رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر کی رپورٹ کے مطابق امام خمینی (رح) تعلیمی و تحقیقی ادارہ کے سربراہ آیت الله محمد تقی مصباح یزدی نے ایران کے مقدس شہر قم میں قائد انقلاب اسلامی کے قم آفس میں منعقدہ ہفتگی درس اخلاق میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وفات کے بعد پیش آئے خطرناک حادثہ اور خلفا کے سلسلہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بیان کیا : اس زمانہ میں جو بری رسم کا آغاز ہوا خلیفہ کشی تھا اور اس کے بعد عوام تین خلیفہ کے زمانہ میں اپنی زندگی گزارنے کے بعد امیر المومنین علی علیہ السلام کے پاس آئے ۔
انہوں نے اپنی گفت و گو کو جاری رکھتے ہوئے بیان کیا : لوگ مکھی و ٹڈی کی طرح حضرت علی علیہ السلام کے آس پاس اکٹھا ہو گئے جس کے سلسلہ میں نہج البلاغہ میں عجیب تعبیر بیان کی گئی ہے کہ نہج البلاغہ کے شارحین اس عبارت کی تفسیر میں اختلاف سے رو برو ہوئے ہیں ؛ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں : اس طرح لوگ خلافت کے لئے مجھ کو قائل کرنے کی غرض سے میرے پاس جمع ہوگئے کہ نزدیک تھا کہ حسن و حسین علیہم السلام ہاتھ و پیر سے دوند دئے جاتے اور میرا لباس و عبا بھی پھٹ گیا تھا ۔
امام خمینی (رح) تعلیمی و تحقیقی ادارہ کے سربراہ نے حضرت علی علیہ السلام سے بیعت کے بعد لوگوں کی جلد مخالفت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بیان کیا : بہت ہی عجیب سی بات ہے کہ یہی لوگ کچھ روز پہلے اس قدر ہجوم کے ساتھ حضرت علی علیہ السلام سے بیعت کی اور اب ان پر شمشیر کھینچ رہے ہیں اور ان کو قتل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ، اس بنا پر اس امر کے فلسفہ کو مشخص ہونا چاہیئے ۔
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا : نمونہ کے طور پر ایک شخص جس نے حضرت علی علیہ السلام کے مقابلے میں کھڑا ہوا اور اپنی بیعت توڑ دی اور جنگ جمل شروع کی وہ زبیر بن عوام ہے ؛ زبیر وہ شخص ہے کہ پیغمبر (ص) نے اس کے شمشیر کے لئے دعا کی ، وہ شخص ہے کہ سقیفہ میں حاضر نہیں ہوا ، بنی ہاشم خاندان کا بزرگ تھا اور اس قدر منزلت رکھتے تھے کہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا نے امیر المومنین علی علیہ السلام سے فرمایا کہ اگر آپ ہماری وصیت پر عمل نہیں کر پائے نگے تو زبیر سے کہ دیجیئے گا ، آخر اب یہ کیسے ہو گیا کہ اس کا کام اس حد تک تنزل پا گیا ۔