تحریر: حجت الاسلام ڈاکٹر شفقت شیرازی
انسانیت کی تاریخ پر اگر نگاه ڈالیں تو وہ آپ کو جنگ و جدال کے واقعات سے بهری نظر آئے گی۔ انسان کے دل میں اگر خوف خدا نہ رہے اور اسکے پاس قوت و قدرت کے وسائل اکٹھے ہوجائیں تو وه سرکش، ظالم اور باغی ہو جاتا ہے۔ تاریخ نے وه ادوار بهی دیکهے، جب یہ ناتوان انسان غرور و تکبر میں اتنا آگے بڑھ گیا کہ "انا ربکم الاعلى" کا دعویٰ کر دیا۔ لیکن تاریخ نے جب اپنا رخ بدلا تو نہ نمرود رہے، نہ فرعون، سب خس و خاشاک کی طرح بہ گئے۔ کائنات کے خالق حقیقی نے انہیں فتنوں سے اپنے بندوں کا امتحان بهی لیا اور حق و باطل کے ان معرکوں میں مختلف افراد اور گروہوں کی حقیقت اور اصلیت عیاں ہوتی گئی کہ کون حق کے ساتھ ہے، کون ظلم و جور اور طغیان کا ساتھ دینے والا ہے اور اپنی ذاتی اور وقتی مصلحتوں کے عوض اپنی توقیر و اقدار اور دین کا سودا کرتا ہے۔ جارحیت کا جواز باغیوں نے کبهی نسل و قوم و ملت کی بالادستی قرار دیا تو کبهی دین و مذہب کا غلبہ۔
آج ایک بار پهر عالم مشرق میں جہان زیاده آبادی مسلمانوں کی ہے، وہاں پر مغربی استعماری قوتوں نے اپنے پٹھو حکمرانوں کے ذریعے ایک خوفناک مذہبی جنگ کا نقشہ کهینچا ہے اور وه چاہتے ہیں کہ اسکا ایندھن خطے کے شیعہ اور سنی مسلمان ہوں۔ ایک طرف امریکہ، غرب، اسرائیل اور انکی سیاست پر عمل کرنے والے خطے کے ممالک ہیں، جنہوں نے مذہبی جنونیت، تکفیر اور طاقت و غلبہ کی روایات کو جنم بخشا ہے۔ دوسری طرف مزاحمت اور مقاومت کا بلاک ہے، جسے صیہونی و امریکی بالادستی گوارا نہیں اور یہ بلاک وسائل کی قلت کے باوجود حکمت و برداشت، صبر و تحمل اور لاجک و منطق سے فقط مقابلہ ہی نہیں کر رہا بلکہ اس کی مقبولیت اور طاقت میں اضافہ ہو رہا ہے، کیونکہ اس مقاومت کے بلاک کا محور و مرکز ایران ہے۔ مکار دشمن نے طے کیا ہے کہ اس کا مقابلہ مذہبی فتنوں سے کیا جائے اور ارض مقدس حجاز پر مسلط کرده خاندان کہ جنہوں نے امریکہ اور غرب سے وفاداری اور اسرائیل کی قیام و حفاظت کی ذمہ داری کے عہد پر حکومت حاصل کی ہے، وه اس وقت سالانہ اربوں اور کهربوں ڈالرز فتنہ تکفیر پر خرچ کر رہے ہیں اور متشدد مذہبی جنونی لشکر جہان اسلام میں تشکیل دیئے ہیں، لیکن ظلم یہ ہے کہ الله تبارک و تعالٰى اور قرآن و اسلام کے نام پر دین اسلام کو بدنام اور مخلوق خدا کو بے دریغ ذبح کر رہے ہیں۔
اسلام کے دو مضبوط بازو اہل سنت اور اہل تشیع ہیں، یہ اسلام کے نام نہاد ٹهیکیدار تکفیری، مسلمانوں کو کمزور کرنے کیلئے اہل سنت کو مشرک اور اہل تشیع کو على الاعلان کافر کہتے ہیں۔ چونکہ مسلمانوں کی اکثریت اہل سنت ہیں، تو اس نومولود تکفیریت و سلفیت نے اپنے آپ کو اہل سنت کا نمائنده قرار دیا ہے، حالانکہ انکی تعداد حقیقی اہل سنت کے مقابلہ میں بہت کم ہے۔ یہ بهی حقیقت ہے کہ پوری دنیا میں پائے جانے والے نام نہاد جہادی اور دہشتگرد گروه اسے تکفیری اور سلفی سوچ کی ہی پیداوار ہیں۔ انہوں نے لیبیا میں لاکهوں اہل سنت کو قتل کیا۔ شام کی 70% سے زیاده آبادی اہل سنت کی ہے اور وہاں پر انہوں نے لاکهوں اہل سنت کو قتل کیا ہے۔ عراق و یمن میں بهی مختلف اہل سنت کے علاقوں پر قبضہ حاصل کرنے کیلئے انہوں نے ہزاروں اہل سنت کو ذبح کیا۔ جب تک داعش شیعہ و سنی مسلمانوں کو قتل کرتی رہی تو امریکہ و غرب انکی حمایت کرتا رہا اور اسلحہ بهی دیتا رہا اور امریکہ نواز خلیجی ممالک بهی ہر لحاظ سے انکی مدد کرتے رہے۔ جب حملہ فرانس پر ہوا اور مغرب و امریکہ تک دہشتگردی کی آگ کے شعلے پہنچے تو جان کیری نے آل سعود کے لئے فرمان جاری کیا کہ "داعش اور ہمارے ہر مخالف ملک کے خلاف ایک اسلامی اتحاد بنایا جائے۔"
سعودی حکمرانوں نے اس اتحاد کی تشکیل کے لئے اسلامی ممالک کا اجلاس بلانے کی بهی تکلیف گوارا نہیں کی اور 34 اسلامی ممالک کے اتحاد کا اعلان کر دیا۔ اگر یہ اتحاد واقعاً داعش کے خلاف بنایا گیا ہوتا تو وه ممالک جو اس وقت عملی طور پر داعش سے لڑ رہے ہیں، انکو بهی دعوت دی گئی ہوتی، لیکن یہ اتحاد تشکیل دینے والوں کا مقصد جنگ کا خاتمہ نہیں بلکہ اس جاری جنگ کو طول دینا ہے۔ اسی لئے تو امریکہ نے اعلان کیا کہ یہ اتحاد ہماری توقعات کے عین مطابق ہے۔
دوسری طرف مصر کے مشہور اسکالر اور رائیٹر محمد حسنین هیکل نے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ کیسا اتحاد ہے کہ جس کے سب ممبران کے ظاہری پر یا باطنی طور پر اسرائیل سے تعلقات ہیں۔ اے کاش سعودیہ بیت المقدس کی آزادی اور مظلوم فلسطینی عوام کے لئے اسرائیل کیخلاف اتحاد کا اعلان کرتا۔ اے کاش یمن میں بیگناه عوام کے قتل اور اس ملک پر چڑھائی کی بجائے صیہونی حکومت پر چڑھائی کرتا، اے کاش داعش، القاعدہ و طالبان سمیت مسلح گروہوں کی بجائے فلسطینی جہادی گروہوں کو جدید ترین اسلحہ دیتا اور ان کی مالی مدد کرتا۔
بین الاقوامی میڈیا میں یہ خبر بهی عام ہوچکی ہے کہ یہ اسلامی ممالک کا اتحاد نہیں ہے بلکہ امریکہ کے کہنے پر سعودیہ نے سنی ممالک کا اتحاد بنایا ہے۔ اسی لئے ایران و عراق و شام کو اس اتحاد سے خارج رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ اس اتحاد سے ان تمام اسلامی ممالک میں جہاں اہل سنت کے مختلف مذاہب اور اہل تشیع اکٹھے زندگی بسر کر رہے ہیں، وہاں پر ایک نیا فتنہ جنم لے گا۔ مثلاً پاکستان میں اکثریت اہل سنت کی ہے، ان میں بهی بهاری اکثریت بریلوی اور صوفی مذهب کے ہیروکاروں کی ہے اور وه کبهی بهی آل سعود اور سلفیت و وہابیت کو قبول نہیں کرتے۔ پھر مسلمانوں کی دوسری اکثریت اہل تشیع ہیں، جنکے خلاف لڑنے کے لئے یہ اتحاد بنایا گیا ہے تو باکستان کی اکثریتی عوام اس کی ہرگز حمایت نہیں کرسکتی۔
پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے، شیعہ اور سنی ریاست نہیں، اور نہ ہی اسے بانیان نے اسے شیعہ یا سنی اسٹیٹ بنایا تها۔ حکومت پاکستان کو اس اتحاد میں شامل ہونے یا نہ ہونے پر بہت غور و فکر اور تامل کرنا ہوگا۔ وزارت خارجہ کے متضاد بیانوں میں سنجیدگی نظر نہیں آرہی اور حکمرانوں کو معلوم ہونا چاہیئے کہ پاکستانی عوام پاکستان کو اسلامی جمهوریہ پاکستان ہی رکهنا چاہتی ہے، نہ کہ سنی پاکستان اور نہ شیعہ ہی پاکستان۔ اگر کوئی گروه آج اپنی سیاسی و عسکری طاقت کے گھمنڈ میں آکر پاکستان کو ڈی ٹریک کرنا چاہے گا تو وه اس مادر وطن سے تاریخی خیانت کا مرتکب ہوگا اور اس سرزمین کے وفادار بیٹے ایسے لوگوں کو ہرگز معاف نہیں کریں گے۔