رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے رہنما حجت الاسلام ناصر عباس جعفری نے بیان کیا : پاکستان کو یمن معاملہ میں کسی قسم کے غیر ذمہ دارانہ کردار کی بجائے غیر جانبدار رہ کر ثالث کا کردار ادا کرنا چاہیے۔ پاکستان اندرونی طور ایک بڑی جنگ کا شکار ہے۔ مختلف سرحدوں پر فوج درکار ہے۔ یمن جنگ میں حصہ لینے کے بعد ہماری فوج کمزور پڑ جائے گی۔
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا : میڈیا کی بدولت پوری دنیا ایک گاوں کی مانند ہو چکی ہے، اقوام اور ممالک ہمسایوں کی طرح ہو چکے ہیں، دنیا تیزی سے بدل رہی ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد جو نظام لاگو کیا گیا وہ اپنی عمر پوری کرنے کو ہے۔ آج دنیا میں کوئی بھی سپر پاور نہیں ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد دو قطبی بن چکی تھی، لیکن آج ورلڈ پاور موجود ہیں کوئی بھی سپر پاور نہیں۔
حجت الاسلام ناصر عباس جعفری نے کہا : عالمی قوتوں کے بنائے گئے نظام کے اندر مسلم لیڈرشپ ایک مسلم اقلیت کو دی گئی تھی، فرقہ واریت سے بالاتر ہو کر بات کی جائے تو تاریخی طور پر دو مکتبہ فکر تھے، اہل سنت اور اہل تشیع، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جہاں اسلام میں ایک نیا افراطی طبقہ وجود میں آیا، جس نے معاشرے میں سخت گیری کو فروغ دیا، جیسا کہ خوارج اسلامی معاشرے کے اندر پیدا ہوا، جو وقت کے ساتھ اپنا اجتماعی اثر کھو بیٹھے۔ وہابیت کا مرکز سعودی عرب تھا، جسے جہان اسلام کی سربراہی سونپی گئی، انہیں جہان اسلام کا رہبر بنایا گیا۔ دنیا بدل رہی ہے تو وہ طبقہ جو جہان اسلام کو لیڈ کرنے والا طبقہ تھا، وہ بھی کمزور پڑنے لگا ہے۔ اس قوت کو مخصوص مقاصد کے لئے بنایا گیا تھا۔
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے بیان کیا : اہل سنت اور تشیع جو اصل مکاتب ہیں، جن کے آپس میں معاشرتی روابط موجود ہیں۔ امریکہ کے کمزور ہونے کے بعد سعودی عرب بھی کمزور پڑ چکا ہے۔ اب سعودیہ کو اپنی طاقت کے جانے کا خوف ہے جس کے باعث انہوں نے یمن پر حملہ کیا۔ یمن میں اکثریت اہل سنت اور اہل تشیع کی شاخ زیدیہ ہیں۔ وہانی وہاں کم ہیں، داعش اور القاعدہ اور اخوان کی شکل میں ہیں۔ جو قلیل تعداد میں ہیں، سعودیہ چاہتا ہے وہاں اسکی مرضی کا نظام چلے۔
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے رہنما نے بیان کیا : حوثی یمن کی کل آبادی کا چالیس فیصد اور سادات ہیں، ان کی پچاس لاکھ آبادی ہے جو امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) کی اولاد میں سے ہیں۔ وہاں کے اہل سنت شافعی مذہب میں سے ہیں۔ یمن کی سیکیولر فورسز بھی ان کے ساتھ ہیں۔ ان کے مقابل میں القاعدہ اور داعش ہیں۔ حوثیوں کی جماعت انصار اللہ ہے۔ جن کا نعرہ اللہ اکبر، الموت لی اسرائیل، الموت لی امریکہ لکھا ہوا ہے۔
انہوں وضاحت کی : یمن ایک فقیر اور غریب ملک ہے، جس میں سعودیہ نے تفرقہ کرایا۔ 2011 میں علی عبداللہ صالح جو یمن پر گزشتہ طویل عرصہ سے حاکم تھا، خلیج کونسل نے یمنییوں کی مرضی کے خلاف منصور االہادی کو لایا۔ جیسے مصر میں فوج سے ملکر سعودی عرب نے جمہوری حکومت کو گرایا۔ یمن کے اندر خوفزدہ سعودی عرب کا حملہ ہے۔ ان کی آئیڈیالوجی پر حملہ ہے، سالمیت، آزادی پر حملہ ہے۔ منصور الہادی نے ڈیلیور نہیں کیا، اس کے دور حکومت میں القاعدہ کے ذریعہ مسجدوں پر حملے کئے گئے، اس موقع پر حوثی اپنے حق کے لئے اٹھے، حوثیوں نے سعودیہ یا مکہ و مدینہ پر حملہ نہیں کیا۔ یہ مکہ و مدینہ کے محافظ ہیں۔
ناصر عباس جعفری نے تاکید کی : سعودی عرب جارح ہے، حملہ بھی کیا جاتا ہے، اور لوگوں کو مدد کے لئے بھی بلایا جاتا ہے۔ حوثی آج تک مذاکرات کی بات کرتے ہیں۔ لیکن سعودی جنگ چاہتے ہیں۔ اسی سعودیہ کی وجہ سے شام اور پاکستان میں دہشت گردی وجود میں آئی۔ پاکستان کو غیر جانبدار رہ کر ثالث کا کردار ادا کرنا چاہیے۔ پاکستان واحد ایٹمی ملک ہے، اسے غیرذمہ دارانہ کردار کی بجائے غیر جانبدار رہ کر ثالث کا کردار ادا کرے۔ پاکستان اندرونی طور ایک بڑی جنگ کا شکار ہے۔ مختلف سرحدوں پر ہمیں فوج درکار ہے۔ مشرق و مغرب دونوں سرحدوں پر ہمیں فوج درکار ہے۔ یمن جنگ میں حصہ لینے کے بعد ہماری فوج کمزور پڑ جائے گی۔ سعویہ وزیرستان میں لڑنے والی فوج مانگ رہا ہے۔ ہمارا ملک حالت جنگ میں ہے، پھر کیسے ہم کسی دوسرے ملک کی جنگ لڑ سکتے ہیں۔
انہوں نے بیان کیا : فوج بھیجنا ظلم کا ساتھ دینے کے مترادف ہے۔ دین، قانون، اخلاق اس بات کی اجازت نہیں دیتے۔ افغانستان جنگ میں شمولیت کے ثمرات آج تک ہم بھگت رہے ہیں۔ اسرائیل اور سعودیہ ایسے ممالک ہیں جو ہمیشہ جنگ چاہتے ہیں۔ ہمارا یمن جانا اس بات کا ثبوت ہوگا کہ ہم جنگ طلب ہیں، اور جنگ کے شعلوں کو بھڑکانا چاہتے ہیں، جلتی پر تیل کاکام کرنا چاہے ہیں۔ اس جنگ کے شعلوں کو پھر ہم نہیں بجھا سکیں گے۔ اگر یہ مسئلہ حرمین شریفین کا ہے تو عرب لیگ کی بچائے او آئی سی کا اجلاس بلانا چاہیے تھا۔
حجت الاسلام ناصر عباس جعفری نے بیان کیا : یمن سے سعودی عرب نے القاعدہ کے خطرناک دہشت گردوں کو جیلوں سے آزاد کرایا۔ نواز شریف کو جاننا چاہیے، کہ وہ سعودی بادشاہ کی طرح پاکستان کے شاہ نہیں ہیں، کہ وہ بنا سوچے سمجھتے حکم جاری کر دیں۔ مسلمانوں کے مقدس مقامات کو کسی قسم کا خطرہ نہیں، مقدس مقامات کو سعودیہ نے گرایا، داعش نے کعبہ کو گرانے کی دھمکی دی۔ پاکستان اگر اس جنگ کا حصہ بنے گی تو انہیں جوابدہ ہونا پڑے گا، نواز شریف اس کے ذمہ دار ہوں گے۔