27 January 2010 - 15:53
News ID: 864
فونت
رسا نیوز ایجنسی ۔ حرکت قلب رک جانے سے عمید جامعہ سلطانیہ حجتہ الاسلام والمسلمین مولانا سید محمد جعفر رضوی کا انتقال ہو گیا۔
سيد مهمد جعفر رضوي

 

رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر کے مطابق حرکت قلب رک جانے سے عمید جامعہ سلطانیہ حجتہ الاسلام والمسلمین مولانا سید محمد جعفر رضوی کا انکے گھرپر ہی انتقال ہو گیا۔


آپ کے والد ماجد فقیہ اعظم سید محمد حسین تھے ان کے اجداد ہادی الملت سید محمد ہادی آیة اللہ سید ابو الحسن ابو صاحب (١٣١٣ھ) مولانا سید علی شاہ (١٢٦٩ھ) مولانا سید صفدر شاہ رضوی (متوفی (١٢٥٥ھ) فقیہ اور عارف باللہ تھے ۔


حجتہ الاسلام و المسلمین مولانا سید محمد جعفر کی ولادت ١٦ صفر ١٣٥٠ ھ مطابق ٧ جون ١٩٣١ء  کو لکھنؤ میں ہوئی گھر کے ماحول کا اثر آپ پر بچپن سے تھا، لہٰذا ابتدائی تعلیم محلہ کٹرہ میں مدرسہ عابدیہ میں حاصل کی اس کے بعد آبائی درسگاہ سلطان المدارس میں علمائے کرام کی سرپرستی میں اسلامی علوم و معارف کے حصول میں مصروف ہوگئے اور ١٩٥٢ء میں سند الافاضل اور ١٩٥٤ء میں صدر الافاضل کی سند امتیازی نمبروں سے حاصل کی، اس کے بعد فقہ و اصول میں مہارت حاصل کرنے کی غرض سے عازم عراق ہوئے، اور نجف اشرف میں قیام کے دوران آیة اللہ محسن الحکیم، آیة اللہ محمود شاہرودی، آقائی قاضی اصفہانی، امام خمینی، آیة اللہ آقائی خوئی جیسے نامور فقہا کی سرپرستی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی ١٩٧٥ء میں وطن واپس تشریف لائے اور جامعہ سلطانیہ میں درس و تدریس میں مشغول ہوگئے۔


اس زمانے میں مدرسہ کی سرپرستی مولانا سید علی صاحب مرحوم کے سپرد تھی آپ کی وفات کے بعد مدرسہ کی تولیت اور مدیریت مولانا سید محمد جعفر صاحب کے سپرد کر دی گئی یہ مدرسہ آپ کے جدبزرگوار آیة اللہ سید ابو الحسن صاحب ابوّ نے قائم کیا تھا، انکے بعد باقر العلوم مولانا سید محمد باقر صاحب ١٨٩٥ء سے ١٩٢٨ء تک اور ہادی الملت مولانا سید محمد ہادی رضوی ١٩٢٨ء سے ١٩٣٨ء تک اور مولانا سید محمد رضوی صاحب ١٩٣٨ء سے ١٩٧٥ء تک اور مولانا سید علی رضوی صاحب ١٩٧٥ء سے ١٩٨٧ء تک اس مدرسہ کی مدیریت کی ذمہ داری انجام دیتے رہے، یہی وہ بزرگ تھے جنہوں نے صحن سلطانیہ میں کشت مذہب کی اس طرح آبیاری کی کہ چمن سلطانیہ فقہ واصول، حدیث و تفسیر، عقائد و کلام کے درختوں سے اس طرح چمن زار ہوگیا کہ جس کی خوشبو نے بر صغیر کو معطر کر دیا۔ ١٩٨٧ء سے اب تک اس مدرسہ کی مدیریت کی ذمہ داری مولانا سید محمد جعفر کے سپرد تھی جو انتہائی حسن و خوبی سے اس ذمہ داری کو انجام دے رہے تھے۔مولانا انتہائی خلیق، ملنسار، کم سخن، باوقار عالم دین تھے۔


ابھرتا ہوا قد، نوراسی چہرہ، گورا رنگم، گھنی خوبصورت سفید داڑھی، چوڑی پیشانی، اس پر سجدے کا نشان، کشادہ سینہ، سیاہ دستار، لمبی قبا، ہاتھ میں تسبیح،سڈول جسم کے علاوہ شخصیت میں ایسی جاذبیت پائی جاتی تھی کہ نگاہیں خود بخود احتراماً جھک جاتی تھیں، آپ دنیاداری، نام و نمود اور جاہ طلبی سے دور رہتے تھے  بس ہر وقت خدمت خلق اور مدرسہ کی ترقی کے لئے کوشاں رہتے آپ نے جامعہ سلطانیہ کی تعمیر نوکی طرف خاص توجہ دی، کتب خانہ کی عمارت بوسیدہ ہوچکی تھی مطالعہ کا معقول انتظام نہیں تھا، آپ نے کتب خانہ کی نو سازی کرائی اور کتابوں کو منظم کرایا مخطوطات کی حفاظت کی خاطر جلد سازی کرائی اور فہرست سازی کا کام انجام دیا، مدرسہ میں مسجد نہیں تھی آپ نے مدرسہ کے وسیع میدان میں ایک کشادہ مسجد تعمیر کرائی جو حال ہی میں پائے تکمیل تک پہونچی۔


آپ طلباء سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے ان کے مسائل حل کرنے کی جد و جہد کرتے رہتے تھے طلباء بھی آپ کا بے حد احترام کرتے ہیں، اس قحط رجال میں آپ کا وجود نعمت مترقبہ سے کم نہیں آپ آیة اللہ العظمیٰ سید علی سیستانی اور آیة اللہ العظمیٰ ناصر مکارم شیرازی کے وکیل بھی تھے۔


آپ کی علمی و روحانی شخصیت سے متاثر ہوکر ایران کلچر ہائوس کی جانب سے سفیر ایران آقائی نبی زادہ نے ١٦ مئی ٢٠٠٩ء کو شہید مطہری ایوارڈ سے نوازا ۔


 آپ کی تصانیف درج ذیل ہیں :


(۱) رسالہ در میراث  
(۲) تقریر درس خارج آیة اللہ سید علی فانی در مباحث استصحاب (عربی)
(۳)توضیح شرح تجرید  
( ٤)) ہدیة الصائمین (مطبوعہ)
(٥)آسان حج مطابق فتاوای آقائی حکیم، آقائی شاہرودی، آقائی خوئی(مطبوعہ)
 (٦)تحفة الانتخاریہ(ادعیہ) مطبوعہ

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬