رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، قائد ملت جعفریہ پاکستان حجت الاسلام و المسلمین سید ساجد علی نقوی نے امام بارگاہ حیدر روڈ واہ کینٹ میں میڈیا سے خصوصی نشست کے دوران کہا: ہم اتحاد بین المسلمین کے داعی نہیں بانیوں میں سے ہیں ۔
انہوں نے یہ کہتے ہوئے کہ دہشتگردانہ کارروائیوں میں کوئی مسلک ملوث نہیں اور نہ ہی شیعہ سنی کا ملک میں کوئی مسئلہ، کراچی ایک مدت سے دہشتگردی کی لپیٹ میں ہے کہا: زمینی حقائق کو مدنظر رکھ کر جب تک دہشتگردی کے خلاف مربوط کارروائی نہیں ہوتی مثبت نتائج برآمد نہیں ہونگے۔
قائد ملت جعفریہ پاکستان نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ نیشنل ایکشن پلان کے بعد بھی دہشتگردی کے قلع قمع میں پیش رفت نہ ہوسکی، دہشتگردوں کی پشت پناہی کون کر رہا ہے اور کون لوگ سہولت کاروں کا کردار ادا کر رہے ہیں کہا: حقائق عوام کے سامنے نہیں لائے جاتے، حکومت بالکل بے بس ہے، ملک میں عدم استحکام پیدا کرنے والے زیادہ طاقتور ہیں، حکومت کی کمزور پالیساں ملک کو تباہی کی طرف دھکیل رہی ہیں ۔
انہوں نے مزید کہا: فوجی عدالتوں کا کوئی کردار سامنے نہیں آیا، سنگین جرائم میں ملوث افراد کو بلاتفریق سزائیں ملنا چاہئیں، ہم کسی بھی مسلح کارروائی اور جدوجہد کی مکمل نفی کرتے ہیں، کارکنان کے صبر کو نہ آزمایا جائے، اگر مجبور کیا گیا تو دوسرا راستہ بھی اختیار کیا جاسکتا ہے ۔
حجت الاسلام والمسلمین نقوی نے اس بات کی تاکید کرتے ہوئے کہ ہم سسٹم کو مضبوط اور توانا دیکھنا چاہتے ہیں، آرمی چیف کے بیان کے بعد کہ ہم دہشتگردوں کا پیچھا کریں گے، اور آنے والی نسلوں کو پرامن پاکستان دیں گے، ہم منتظر ہیں کہ اس سلسلے میں ٹھوس اقدامات ہوں، تاکہ سسٹم بھی بچ جائے اور پاکستان کی داخلی سلامتی کو جو خطرات لاحق ہیں انکا بھی تدارک ہو، اور لوگوں کو سکھ کا سانس نصیب ہو کہا : جب تک ملک کے آئین پر عمل نہیں ہوگا، قانون کی حکمرانی نہیں ہوگی اور ذمہ داریوں کا تعین نہیں ہوگا، اس وقت تک ملکی صورتحال جوں کی توں رہے گی، گو کہ جمہوری اداروں اور فوجی عدالتوں کا کوئی جوڑ نہیں بنتا، تاہم اب ایک قانون بن گیا، جس کو ہم بھی مانتے ہیں، اگر حکمران امن چاہتے ہیں تو سنگین وارداتواں میں ملوث افراد کو ہر صورت قانون کے کٹہرے میں لانا ہوگا، سیاسی عدم استحکام سے ایسے عناصر کو موقع ملے گا کہ وہ ملک پر اپنا تسلط قائم کریں، انکا کہنا تھا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد ہونا چایئے۔
اسلامی تحریک کے سربراہ نے یہ کہتے ہوئے کہ کارکنان نعشیں اٹھا اٹھا کر تھک چکے ہیں، ان کے اندر مایوسی پھیل رہی ہے، اس کے باوجود ہم پرامن ہیں کیونکہ ملکی حالات اس بات کے متحمل نہیں ہیں کہ ہم کسی مسلح اقدام کے ذریعے اس راستے کو روکیں کہا: سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ جو بھی پرامن جدوجہد کو سبوتاژ کرتا ہے، جماعتی اصولوں سے انحراف کرتا ہے تو اسکے خلاف کارروائی ہونی چایئے، سیاسی جماعتوں کو خود اسکا ادراک ہونا چاہئے۔
انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ یہ حکمران طبقہ کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں نے انہیں جو مینڈیٹ دیا، اسکا احترام کریں اور لوگوں کو انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے ٹھوس اقدامات کریں کہا: حکومت کو کرپشن، بیروزگاری کے خاتمہ پر توجہ دینی ہوگی، لا اینڈ آرڈر کی صورتحال کی بہتری حکومت کی اولین ترجیحات ہونی چاہئے، اگر ٹھوس اقدامات نہ کئے گئے تو عوام ان حکمرانوں کا بھرپور احتساب کریں گے جن کی وجہ سے انھیں اقتدار ملا ۔
حجت الاسلام و المسلمین نقوی نے اس بات کی تاکید کرتے ہوئے کہ اہل تشیع کے خلاف متعدد مرتبہ دہشتگردی کی کارروائیاں ہوئی، چٹی ہٹیاں راولپنڈی، شکار پور، امامیہ مسجد پشاور، قصر سکینہ میں چار واقعات تسلسل کے ساتھ ہوئے، ان کے اصل حقائق کو منظر عام پر نہیں لایا گیا، کون سا نیٹ روک تھا، سہولت کار کون تھے، ان تمام حقائق کو پوشیدہ رکھا گیا کہا: ہم اتحاد بین المسلمین اور فرقہ واریت کے خاتمہ کے داعی نہیں بلکہ بانیوں میں سے ہیں، اور واضح کردینا چاہتے ہیں کہ دہشتگردانہ کارروائیوں میں کوئی مسلک ملوث نہیں اور نہ ہی شیعہ سنی کا ملک میں کوئی مسئلہ ہے، کراچی ایک مدت سے دہشتگردی کی لپیٹ میں ہے، زمینی حقائق کو مدنظر رکھ کر جب تک دہشتگردی کے خلاف مربوط کارروائی نہیں ہوتی مثبت نتائج برآمد نہیں ہونگے۔