حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ الصلوۃ و السلام کے یوم ولادت با سعادت کےموقع پر حسینیہ امام خمینی (رہ) میں آج مختلف شہروں سے آنے والے مختلف عوامی طبقات کے اجتماع سے بڑا دلنشیں ماحول پیدا ہو گیا اور جذ بہ عقیدت سے مملوء اس فضا میں حضرت علی علیہ السلام کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔
محبان اہل بیت علیہم السلام کے اس عظیم الشان اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے رھبر معظم آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اسلامی معاشرے میں انصاف قائم کرنے اور اتحاد کی حفاظت پر حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی خاص توجہ کی جانب اشارہ کیا اور عالم اسلام بالخصوص ملت ایران کی اہم ترین موجودہ ضرورت کے مد نظر اتحاد اور دشمنوں کی سازشوں کی طرف سے ہوشیاری کی نشاندہی کی۔ آپ نے حالیہ معاملے میں مغربی حکومتوں کی آشکارا مداخلت پر ایرانی عوام اور حکومت کے شدید رد عمل کی بابت انہیں خبردار کرتے ہوئے فرمایا: بارہ جون2009 کو ملت ایران کے عظیم و با شکوہ کارنامے اور پولنگ مراکز پر چار کروڑ عوام کی آمد کے شکرانے کا تقاضا، اتحاد کی حفاظت، باہمی ہمدردی، شفقت آمیز نظر، جوش و خروش، عوام اور اہم شخصیات میں انقلابی جذبے کا تسلسل اور دوست و دشمن کی شانخت میں غلطی نہ کرنا ہے۔
آپ نے ملت ایران کے اتحاد و یکجہتی میں اسلامی انقلاب اور اسلام کے کردار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اتحاد و ہم خیالی کی حفاظت کی ضرورت پر تاکید کی اور فرمایا: بارہ جون کے با شکوہ اور بے مثال انتخابات سے جس میں پچاسی فیصد لوگوں نے شرکت کی، ثابت ہو گیا کہ تیس سال کے بعد بھی اسلامی انقلاب اس انداز سے عوام کو میدان میں لانے پر قادر ہے، بنابریں دشمنوں نے بھی سرگرمیاں شروع کر دی ہیں تاکہ عوام میں اختلاف پیدا کریں اور کسی حد تک انہیں کامیابی بھی ملی ہے لیکن اب عوام کو چاہئے کہ اس سازش کو نقش بر آب کر دیں۔
رھبر معظم آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اسلامی جمہوری نظام کی روشن و عیاں پالیسی کی جانب اشارہ کیا جس کی رو سے صدارتی امیدواروں کی مقابلہ آرائی کنبے کے اندر کی مقابلہ آرائی ہے اور فرمایا: کنبے کے اندر کی یہ مقابلہ آرائی ممکن ہے کہ بعض اوقات غصے اور ناراضگی کا باعث بنے لیکن اس سے اغیار کا کچھ لینا دینا نہیں ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے ملک کے اندرونی معاملات میں دشمنوں کی مداخلت کا ہدف اختلاف و تفرقہ پیدا کرنا بتایا اور فرمایا: بعض مغربی ممالک کے صدر، وزیر اعظم اور وزیر خارجہ کی سطح کے حکام نے ایران کے ان داخلی امور میں آشکارا مداخلت کی جن کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے اور پھر وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ ایران کے داخلی امور میں مداخلت نہیں کرتے حالانکہ انہوں نے آشوب کو ہوا دی اور ایرانی عوام کو آشوب پسند قرار دیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ آشوپ پسند عناصر وہی ہیں جو مغربی حکومت کی جانب سے منظور شدہ بجٹ استعمال کر رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ یہ فطری بات کہ کچھ لوگ جن کے کینڈیڈیٹ کو کامیابی نہیں ملی افسردہ اور ناخوش ہوں لیکن اس کا مطلب آشوب برپا کرنا نہیں ہے کیونکہ انتخابات کے نتائج کے مطابق ملک میں اکثریت اور اقلیت موجود ہے اور اصول و ضوابط بھی ہیں۔ بنابریں ایرانی عوام کو صیہونیوں کے تسلط والے یورپی اور امریکی ذرائع ابلاغ میں آشوپ پسند قرار دیا جانا قوم کی توہین ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے بعض مغربی حکومتوں کے سربراہوں کو شدید انتباہ دیتے ہوئے فرمایا: یہ حکومتیں اپنے معاندانہ بیان اور روئے کی بابت محتاط رہیں کیونہ ملت ایران کی جانب سے اس پر رد عمل آئے گا۔ آپ نے ایرانی قوم کو قدرت مند قوم اور اسلامی نظام کو مستحکم قرار دیا اور فرمایا: اگر اسلامی جمہوریہ کے حکام کے درمیان کچھ اختلافات پیدا ہو گئے تب بھی دشمن کا مقابلہ کرنے اور ملک کی خود مختاری کی حفاظت کے سلسلے سب متفق اور ایک آواز ہیں، دشمن کو یاد رکھنا چاہئے کہ وہ ایرانی قوم کی صفوں میں خلیج پیدا نہیں کر سکتا۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: تمام سامراجی ممالک کے سربراہوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ جہاں بھی دشمنوں کے قدم پڑے، ایرانی قوم اختلاف نظر کے باوجود دشمنوں کے خلاف متحد اور زوردار گھونسے میں تبدیل ہو جائے گی۔ قائد انقلاب اسلامی نے اغیار کی دشمنی اور سازشوں کا ملت ایران کو تیس سالہ تجربہ ہونے کی یاد دہانی کرائی اور فرمایا: اس بھول میں نہ رہئے کہ اگر آپ نے کسی ایک مکتب فکر کا بزعم خود دفاع کر دیا اور بعض افراد کے نام لے لئے تو وہ مکتب فکر آپ کی جانب راغب ہو جائے گا۔ ہرگز نہیں، ایسا کبھی بھی نہیں ہو سکتا، کیونکہ آپ کی دروغگوئی، ایرانی عوام کے سامنے آشکارا ہو چکی ہے اور وہ واقف ہیں کہ آپ کا ہدف اہم شخصیات اور عوام کے درمیان بد گمانی پیدا کرنا اور اسلامی نظام سے اپنا بغض و کینہ نکالنا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ بعض سامراجی ممالک خود اپنے استبداد کے مد مقابل کھڑے خود مختار و ثابت قدم اسلامی نظام کی نابودی کی آرزو دل میں لئے ہوئے ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ مغربی ممالک کی جانب سے بعض افراد کی حمایت اور بعض دیگر کی مخالفت، سب دھوکہ ہے کیونکہ ان کی نظر میں، جو بھی اسلامی نظام، آئین اور ملت ایران کی امنگوں کا پابند ہے، دشمن ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: اسلامی نظام کی تیس سالہ استقامت کے تجربے اور جارحیت پسند استبدادی سربراہوں پر پڑنے والے ملت ایران کے طما نچے کے بعد بھی کچھ مغربی حکام کی آنکھیں نہیں کھلی ہیں اور وہ بدستور اس ملت اور اس قوم کو حریصانہ نظروں سے دیکھ رہے ہیں جبکہ یہ ان کی بھول ہے جس کا نتیجہ انہیں بھگتنا پڑے گا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اسلامی جمہوری نظام کے دشمن تشہیراتی اداروں کے بعض حاشیہ برداروں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ایسے حاشیہ بردار گزشتہ برسوں میں بھی نظر آتے رہے ہیں لیکن ان افراد کو یاد رکھنا چاہئے کہ یہ دشمن اور خونخوار بھیڑئے جب تک ان کے مفادات کا تقاضا رہا ان حاشیہ برداروں کو استعمال کریں گے اور اس کے بعد ردی کاغذ کی مانند کسی کونے میں ڈال دیں گے۔
آپ نے آگاہی و بیداری اور دوست و دشمن کی شناخت کی ضرورت پر زور دیا اور فرمایا: یہ مٹھی بھر فریب خوردہ حاشیہ بردار، غلط اشارے دے رہے ہیں اور دشمن ان اشاروں کے فریب میں آ گیا ہے، تاہم عوام، اہم شخصیات اور تمام دھڑے ہوشیار رہیں کہ دوست اور دشمن کی شناخت میں ان سے غلطی نہ ہو اور دشمن کے ساتھ روا رکھا جانے والا برتاؤ دوست سے نہ کریں۔
قائد انقلاب اسلامی نے عوام کے تحفظ میں خلل اندازی کرنے والے عناصر کا معاملہ دوسروں سے الگ کئے جانے کی ضرورت پر زور دیا اور فرمایا: اسلامی نظام، ان عناصر سے جو عوام کا چین و سکون چھین رہے ہیں اور نوجوانوں کو ڈرا دھمکا رہے ہیں، اپنے فرائض کے مطابق نمٹے گا۔ آپ نے فرمایا: بیدار و آگاہ قوم اور حق کے خلاف اٹھنے والا ہر فتنہ مٹ جاتا ہے، حالیہ معاملے میں بھی دشمن نے جن فتنوں سے امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں، اللہ کے فضل و کرم سے ختم ہو گئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ فتنہ دب جانے اور اس کی گرد و غبار چھٹ جانے کے بعد جو باقی بچے وہ حقیقت ہوتی ہے اور اصلی اور دائمی حقیقت، پر شکوہ انتخابات، تقریبا چار کروڑ عوام کی شراکت، تیس سال گزر جانے کے بعد اسلامی نظام پر ان کی اظہار اعتماد اور چوبیس ملین سے زائد ووٹوں سے صدر جمہوریہ کے انتخاب سے عبارت ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے حکام اور اسی طرح عوام کی جانب سے اس نعمت عظمی کی قدردانی کئے جانے اور اس پر شکر ادا کئے جانے کی ضرورت پر زور دیا اور فرمایا: اس عوامی پذیرائی پر منتخب صدر مملکت اور حکام کا فریضہ عوامی مسائل کے حل کے لئے ہمہ گیر اور بھرپور خدمت اور ملک کی ترقی و عظیم ملت ایران کی حفاظت کے لئے سعی پیہم ہے۔
آپ نے عوام کے فریضے پر بھی روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا: ملت ایران کو بھی چاہئے کہ دشمن کی مرضی کے بالکل برخلاف سمت میں یعنی اتحاد و یکجہتی کی حفاظت، ہوشیاری و آگاہی، مہر آمیز و شفقت انگیز نگاہ، انقلابی جذبے کے تسلسل کی سمت بڑھے جو یقینی طور پر حضرت ولی عصر عجل اللہ تعالی فرجھ الشریف کی خوشنودی کا باعث ہوگا۔
قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نزدیک حضرت علی علیہ السلام کے مقام و مرتبے کا ذکر کیا اور حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی حیات مبارکہ کو اسلامی تربیت کا اعلی نمونہ اور امت مسلمہ کی سعادت و کاملیت کے لئے بے شمار دروس کا خزینہ قرار دیا۔ آپ نے فرمایا: عظیم الشان امام کی زندگی سے ملنے والے دروس میں ایک، اسلامی معاشرے میں اتحاد و انصاف قائم کرنے کے لئے آپ کی حق پسندی ہے اور آپ نے اس راہ میں بڑی دشواریوں کا سامنا کیا اور سخت امتحان دئے، حتی بعض مواقع پر اسلام کی مصلحت کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے حق سے دستبرداری اختیار فرمائی۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے مسلمانوں میں اختلاف ڈالنے اور شیعہ و سنی فرقوں کو ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑا کرنے کی دشمن کی کوششوں کی دوبارہ یاد دہانی کرائی اور فرمایا: مشترکہ اہداف اور ضرورتوں کے پیش نظر عالم اسلام کو آج ماضی سے کہیں زیادہ اتحاد کی ضرورت ہے اور اگر مسلمان اپنے اتحاد کی حفاظت کریں تو دشمن اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے ان کی کمزوریوں کا فائدہ نہیں اٹھا سکے گا۔
قابل ذکر ہے کہ اس اجتماع میں لاء یونیورسٹی کے طلبا، تہران کے ائمہ جمعہ، رضاکاروں اور مشہد، اہواز، بوشہر، سنندج، ورامین، مہریز، انار، مبارکہ، ہرمز، نجف آباد، کاشان، اراک، شہر رئے اور سبزوار کے شہدا کے خاندان والوں نے شرکت کی۔
ختم خبر : رسا نیوز ایجنسی