رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر کی رپورٹ کے مطابق حضرت آیت الله عبدالله جوادی آملی نے ایران کے مقدس شہر قم کے مسجد اعظم میں منعقدہ اپنے تفسیر کے درس خارج کے سلسلہ کو جاری رکھتے ہوئے سورہ مبارکہ فصلت کی تفسیر بیان کرنے میں آیہ «وَیَوْمَ یُحْشَرُ أَعْدَاء اللَّهِ إِلَى النَّارِ فَهُمْ یُوزَعُونَ ﴿19﴾» کی قرآت کرتے ہوئے بیان کیا : قیامت کا واقعہ مکی سوروں کی بنیادی مباحث میں سے ہے کہ مشرکوں کی اصلی مشکل یہی تھی ۔ قرآن کریم نے معاد کے مسائل کو مختلف طریقہ سے بیان کیا ہے اور فرمایا ہے یہ نظام حق کے مطابق خلق ہوا ہے اور اگر اس کا اختمام نامعقول ہو تو یہ حق ہونا ختم ہو جائے گا ، مشرکین خدا کے عداوت سے روبرو تھے اور خداوند عالم نے ان لوگوں کے لئے گفت و گو کی ۔
انہوں نے آیہ «حَتَّى إِذَا مَا جَاؤُوهَا شَهِدَ عَلَیْهِمْ سَمْعُهُمْ وَأَبْصَارُهُمْ وَجُلُودُهُمْ بِمَا کَانُوا یَعْمَلُونَ ﴿20﴾» کی طرف اشاری کرتے ہوئے اظہار کیا : یہاں وہ قوت جو درک کرتی ہے یعنی سامعہ و باصرہ گواہی دیتی ہیں لیکن کان اور آنکھ کھال کا حصہ ہیں اور وہ گواہی دینے والے ہیں ، یہ کھال آنکھ کان اور تمام پوست کو شامل کرے گا ، اگر نا محرم کو دیکھا گیا ہے ، آنکھ نے گناہ نہیں کیا ہے بلکہ آنکھ کے مالک نے گناہ کیا ہے آیت کے آخر میں اس کو انسان کے عمل سے نسبت دی گئ ہے ۔
قرآن کریم کے مشہور مفسر نے بیان کیا : انسان ہے کہ جو اپنے قوہ کو کسی کام کو انجام دینے کے لئے تحریک کرتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے اعضا و جوارح خود انسان کے لئے کام کرتے ہیں ، گواہ کو چاہیئے کہ وہ خود حادثہ کے مقام پر با خبر موجود ہو اور بھولنے والا بھی نہ ہو اور یہ بھی کہ عادل ہو اور فاسق نہ ہو اور یہ بھی کہ قاضی و داور کے حکم سے نقصان نہ اٹھائے یہ تمام صفات گواہ میں ہونی چاہیئے ۔
انہوں نے کہا : گنہگار و تباہکار انسان کے اعضا و جوارح کو بھی حادثہ کے مقام پر موجود ہونا چاہئے کہ موجود ہیں اور اسی طرح با خبر ہیں ، گنہگار و تباہکار انسان کے اعضا و جوارح کی عدالت بھی ثابت ہوتی ہے ، کیوں کہ اعضا کسی کام کے نہیں ہیں اور آنکھ نے گناہ نہیں کیا ہے ، خود آنکھ گنہار نہیں ہے اور اس کا گواہی دینا بھی مسموع ہے ، وہ منصفانہ عدالت میں حاضر ہونگے لیکن سوال یہ ہے کہ کیوں اس گواہ کو جلایا جاتا ہے ۔