رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، شیخ الازهرمصر شیخ احمد الطیب نے اپنی تقریر میں تاکید کی : الازهر نے سن 1060 میں تاسیس کے بعد سے آج تک اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ مںصفانہ برتاو کیا ہے اور متعادل موقف اپنایا ہے ، اس مرکز نے 10 قرن سے بھی زیادہ اپنی فعالیت میں کسی خاص مذھب و مکتب اسلامی کے حوالے تعصب آمیز برتاو نہیں کیا ، اس نے خود کو مذهبی کشمکش سے دور رکھ رکھا ہے ۔
الطیب نے کہا: ہم کوشش کرتے ہیں کہ طلباء کی اسلامی آئین و اصولوں کی بنیاد پر تربیت کریں اور اسی بنیاد پر الازھر کسی بھی اسلامی مذھب کی تکفیر نہیں کرتا ۔
انہوں نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ ان دنوں سماجی میڈیا ہمیں اور ہمارے تعلیمی متن کو دھشت گردی اور شدت پشندی کی تربیت کا الزام لگاتے ہیں کہا: الازھر کے طلباء کا شدت پسندی سے کوئی تعلق نہیں ، میں خود جو ایک عرصہ سے الازھر میں مشغول ہوں میں نے الازھرمیں کوئی ایسا متن نہیں دیکھا ۔
الطیب نے مزید کہا: الازھر نے تمام مذاھب اسلامی کو قانونی حیثیت دیا ہے ، اور اپنے طلبا کو تمام اسلامی مذاھب کے افکار و نظریات سے آشنا کراتا ہے ، اس یونیورسٹی میں مذھب امامیہ کے سلسلے میں پی ایچ ڈی کی کئی تھیچس لکھی گئی اور ہم نے شیعہ علماء کے نظریات پر غور و خوض و بحث و گفتگو کیا ، الازھر کی طنیت یہ ہے کہ کسی مذھب کے ماننے والوں کی تکفیر نہ کی جائے ، ہم معتقد ہیں کہ کلمہ پڑھنے والا ھر انسان مسلمان ہے ۔
انہوں نے کہا کہ آخر میں کہا: بعض شیعہ علماء نے اھل سنت کی تکفیر کی ہے اور بعض اصحاب کو مرتد جانتے ہیں ۔