی جاتی ہے تاریخ ساز شخصیات، صاحبان ہنر۔ مصلح افراد،اور ادباء و شعرا اور علمائے دین کو خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے اگر وہ بقید حیات ہیں تو انہیں نشان لیاقت اور ایوارڈ سے نوازا جاتا ہے اگر دنیا سے گزرگیا تو اس کی یاد منائی جاتی ہے اس کیلئے سیمینار رکھے جاتے ہیں یا میوزیم بناکراس شخصیت کے علمی ادبی اور ہنری آثار کو زندہ کیا جاتا ہے اظہار عقیدت کے انداز بدلتے رہتے ہیں مگر حسن و کمال سے یہ عشق کبھی نہیں بدلتا اگر ہم کمال مطلق کی عبادت کرتے ہیں تو وہ بھی ہماری کمال دوستی کا نتیجہ ہے یہاں تک کہ بت پرست جو لکڑی پتھر کو پوجتے تھے انہیں وہ صاحب کمال تصور کرتے تھے اگرچہ ان کا یہ تصور ایک غلط تصور تھا ۔

صاحبان کمال کی عزت اوران کےاحترام کا ایک طریقہ یہی زیارت ہے زیارت ان کی معنوی حیات کو باقی رکھتی ہے جہاں یہ زیارت آنے والی نسل کو گذشتہ نسل سے جوڑتی ہے وہیں پر ان سے اور ان کے کمالات سے روحانی رشتہ بھی برقرار کرتی ہے ۔ بھلا انبیاء کرام ائمہ معصومین اور اولیاء سے بڑھ کر صاحب کمال کون ہوگا یہ اللہ کی برگزیدہ شخصیات ہیں آج ہزاروں سال کے بعد بھی انکی یاد مومنین کے دلوں میں زندہ ہے اللہ نے ان کی یاد مومنین کے دلوں میں زندہ رکھی اور ان کے آثار کو باقی رکھا ان کے آثار کی حفاظت اور اسکے احترام کو عین تقوی قرار دیا اور ان بزرگواروں کی زیارت کو دینی فریضہ قرار دیتے ہوئے اس کے لئےبہت زیادہ اجر و ثواب رکھا اس کے علاوہ زیارت کے بےشمار انفرادی اور اجتماعی فوائد بھی ہیں جس کا ذکر آگے آئے گا خاص طور سے اہلبیت علیہم السلام کے فضائل و مناقب کا ذکر اور ان کی مصیبت میں اظہار غم جس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ ان کا ذکر انسان کو اللہ سے قریب کرتا ہے اور اہلبیت سے وابستگی قرآنی تعلیمات اور سنت معصومین سے استفادہ کا باعث بنتی ہے اور بندگان خدا کا خلیفہ خدا سے رشتہ اٹوٹ رہتا ہے ۔

زیارت کا ریشہ زور ہے[1] جس کے معنی کسی سے عدول کرنے کے ہیں جھوٹ کو اس لئے زور کہا جاتا ہے کیونکہ وہ حق سے منحرف ہے احمد بن فارس کہتے ہیں زائر کو اس لئے زائر کہتے ہیں کہ جب وہ تمہاری زیارت کیلئے آتا ہے تو دوسروں سے منہ پھیر لیتا ہے [2] اسی لئے بعض لغویوں نے زیارت کے معنی قصداور توجہ کے کئے ہیں[3] فیومی کہتے ہیں کہ زیارت کا عام مفہوم یہ ہے کہ انسان احترام اور اظہار عقیدت کے جذبہ کے ساتھ کسی کی جانب متوجہ ہو اور اس سےانسیت پیدا کرے[4]۔اور بعض نے کہاکہ اولیا اور بزرگوں سے ملاقات کو زیارت کہتے ہیں اس اعتبار سے زیارت میں ایک روحانی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے جس سے انسان عالم طبیعت میں ہونے کے باوجود مادیت سے منہ موڑ کر اپنے آپ کو عالم روحانیت سے جوڑ لیتا ہے۔یہ کلمہ قرآن میں بھی اسی معنی میں استعمال ہوا ہے ۔[5]


انبیاء و معصومین اور اولیاء و آل پیغمبر کی زیارت کی سب سے اہم شرط معرفت ہے اور روایات زیارت میں اس نکتہ پر بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے چنانچہ حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی زیارت کے سلسلہ میں روایت ہے کہ "من زارھا معرفۃ بحقھا وجبت لہ الجنۃ"جو حضرت معصومہ کی زیارت حق معرفت کے ساتھ انجام دے اس پر جنت واجب ہے سوال یہ ہے کہ حق معرفت کسے کہتے ہیں؟ ظاہر ہے حق معرفت یعنی زائر کو حق امام کی معرفت ہو اور حق امام کیا؟ اس سلسلہ میں موجود روایات کی روشنی میں امام کا حق یہ ہے کہ زائر امام کو مفترض الطاعۃ یعنی امام کی اطاعت کو اواجب جانے ۔نہج البلاغہ خطبہ نمبر 34 میں امام علی علیہ السلام نے امام اور رعیت کے حقوق کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

أَمَّا حَقِّی عَلَیْکُمْ فَالْوَفَاءُ بِالْبَیْعَةِ وَ النَّصِیحَةُ فِی الْمَشْهَدِ وَ الْمَغِیبِ وَ الْإِجَابَةُ حِینَ أَدْعُوکُمْ وَ الطَّاعَةُ حِینَ آمُرُکُم‏

میرا تم پر یہ حق ہے کہ بیعت کی ذمہ داریوں کو پورا کرو اور سامنے اور پس پشت خیر خواہی کرو جب میں بلاؤں تو میری صدا پر لبیک کہو اور جب کوئی حکم دوں تو اس کی تعمیل کرو۔[6]

اس لئے زائر کی ساری کوشش یہ ہونی چاہئے کہ امام کے فرمان کو بجالائے اور جو امام کے اس حق کی رعایت کے ساتھ زیارت کرتے ہیں ان کے بارے میں کتاب کامل الزیارات کے باب نمبر 101 ایک میں روایت ہے کہ

فمن زار ہ (امام رضا علیہ السلام)مسلما لامرہ ،عارفا بحقہ کان عند اللہ کشہداء البدر

جو امام رضا علیہ السلام کی اس حالت میں کرے کہ آپ کے اوامر کے آگے تسلیم ہو اور آپ کے مقام و مرتبہ کو پہچانتا ہو تو ایسا زائر اللہ کے نزدیک شہداء بدر کا درجہ رکھتا ہے۔[7]

ہاں اگر زائر حق کے آگے تسلیم ہو تو تو یقینااس کا مقام زائرین کے اعلی ترین درجہ میں ہوگا جہاں اس کے سارے گناہ معاف ہوں گے اور وہ ایسا پاک و پاکیزہ ہوگا جیسے ایک نومولود گناہوں سے پاک ہوتا ہے ۔یہی وجہ ہے زائر زیارت جامعہ میں بارگاہ رب العزت میں دست دعا بلند کرتے ہوئے درخواست کرتا ہے :

أَسْأَلُکَ أَنْ تُدْخِلَنِی فِی جُمْلَةِ الْعَارِفِینَ بِهِمْ وَ بِحَقِّهِمْ وَ فِی زُمْرَةِ الْمَرْحُومِینَ بِشَفَاعَتِهِمْ إِنَّکَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ وَ صَلَّى اللَّهُ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ الطَّاهِرِینَ وَ سَلَّمَ [تَسْلِیما] کَثِیرا وَ حَسْبُنَا اللَّهُ وَ نِعْمَ الْوَکِیل

تجھ سے یہ درخواست کر سکتا ہوں کہ مجھے ان لوگوں میں شمار فرما جو اہل بیت (علیہم السلام ) کی معرفت رکھنے والے ان کے حق کے جاننے والے اور ان گروہ میں شامل ہونے والے اور ان کے شفاعت پانے والے ہیں کہ تو ارحم الراحمین ہے ۔

خداوندا محمد (ص) اور ان کی آل پاک (علیہم السلام ) پر درود بھیج اور بے پناہ سلام ان پر نچھاور فرما حسبنا اللہ و نعم الوکیل خدا ہمارے لیے بس ہے اور وہی بہترین وکیل ہے ۔
زیارت نامے دو طرح کےہیں ایک زیارت ماثورہ اور دوسرے زیارت غیر ماثورہ اگر زائر مزور کے کمالات کو اپنی زبان سے بیان کرے اور جس کی زیارت کررہا ہے اس سے اپنی محبت کا اظہار اور اس کے دشمنوں سے اظہار بیزارگی کرے اس قسم کی زیارات کو زیارت غیر ماثوہ کہتے ہیں اور اگر یہ اظہار عقیدت امام معصوم کی زبانی ہو تو ایسے زیارت نامے تولی و تبری کے اظہار کے علاوہ امام معصوم کی شناخت کا سبب بنتےہیں اور زائر کو مزور کی آگاہی نصیب ہوتی ہے اس لئے کہ "الکلام صفۃ المتکلم"[8] ہر کلام اس کے متکلم کے علم و آگاہی کا آئینہ دار ہوتا ہے ۔زیارت اگر کلاس درس ہے تو یہ زیارت نامے اس کلاس کا نصاب ہیں ائمہ علیہم السلام نے ان زیارت ناموں میں توحید اور صفات الہی ، نبوت اور پیامبر شناسی ،امامت و ولایت اور ماموم کی خصوصیات ،تاریخ ائمہ اورانکی مظلومیت وغیرہ کا بیان کیا ہے ۔

ماثورہ زیارتنامے بھی دو طرح کے ہیں :

1۔اختصاصی زیارتنامے :

کسی ایک امام سے مخصوص زیارت جس میں زائر کسی ایک نورانی شخصیت کے بارے اظہار ارادت کرتا ہے جیسے یہ زیارت نامے:

""السلام علیک یا رسول الله و رحمة الله و برکاته، السلام علیک یا محمد بن عبدالله"[9]، "السلام علیک یا ممتحنة امتحنکِ الذى خلقکِ قبل أن یخلقکِ و کنتِ لما امتحنکِ به صابرةً"[10]]"السلام علیک یا رسول الله و رحمة الله و برکاته، السلام علیک یا محمد بن "[11]السلام علیک یا ممتحنة امتحنکِ الذى خلقکِ قبل أن یخلقکِ و کنتِ لما امتحنکِ به صابرةً.."[12]

2۔ عمومی زیارت نامے

ایسے زیارتنامے جس کا مضمون عام ہو جسے ہر امام کی زیارت کے موقع پر پڑھا جاسکتا ہو جیسے زیارت امین اللہ ، زیارت مخصوص ماہ رجب ، زیارت جامعہ صغیرہ ، زیارت جامعہ کبیرہ وغیرہ

ماثوره زیارتناموں میں کئی زیاتیں " زیارت جامعہ "کے عنوان سےمشہور ہیں ان زیارتناموں کو اس لئے جامعہ کہا گیا کہ یہ متن اور زمان و مکان کے لحاظ سے عمومیت رکھتے ہیں یعنی جب دل چاہے دور یا نزدیک سے انہیں تمام ائمہ کیلئے پڑھا جاسکتا ہے اس خصوصیت کے حامل زیارتناموں کی اچھی خاصی تعداد ہے جسے ادعیہ و زیارات کے مولفین نے اپنی اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے چنانچہ ابن بابویہ قمی نے 2[13] سید محسن امین نے 4 [14]محدث قمی نے 5 [15]اور مولی محمد باقر مجلسی نے بحار میں" باب الزیارات الجامعہ " میں ائمہ علیہم السلام کی تعداد کے برابر 12 عدد زیارتیں نقل کی ہیں[16] اس کے بعد علامہ مجلسی لکھتے ہیں اس کے علاوہ اور بھی زیارتنامے ہیں جسے موثق نہ ہونے کی وجہ سے یا تکراری مضامین کی وجہ نقل نہیں کیا گیا بہتر ہوتا یہیں پر ان زیارتناموں کی مختصر معرفی بھی کی جاتی لیکن میں اس مضمون اتنی گنجائش نہیں ہے ۔انہی معتبر زیارت ناموں میں ایک زیارت زیارت جامعہ کبیرہ ہے۔

امامت کے دسویں آفتاب ،ہمارے مولی ،ہمارے ولی و سرپرست حضرت امام ابو الحسن علی النقی علیہ السلام نے ہم شیعوں پر یہ احسان عظیم فرمایا کہ "زیارت جامعہ " کی شکل میں معرفت امام کا لا محدود اور بیش قیمت خزانہ ہمیں عطا فرمایا امام علیہ السلام نے اپنے ایک دوست کی درخواست پر یہ زیارت انہیں تعلیم دی تا کہ وہ اس طرح ائمہ کی زیارت کریں چنانچہ موسی بن نخعی کا بیان ہے کہ حضرت امام علی نقی علیہ السلام سے درخواست کی کہ اے فرزند رسول آپ مجھے ایک بلیغ اور کامل زیارت تعلیم فرمائے جس سے میں ہر امام کی زیارت کرسکوں امام نے فرمایا :

جب حرم پہونچو تو ٹھہرو اور شہادتین یعنی :

اشہد انّ لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ و اشہدو انّ محمدا عبدہ و رسولہ

کہواور ہاں با غسل رہو جب حرم میں داخل ہو اور ضریح پر نگاہ پڑے تو ٹہرو اور تیس مرتبہ اللہ اکبر کہو چند قدم بڑے اطمینان اور وقار کے ساتھ آہستہ آگے بڑھو اور ٹھہر کر پھر تیس مرتبہ اللہ اکبر کہو اور جب ضریح کے نزدیک پہونچو تو چالیس مرتبہ اللہ اکبر کہو تاکہ سو تکبیریں مکمل ہوجائیں پھر اس طرح زیارت کرو السَّلَامُ عَلَیْکُمْ یَا أَهْلَ بَیْتِ النُّبُوَّةِ۔۔۔۔۔[17]

محدث قمی ا س روایت کے ذیل میں فرماتے ہیں شاید اس تکبیر کی وجہ وہی ہو جسے مجلسی اول نے لکھا ہے کہ اکثر طبیعتیں غلوکی طرف مائل رہتی ہیں ایسا نہ ہو کہ زیارت کے لفظوں سے غلو میں پڑجائیں یا خدا کی یاد سے غافل ہوجائیں ۔[18]

علماء نے متن و سند کے لحاظ سے اس زیارت کو بہترین زیارت شمار کیا ہے جناب شیخ صدوق علیہ الرحمہ متوفی 381 ہجری اپنی کتاب من لا یحضرہ الفقیہ [19]اور عیون اخبار الرضا[20] میں اور شیخ طوسی علیہ الرحمہ نے متوفی 460 ہجری نے اپنی کتاب تہذیب الاحکام[21] میں اس زیارت کو نقل فرمایا ہے ۔ علامہ مجلسی نے فرمایا ہے کہ زیارت جامعہ سند کے اعتبار سے صحیح ترین سند اور عبارت فصاحت و بلاغت کے لحاظ سے بہترین زیارت ہے[22][23] آیۃ اللہ آقا نجفی قوچانی اصفہانی فرماتے ہیں اس روایت کے رجال ثقہ ہیں سوائے موسی کہ جو توثیق صریح نہیں رکھتےلیکن شیخ صدوق نے اس زیارت پر صحت کا حکم لگایا ہے اور شیخ دوسروں کے مقابل رجال سے زیادہ واقف ہیں علامہ مجلسی کے والد مجلسی اول فرماتے ہیں :حضرت امیر المومنین کے حرم میں ایک مرتبہ امام زمانہ سلام اللہ علیہ کی زیارت کا شرف حاصل ہوا میں بلند آواز میں زیارت جامعہ پڑھ رہا تھا زیارت کے اختتام پر حضرت نے ارشاد فرمایا کیا عمدہ زیارت ہے مجلسی اول فرماتے ہیں میں یہ زیارت اکثر پڑھا کرتا ہوں اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ زیارت امام علی نقی علیہ السلام سے نقل ہوئی ہے اور امام زمانہ ارواحنا لہ الفدا کے بقول یہ زیارت متن کے اعتبار سے بہترین اور کامل ترین زیارت ہے ۔اگر زیارت جامعہ کی سند معتبر نہ ہوتی جب کہ ایسا نہیں ہے تب بھی اس زیارت میں موجود کلام کی لطافت ،مضمون کی بلندی علم ومعرفت کی گہرائی زیارت جامعہ کے صحیح السند ہونے کی دلیل ہے اور ائمہ علیہم السلام کے ربانی علم پر گواہ ہے ۔[24]

حاجی نوری مرحوم لکھتے ہیں کہ سید احمد دشتی کو سفر حج کے دوران امام زمانہ کی زیارت نصیب ہوئی امام نے نماز شب زیارت عاشورا اور زیارت جامعہ پڑھنے کی نصیحت فرمائی فرما یا کہ تم نافلہ کیوں نہیں پڑھتے نافلہ نافلہ نافلہ تم زیارت عاشورہ کیوں نہیں پڑھتے عاشورہ عاشورہ عاشورہ اور زیارت جامعہ کیوں نہیں پڑھتے جامعہ جامعہ جامعہ [25]اسی بنا پر ہمیشہ سے علماء کرام اور مومنین عبادت گزار ہمیشہ نوافل میں زیارت جامعہ کا خاص اہتمام کرتے رہے اور ہر روز اسے پابندی سے پڑھا کرتے تھے اور آج بھی پڑھتے ہیں اگر شیعہ علماء کے شرح حال اور تذکروں پر نظر ڈالی جائے تو تمام عظیم المرتبت شخصیات کی کامیابی کا راز یہی ہے کہ وہ اللہ کی عبادت اور محبت اہل بیت سے کبھی بھی غافل نہیں رہے وہ ہمیشہ نوافل میں نماز شب اور زیارت جامعہ و زیارت عاشورہ کی پابندی کرتے تھے حجۃ الاسلام استاد فاطمی نیا نے کریمہ اہلبیت حضرت معصومہ قم کے حرم مطہر میں رحلت امام خمینی کی مناسبت سے تقریر کرتے ہوئے فرمایا :امام خمینی کی کامیابی اور انکے مقام و مرتبہ اورعظمت وفضل کا راز ان کا عرفان عملی ہے وہ کبھی زیارت جامعہ اور نماز شب ترک نہیں کرتے تھے نجف اشرف میں 15 سال کے دوران قیام امام خمینی نے ایک مرتبہ بھی حضرت علی علیہ السلام کی ضریح کے نزدیک نماز شب ترک نہیں کی جب انکا بیٹا شہید کیا گیا تو آپ نےبس اتنا ہی کہا کہ "یہ خدا کے الطاف خفیہ میں سے ہے" اپنے بیٹے کے غم کوغم نہیں سمجھا لیکن جب امام حسین علیہ السلام کا ذکر آتا تو آپ اتنا شدید گریہ کرتے کہ آپ کے شانے ہلنے لگتے ۔[26]حرم معصومہ سلام اللہ علیہا کے جوار میں مدفون علماء اور مراجع کے حالات زندگی "ستارگان حرم " نامی کتاب میں درج ہیں وہاں آپ کو علماء کے حالات میں کئی مثالیں ملیں گی جس میں علماء نے زیارت جامعہ کی اہمیت بیان کی اور اسکی قرائت کی تاکید کی اور خود بھی اس کے پابند تھے اس مضمون میں گنجائش نہیں کہ انہیں ذکر کیا جائے ۔

یوں تو ائمہ علیہم السلام کی شان اور فضائل و مناقب میں بے شمار احادیث و روایات وارد ہوئیں ہیں جو اصول کافی اور دیگر مجامع حدیثی میں موجود ہیں لیکن زیارت جامعہ میں وہ سارے فضائل جو احادیث و روایات میں بطور تفصیل آئے ہیں ان میں سے اکثر فضائل کا ذکر اجمالی طور پر زیارت جامعہ میں ایسے جمع کردیا گیا جیسے کوزے میں سمندر سماجائے ہر زائر کی دلی خواہش ہوتی ہے کہ وہ ایام زیارت میں بہترین زیارت کی قرائت کرتے ہوئے اپنے محبوب کی توصیف و تمجید کرے ۔اور ان کا دل چاہتا ہے کہ ان زیارت ناموں کے عالی مضامین کو درک کرتے ہوئے ائمہ کے مقامات سے آشنا ہو اور ان مضامین سے اپنی زندگی کو بہتر سے بہتر بنانے میں مدد لیں لیکن زیارتوں کے مضامین بہت دقیق و عمیق ہیں جو ہر کس ناکس کی سمجھ سے باہر ہیں اسی لئے علماء نےمضامین کی بلندی کے پیش نظر ان زیاتناموں کی شرح لکھی بالخصوص زیارت جامعہ کی متعدد شرحیں لکھیں گئیں جس کی ایک مختصر فہرست یہاں پیش کی جاتی ہے یہ تمام شرحیں زیادہ تر فارسی اور عربی زبان میں ہیں اے کاش ایسی شرحیں اردو زبان میں بھی ہوتیں یا ان انہی شروحات کا اردو میں ترجمہ کردیا جاتا :

1۔اسرار الزیارۃ و برہان الانابہ (فارسی) مولف آقا نجفی اصفہانی /شیخ محمد تقی مطبوع
2۔الالھامات الرضویہ فی شرح زیارۃ الجامعہ الکبیرۃ (فارسی)سید محمد بن سید محممود لواسانی طہرانی
3۔انیس الطلاب آقا جعفر بن محمد علی بن وحید بہبہانی اس کتاب کا ایک حصہ زیارت جامعہ کی شرح سےمتعلق ہے
4۔حقائق الاسرار آقا نجفی مذکور
5۔شرح الزیارہ الجامعہ الکبیرۃ ملا تقی مجلسی پدر علامہ مجلسی
6۔ شرح الزیارہ الجامعہ الکبیرۃ شیخ احمد احسائی
7۔ شرح الزیارہ الجامعہ الکبیرۃ علامہ میرزا علی نقی بن حسین معروف بہ حاج آقا ابن سید مجاھد
8۔شرح الزیارہ الجامعہ الکبیرۃ شیخ میرزا محمد علی ابن مولی محمد نصیر چھاردھی رشتہ نجفی

9۔ شرح الزیارہ الجامعہ الکبیرۃ سید بھاء الدین محمد بن محمد باقر حسینی نائینی مختاری
10۔ شرح الزیارہ الجامعہ الکبیرۃ بنام اعلام اللامعہ سید محمد بن عبد الکریم طباطبائی (جد بحر العلوم)
11۔ شمس الطالعہ فی شرح زیارۃ الجامعہ سید عبد اللہ ابن ابولقاسم موسوی بلادی
12۔شمس الطالعہ فی شرح زیارۃ الجامعہ میرز محمد ابن ابولقاسم ناصر حکمت طبیب زادہ اصفہانی معاصر
13۔الشموس الطالعہ فے شرح الزیارۃ الجامعۃ الکبیرۃ سید جلیل سید حسین ھمدانی درودآبادی
14۔الشرس الطالعہ فی شرح الزیارات الجامعہ آقا ریحان اللہ دارابی بروجردی
15۔ اللامعہ فی شرح الزیارۃ الجامعہ سید عبد اللہ شبر
16۔شرح زیارت جامعة کبیره، اثر محمد هادی شیخ الاسلامی
17۔در حریم ولایت آیۃ اللہ اقا نجفی قوچانی
18۔زیارت جامعہ استاد فاطمی نیا
19۔حبل المتین ایۃ اللہ سید محمد ضیاء آبادی
20۔ اس زیارت کی بہترین شرح فیلسوف و عارف آیۃ اللہ شیخ عبد اللہ جوادی آملی تحت عنوان " ادب فنای مقربان " ہے[27]
 

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬