رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق گذشتہ شب لوزان میں ایران اور گروپ پانچ جمع ایک کے درمیان ہونے والے مذاکرات اختتام پزیر ہوا جس کے بعد لوزان یونیورسٹی میں پریس کانفرنس کے ذریعہ ایک مشترکہ بیان جاری کیا گیا۔ جس کو ایران کے وزیرخارجہ محمد جواد ظریف اور یورپی یونین کے خارجہ امور کی سربراہ فیڈریکا موگرینی نے پڑھ کر سنایا ۔
اس بیانیہ میں ایران کے جوہری پروگرام پر ہونے والے معاہدے کے فریم ورک کا ذکر تفصیلی طور پر کیا گیا۔ اس معاہدے کے تحت اسلامی جمہوریہ ایران کے تمام جوہری مراکز کی سرگرمیاں من جملہ نطنز، فوردو، اصفہان اور اراک، جاری رہیں گی اور کسی مرکز کی سرگرمیوں میں نہ وقفہ پڑے گا نہ ہی اسے بند کیا جائے گا۔
اس بیانیہ کے مطابق اس معاہدے کے تحت ایران اپنے جوہری توانائی کے مراکز کے لئے صنعتی سطح پر ایندھن کی پیداوار کا سلسلہ جاری رکھے گا۔
اس بیانیہ میں ذکر ہوا ہے کہ ایران کو یہ حق بھی حاصل ہے کہ جوہری ایندھن کے ذخیروں کو عالمی منڈیوں میں فروخت کرے۔
ان مذاکرات میں حاصل شدہ راہ حل کے تحت فوردو جوہری مرکز کی توانائی کی بنیاد پر جدید جوہری تحقیقات کی جائیں گی اور اسٹیبل آئیزوٹوپ کی پیداوار کا کام شروع کردیا جائے گا-
معاہدے کے فریم ورک کے تحت اراک کے بھاری پانی کے ری ایکٹر کی سرگرمیاں جاری رہیں گی اور اس کی ری ڈیزائیننگ کرکے اسکی جدید کاری کی جائے گی۔
معاہدے پر عملدرآمد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے ایران پر عائد شدہ تمام پابندیاں ہٹائے جانے کا سبب ہوگا اور امریکہ اور یورپی ممالک بھی تمام بینکنگ، بیمہ، سرمایہ کاری اور تیل، گیس، پیٹروکیمیکل اور گاڑی بنانے کے شعبوں پر عائد پابندیوں کو ختم کرنے پر مجبور ہوں گے۔
اس معاہدے کے تحت ایرانی اشخاص اور باشندوں، قومی اور نجی اداروں من جملہ ایران کے مرکزی بینک، مالی اور اقتصادی مراکز، سوئفٹ سسٹم، سول ایوی ایشن اور بحری تجارتی مراکز اور تیل کے شعبے پر عائد پابندیوں کو فوری طور پر ہٹا دیا جائے گا اور یورپی یونین کو یہ حق نہیں ہوگا کہ جوہری مسئلے کے بہانے ایران پر کوئی نئی پابندی عائد کرے۔