رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر کے رپورٹ کے مطابق ، حضرت آیت الله مکارم شیرازی مرجع تقلید نے آج مولوی عبدالحمید اور اھل سنت کے چند علماء سے ملاقات کی اور فرمایا : ھم شیعیان اھل سنت کے ساتھ قرنوں زندگی بسر کی ہے اور آپس میں کبھی بھی کسی مشکلات کا سامنا نہی کرنا پڑا تھا اور میں تبعید کے زمانہ میں چابهار و مهاباد کے اھل تسنن حضرات کے درمیان تھا اور اھل سنت کے علماء سے میری دوستی تھی ۔
انہوں نے اس بیان کے ساتھ کہ اھل سنت و شیعہ علماء کے درمیان رابطہ پائے جاتے ہیں اظھار خیال کیا : اس زمانہ میں شیعہ اور سنی کے درمیان اچھے رابطہ برقرار ہیں اور یہاں تک کہ ملاقات و گفتگو بھی مختلف صورت میں ہوتی رہتی ہیں اور ہر ایک اپنے مذھب کے اعتبار سے اپنے مذھب پر عمل کرتا ہے ۔
اس مرجع تقلید نے شیعہ اور سنی کے درمیان پائے جانے والے بے شمار مشترکات کو ان دو مذھب کے درماین پائے جانے والے رابطہ کو اصل دلیل جانا اور فرمایا : افسوس کی بات ہے اس سال کے آخری زمانہ میں چند اجانب و بیگانے تحریکات خاص کر شدت پسند وھابیوں نے ماحول کو بدل دیا ہے جو اس دو مذھب کے درمیان بد بینی کا سبب بنی ہے اور وہ پہلے والی محبت و دوستی و قربت کو خدشہ ور کر دیا ہے ۔
انہوں نے ایران کے سیستان و بلوچستان صوبہ میں مارے گئے ایران کے سپاہ کے چند فرمانداروں و عواموں اور اسی طرح دوسرے حادثہ میں چند شیعہ علمائوں کا قتل اس دو مذھب کے درمیان بد بیبی کی اصل وجہ ہو نے کی بات کہی اور یاد آوری کرائی : آج کے دور میں حال میں ہوئے حادثہ کی اصل عامل شدت پسند وھابیوں کے مدارس میں ہو رہے بعض باطل تعلیمات کو جانا گیا ہے جو کہ ان کے تعلیمی درسی نصاب میں پایا جاتا ہے ، قتل و غارت کیا کرو یہاں تک کہ ان کے بعض کتابوں میں شیعوں کے جان و مال کو مباح قرار دیا گیا ہے ۔
حضرت آیتالله مکارم شیرازی نے اطھار خیال کیا : اصولاً شدت پسند وھابی دنیا کے نا امن ہو نے کا سبب بنے ہیں اور یہ نا امنی اس نا درست و باطل تعلیمات کی بنا پر ہوئی ہیں جس افراطی شدت پسندی تعلیمات پر آپ اھل سنت حضرات کو بھی اعتراض ہے ؛ لیکن ھمارا ھمسایہ ملک جیسے پاکستان ، اعراق ، افغانستان اور دوسرے ملک اس طرح کا کارنامہ انجام دیتے ہیں اور اسی کی بنا ہریوروپ کی عوام مسلمانوں کو صرف سر کاٹنے والے سے پہچانتی ہے۔
انہوں نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا : ھم مسلمان ایک دوسرے کے ھاتوں میں ھاتھ دے کر متحد ہو سکتے ہیں ؛ کیونکہ دنیا مادی گری کے پروگرام سے تھک چکی ہے ؛ لیکن افسوس کی بات ہے کہ اس گروہ کی ترقی میں اس کے اعمال مھم رکاوٹ بن چکی ہے ۔
حوزہ علمیہ قم میں فقہ کے درس خارج کے اس استاد نے علماء اھل سنت کا شکوہ حوزات علمیہ اھل سنت پر حکومت کی نظارت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا : حکومت کی یہ نظارت آپ کے اسلامی تعیمات میں دخالت اور اس سے دوری کے لیئے نہی ہے بلکہ اس حکومت کے ذمہ دار اس کوشش میں ہیں کہ اس میں غیروں کی دخالت نہ ہو سکے بیگانے افراد کو اس میں دخالت کرنے سے روک سکیں اور یہ طریقہ کار اور پروگرام تمام ممالک میں پائے جاتے ہیں ۔
انہوں نے مولوی عبدالحمید کا ایک دوسرا شکوہ جو غیر ایرانی طلاب کا اھل سنت کے مدرسوں میں نہ ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یاد دھانی کرائی : آپ جو چاہتے ہیں کہ غیر ایرانی طالب علموں کو آپ اپنے مدارس میں تعلیم دیں تو اس میں کوئی ھرج نہی ہے صرف اس ملک کے قوانین کی رعایت کی جائے یعنی اقامت کی اجازت حکومت کے ذریعہ لیا جائے جو کہ شیعہ طالب علم بھی اس میں شامل ہیں ۔ اس امر کی اجازت حکومت کے کارمندوں کے ذریعہ سے انجام دیں جب تک حکومت اس کی تائید نہ کرے اس کو آپ انجام نہی دے سکتے ہیں ؛ کیونکہ کچھ ممالک اپنی مداخلت اس طرح نفوزی افراد کے ذریعہ انجام دیتے ہیں لھذا آسانی سے ان لوگوں کے لئے راستہ نہی کھولا جانا چاہیئے ۔
انہوں نے تاکید کیا : غیر ایرانی طالب علم صرف خاص مدرسوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور ھر گز شیعہ یا سنی ہونا اس مدرسہ میں کوئی خاص وجہ نہی ہے ؛ اگر غیر ایرانی طالب علم ایران میں چاہتے ہیں تعلیم حاصل کریں تو ان کے لئے لازم ہے کہ حکومت کی طرف سے مجوز حاصل کریں چاہے وہ شیعہ ہوں یا سنی ۔
حضرت آیت الله مکارم شیرازی نے اظھار خیال کیا : میں آپ لوگوں کو اطمینان دلاتا ہوں کہ شیعہ اور سنی کے درمیان پہلے کی طرح اعتماد بنائی جائے تو یقینا ان دو مذھب کے درمیان کوئی بھی مشکلات پیش نہی آئیگی ۔
انہوں نے بیان کیا : میں نے سنا ہے کہ چند اھل سنت بھائی فرزندوں کے پیدا کرنے پر زیادہ مصر ہیں تا کہ جمیعت کو ٹکرایا جا سکے اور سنا ہے کہ اھل تشیع کے زمین اور دکانیں خریدی جا رہی ہیں تا کہ وہ لوگ ھجرت کرنے پر مجبور ہو جائیں ، اگر یہ سب چیزیں سچ ہوں تو اعتماد سازی میں مشکلات پیش آئینگی ، اور اھم یہ ہے کہ آپ حضرات ایسا کام کریں کہ بی اعتمادی اعتماد میں تبدیل ہو جائے جب ایسا ہوگا تو اس صورت میں کوئی بھی مشکل پیش نی آئیگی ۔