رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایران کلچر ہاوس لاہور میں میلاد مصطفی(ع) اور ہفتہ وحدت کی مناسبت سے منعقد ہونے والے سیمینار میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے معروف اسکالرز ایران کلچر ہاوس لاہورکے جنرل ڈائریکٹر اکبر برخورداری، قونصل جنرل ایران محمد حسین بنی اسدی، مولانا راغب نعیمی، آغا شاہ حسین قزلباش، پیر معصوم حسین نقوی، پیر جان شاہ، دیوان عثمان فرید، شفیق رضا قادری، لیاقت حسین شمسی، ناصر شیرازی، ظہیر الحسن شاہ نقوی، پیر سید مصطفیٰ اشرف رضوی، سردار جنم سنگھ، سید نصار صفدر، علامہ رائے مزمل سمیت دیگر رہنماؤں نے شرکت کی اور سیرت نبوی(ع) پر روشنی ڈالی۔
جمعیت علما پاکستان نیازی کے سربراہ نے کہتے ہوئے کہ اتحاد امت ہی عالم اسلام کے مسائل کا واحد حل ہے کہا: فرقہ واریت اور دہشتگردی نے مسلمانوں کی قوت کو کمزور کیا، تکفیریت اسرائیل اور امریکہ کا پرورش کردہ ایسا بچھو ہے جس نے نفرت کے بیج بوئے، طالبان اور داعش جیسی تنظیموں کو تیار کرکے مسلمانوں کو قتل اور اسلام کاچہرہ مسخ کرنے کی سازش کی گئی ۔
انہوں نےمزید کہا: انتہا پسندی کو ختم کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے، تمام مسلم مذاہب کو ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد قائم کرنا چاہئے ۔
پیر معصوم نقوی نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ مسلمانوں کے مسالک کے درمیان اختلافات تاریخی اور اصولی ہیں، یہ آئندہ بھی جاری رہیں گے کہا: ہمیں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی حیات طیبہ سے سبق سیکھتے ہوئے باہمی احترام کو برقرار رکھنا اور ایک دوسرے کے مقدسات کا احترام کرنا چاہئے ۔
انہوں نے رھبر معظم انقلاب اسلامی ایران حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای کے اہل سنت کے شعائر کی توہین کو حرام قرار دینے کے فتوے کو سراہتے ہوئے کہا : شیعہ سنی کے درمیان اتحاد اور احترام کی سوچ کو پروان چڑھایا جائے گا تو غلط فہمیاں دور اور قربتیں بڑھیں گی۔ انہوں نے واضح کیا کہ اہل سنت اور اہل تشیع کے درمیان اصولی اختلاف کے ساتھ مشترکات بھی موجود ہیں، انہیں فروغ دے کر غلط فہمیوں کا ازالہ کرسکتے ہیں ۔
انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ جہالت کی وجہ اور مطالعہ کی کمی کے ساتھ ناخواندہ مقررین کا بھی فرقہ واریت کو ہوا دینے میں بڑا کردار ہے، اس کے خلاف عالم اسلام کی قیادت کو متوجہ ہونے کی ضرورت ہے کہا: شیعہ سنی اسلام کے دو بازو ہیں، ان میں اختلافات کا ہونا فطری اور تاریخی ہے، جنہیں ختم تو نہیں کیا جاسکتا لیکن باہمی احترام کی فضا کو قائم کرکے اتحاد کا عملی مظاہرہ کیا جا سکتا ہے۔
پیر معصوم نقوی نے اپنے حالیہ دورہ ایران کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ علماء کی قیادت نے ثابت کردیا ہے کہ اسلام کی تعلیمات کو نافذ کیسے کیا جاسکتا ہے اور دنیا کفر کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے کہا: باقی اسلامی ممالک کو بھی نفاذ اسلام کے لئے ایران کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہئے، جہاں بندوق اور بم دھماکوں کے زور پر نہیں، ووٹ کے ذریعے اسلام نافذ کیا گیا۔ یہاں بادشاہت نہیں، انتخاب کے ذریعے بننے والا سیاسی نظام ہے، جو کہ عرب ممالک کے لئے بھی قابل تقلید ہے۔
انہوں نے یہ کہتے ہوئے کہ رسول اکرم(ص) کے اہل بیت(ع) سے محبت کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوسکتا، اس میں اہل سنت اہل تشیع سے کسی طور کم نہیں، جو بھی رسول(ص) کا امتی ہے، وہ اہل بیت کا غلام ہے کہا: دونوں مسالک کے لوگوں کو قریب لانے کے لئے ہمیں مشترکہ اجتماعات منعقد کرنے چاہیں، اس سے مشترکات کو فروغ ملے گا اور غلط فہمیوں کا ازالہ ہوگا۔
جمعیت علما پاکستان نیازی کے سربراہ نے یہ کہتے ہوئے کہ ماضی میں دونوں مکاتب فکر کے درمیان اسی برصغیر میں مناظرے بھی ہوتے رہے، مگر کبھی قتل و غارت گری نہیں ہوئی، فرقہ واریت کے نام پر دہشتگردی کا آغاز جنرل ضیا الحق کے دور میں ہوا کہا: ایک گروہ کو مقدس شخصیات کے نام پر تیار کیا گیا، پھر دنیا نے دیکھا کہ خارجی ٹولے نے باقاعدہ مسلح جتھوں کی شکل اختیار کرلی اور بات امام بارگاہوں اور ماتمی جلوسوں پر حملوں سے آگے نکل کر مساجد اور مزارات اولیا پر بم دھماکوں تک جا پہنچی، پھر اس ٹولے سے فوج کے افسران اور جوان، مارکیٹیں، تعلیمی ادارے بھی محفوظ نہ رہے، یہ ٹولہ قائداعظم کو کافر اعظم قرار دیتا اور اس کے پاکستان کی پہلے مخالفت کرتا رہا اور اب اس کی سالمیت کو چیلنج کر رہا ہے، فوج اور قوم ان کیخلاف اکٹھی ہو گئی ہے، انشا اللہ انہیں تباہ کرکے دم لیں گے۔