رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ملی یکجہتی کونسل کی مجلس عاملہ کا اجلاس 6 اپریل 2015ء کو منصورہ، لاہور میں کونسل کے صدر صاحبزادہ ابوالخیر زبیر کی سربراہی میں منعقد ہوا، اس اجلاس میں کونسل کے سکریٹری جنرل لیاقت بلوچ، سینئر نائب صدر حجت الاسلام و المسلمین سید ساجد علی نقوی، رابطہ المدارس اور جمعیت اتحاد پاکستا ن کے سربراہ مولانا عبدالمالک، وفاق المدارس شیعہ کے نائب صدر حجت الاسلام قاضی نیاز حسین نقوی، جمعیت اہل حدیث کے ناظم اعلیٰ حافظ ابتسام الہی ظہیر، جمعیت علمائے پاکستان کے ناظم اعلیٰ پیر سید محمد محفوظ مشہدی، مجلس وحدت مسلمین کے ڈپٹی جنرل سکریٹری اور ملی یکجہتی کونسل کے مرکزی رہنما حجت الاسلام امین شہیدی، تحریک فیضان اولیا کے جنرل سکریٹری اور ملی یکجہتی کونسل کے ڈپٹی جنرل سکریٹری ثاقب اکبر، جماعت اسلامی کے نائب امیر اور ملی یکجہتی کونسل صوبہ سندھ کے صدر اسد اللہ بھٹو، جماعت اسلامی کے ڈپٹی جنرل سکریٹری ڈاکٹر فرید پراچہ، تنظیم اسلامی کے مرکزی رہنما ایوب خاور، شیعہ علما کونسل پنجاب کے صدر مظہر علوی، ملی یکجہتی کونسل پنجاب کے جنرل سکریٹری محمد خان لغاری، اسلامی نظریاتی کونسل سفارشات کمیشن کے کنوینر ڈاکٹر عابد رؤف اوکرزئی، مولانا عامر صدیق، حاجی ابو شریف، جسٹس نذیر اختر، حافظ محمد ادریس، خلیل قادری ایڈووکیٹ اور دیگر رہنماوں نے شرکت کی ۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے رہنما ملی یکجہتی کونسل علامہ محمد امین شہیدی نے بتایا کہ اتحاد امت اور ہم آہنگی کے لئے کانفرنسز منعقد کی جائیں گی، علمائے اسلام کانفرنس 10 اپریل کو جامعۃ الکوثر اسلام آباد میں ہو گی۔ جس میں ملک بھر کے تمام مکاتب فکر کے جید علماء کرام اور رہنما شریک ہوں گے۔
کونسل نے ممتاز قادری کیس میں فریق بننے کا فیصلہ کیا اور قراردیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس سلسلہ میں جو فیصلہ کیا ہے اس میں بعض ایسے نکات شامل کئے گئے ہیں جس کی زد توہین رسالت کے قانون پر پڑتی ہے، نیز اس فیصلہ میں حجیت حدیث کو محدود کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ فیصلہ کسی بیرونی ڈکٹیشن پر لکھا گیا ہے، کونسل نے اجلاس میں فیصلہ کیا کہ اس سلسلہ میں سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی جائے گی اور اس کی سماعت کے موقع پر حسب ضرورت مختلف مذہبی جماعتیں اور تمام دینی مسالک کے علماء شریک ہوں گے۔ اس سلسلہ میں جسٹس نذیر اختر اور ان کے وکلاکی ٹیم کی کوششوں کو خراج تحسین بھی پیش کیا گیا، نیز فیصلہ کیا گیا کہ میڈیا کے ذمہ داران کی ایک کانفرنس منعقد کی جائے گی جس میں اس کیس کے تمام پہلووں کے بارے میں انہیں اعتماد میں لیا جائے گا۔
اس اجلاس میں پاکستان میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے بارے میں عوام اور علماء سے رابطہ مہم کو فعال تر کرنے کے لئے متعدد فیصلہ جات کئے گئے ۔
کونسل کے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ مشرق وسطیٰ کی صورتحال تشویش ناک ہے۔ سعودی عرب اور یمن کے درمیان تنازعہ کا حل جنگ نہیں مذاکرات او مصالحت ہے۔ پاکستان عالم اسلام کا اہم ترین ملک اور واحد ایٹمی طاقت ہے۔ اسے قائدانہ کردار ادا کرتے ہوئے، یمن سعودی عرب کے مابین تنازعہ کو حل کرنے میں مصالحت کے لئے پیش قدمی کرنی چاہیے ۔ پاکستان کی افواج کو یمن میں مداخلت کے لئے استعمال نہیں کیاجانا چاہئے۔ پاکستان کو چاہئے کہ وہ یمن کے متحارب قبائل سے رابطہ کر کے ان کے مابین ہم آہنگی پیدا کرنے کوشش کرے ۔
علماء اور عوام سے رابطوں کے حوالہ سے اجتماعات اور کانفرنسوں کے انعقاد کا فیصلہ کیا گیا اس سلسلہ میں کونسل کے سینئر نائب صدر حجت الاسلام و المسلمین سید ساجد علی نقوی نے 10 اپریل 2015ء کو اسلام آباد میں «علمائے اسلام کانفرنس » کے انعقاد کا اعلان کیا اور تمام مذہبی جماعتوں کے رہنماوں اور علمائے کرام کو اس میں شرکت کی دعوت دی ۔
کونسل نے حجت الاسلام و المسلمین نقوی کے اس اعلان کا خیرمقدم کرتے ہوئے ان سے بھرپور تعاون کا فیصلہ کیا۔ نیز یہ بھی فیصلہ کیا کہ ایسے ہی اجتماعات ملک کے مختلف صوبوں اور ڈیژنل ہیڈ کوارٹرز پر منعقد کئے جائیں گے۔
حجت الاسلام و المسلمین ساجد نقوی نے بتایا کہ علمائے اسلام کانفرنس امت اسلامیہ میں اتحاد اور ہم آہنگی کے فروغ کے لئے سنگ میل ثابت ہوگی اور اتحاد امت اور ہم آہنگی کے لئے کانفرنسز منعقد کی جائیں گی ۔
اس اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں ملی یکجہتی کونسل کے مرکزی رہنما حجت الاسلام امین شہیدی نے صحافیوں سے گفتگو میں اس بات کی تاکید کرتے ہوئے کہ «علمائے اسلام کانفرنس» امت کے جید علماء کا گلدستہ ہوگا کہا: علمائے اسلام کانفرنس میں مولانا فضل الرحمان، مولانا سمیع الحق، جماعۃ الدعوۃ، جمعیت اہل حدیث، وفاق ہائے مدارس اور دیگر کی آمد متوقع ہے ۔
انہوں نے یہ کہتے ہوئے کہ 10 اپریل کو «علمائے اسلام کانفرنس» کا انعقاد کرکے امت کے مابین اتحاد و ہم آہنگی کو فروغ دیا جائے گا کہا: ضرورت اس امر کی ہے ایسے فیصلے کئے جائیں جو تمام مسالک کے اکابرین کو قابل قبول ہوں۔
حجت الاسلام شہیدی نے یمن کے حوالہ سے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا: اس وقت یمن پر حملہ کیا گیا ہے، یمن نے کسی ملک پر حملہ نہیں کیا۔ حرمین شریفین کا دفاع صرف پاک فوج نہیں بلکہ امت کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ حرمین کا دفاع کرے۔ اس وقت حرمین کے دفاع کا مسئلہ نہیں بلکہ دو مسلمان حکومتوں میں جنگ ہے۔ ہم مسلم امت میں اتحاد چاہتے ہیں، حرمین کو کسی قسم کے خطرات لاحق نہیں، کوئی مسلمان حرمین پر حملہ کے بارے میں سوچ تک نہیں سکتا۔
انہوں نے مزید کہا: حملہ یمنیوں نے کیا ہے یا سعودیوں نے ؟ یمن کی طرف سے اس جارجیت کا تا حال جواب نہیں دیا گیا۔ سعودیہ کی جانب سے یکطرفہ جنگ یمن پر مسلط کی گئی ہے۔ ہم ریاست سے مطالبہ کرتے ہیں کہ جنگ بندی کے لئے اپنا کردار ادا کرے ۔
حجت الاسلام شہیدی نے ایران سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا: ایران مصالحت کار اور ثالث کا کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔ ایرانی سفیر نے امیر جماعت اسلامی سراج الحق کے ساتھ ملاقات کے دوران واضح کیا کہ ایران اس معاملہ میں شریک نہیں۔