رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق عزاداری واقعہ کربلا کی یاد منانے کو کہتے ہیں اور اپنے واجب الاحترام بزرگوں کی یاد منانا اور ان کے عظیم کاموں کا تذکرہ کرنا زندہ قوموں کی علامت ہے یہ ایک فطری عمل ہے اور اسکی مخالفت فطرت کی مخالفت ہے اس لئے کہ وہ قومیں جو کسی دین و مذہب سے تعلق نہیں رکھتیں اور وہ قومیں جو کسی نہ کسی مذہب کی دعوے دار ہیں،سب اس نقطہ عمل پر متفق ہیں کہ اگر کوئی بزرگ قوم ان میں سے اٹھ جائے ، یا کوئی بڑا واقعہ رونما ہوجائے تو اسکی یادگار قائم کردی جائے اور یہ فطرت انسانی کا فیصلہ ہے۔خدا نے اسی اصول پر عمل کرتے ہوئے اہم واقعات کی یادگاریں دنیا کیلئے چھوڑ دی ہیں۔
1۔قتل نفس کی حرمت ، قابیل کے ہاتھوں ہابیل کے قتل کی یادگار ہے
2۔روزہ ،آدم علیہ السلام کی داستان کی یادگار ہے
3۔ حج کے بیشر احکام کسی نہ کسی واقعہ کی یادگار ہے
4۔ عید الاضحی کے دن قربانی،واقعہ ذبح اسمٰعیل کی یادگار ہے
5۔ سنہ ہجری ،ہجرت نبی کی یادگار ہے
6۔اسی طرح کربلا کی یادگار بھی عزاداری کے عنوان سے قائم کی گئی ہے اوریہ عمل فطرت کے عین مطابق ہے اس لئے عزاداری کی مخالفت در حقیقت فطرت کی مخالفت ہے ۔
رسول کے پیاسے نواسے نے اپنی جان اسلام پر نثار کردی ہے۔مسلمانوں کا سب سے بڑا فرض ہے کہ ان کی یادگار قائم رکھیں ،اس میں خدا کی خوشی ہے ،رسول کی مرضی ہے ،ایک مسلک کی مواسات اور ہمدرردی ہے ،اسلام پر قربانی کی ایک عظیم تعلیم اور عالم کے بہترین ایثار کی ایک سچی تصویر ہے۔مسلمان حسین کے احسان مند ہیں،اور اس بار سے سر نہیں اٹھاسکتے۔
لیکن افسوس مسلمانوں کی ایک جماعت احسان شناسی کا ثبوت دیتے ہوئے عزاداری کو فروغ دینے کے بجائے ہر سال مومنین کو اس مقدس عمل سے روکنے میں لگی رہتی ہے اور طرح طرح کے شبہات سے ان کے اذہان کو مشوش کرتی ہے یہاں ہم صرف چند ایک شبہات اور اس کے مختصر جوابات پر اکتفا کرتے ہیں:
1۔عزاداری بدعت ہے
جواب:بدعت ہر تازہ چیز کو کہتے ہیں اور اس کا ناجائز ہونا لازم نہیں بلکہ وہ کبھی واجب و مستحب بھی ہوتی ہے۔
2۔ میت پر نوحہ و زاری کرنا ناجائز ،اور ان پر رونا حرام ہے اس لئے کہ پیغمبر نے فرمایا میت پر اس کے اہل قرابت کے رونے سے عذاب ہوتا ہے۔
جواب: اس کے مخالف احادیث خود صحیح بخاری میں موجود ہیں اور جناب عائشہ نے صاف فرمایا ہے کہ حضرت رسول نے کھبی یہ نہیں فرمایا کہ مومن پر اس کے اہل قرابت کے رونے سے عذاب ہوتا ہے بلکہ ایک یہودیہ پر اس کے اعزاء رورہے تھے تو حضرت نے فرمایا کہ یہ لوگ رورہے ہیں ،اور اس پر قبر میں عذاب ہو رہا ہے ۔راوی صاحب کو اشتباہ ہوا اور انہوں نے اسے مومنین سے متعلق کردیا۔
3۔ تعزیہ بنانا حرام ہے کیونکہ تصویر بنانا حرام ہے
جواب : تعزیہ در اصل روضہ سید الشہدا کی نقل ہے اس لئے وہابی کہتے ہیں کہ کسی چیز کی تصویر بنانا حرام ہے جبکہ تعزیہ میں نہ کوئی بدعت محرمہ ہونے کا شائبہ ہے اور نہ تصویر ہونے کی حیثیت سے حرمت کا شائبہ ہےاس لئےکہ غیر ذی روح کی تصویر باجماع امت جائز ہے ۔
حقیقت میں تعزیہ کی مخالفت اس لئے کی گئی اور آج بھی کی جارہی ہے کہ مسلمانوں کے دل سے تعزیہ کی اہمیت کم کی جائے تاکہ اگر اصل مشاہد کے وقار کو کوئی صدمہ پہونچایا جائے تو اس کی کوئی اہمیت معلوم نہ ہو۔ تعزیہ داری کی مخالفت در حقیقت خفیہ سازش اور مصائب حجاز کا پیش خیمہ اور تمہید تھی اور آج بھی یہی ہے ۔۔ابن سعود کے حامیوں نے پہلے تعزیہ داری کی مخالفت کی اور جب حجاز میں مشاہد مشرفہ کو نشانہ بنایا گیا تو اس وقت بھی اس کی حمایت میں پیش پیش رہے ۔بھلا وہ لوگ جو انبیاء و ائمہ و اہلبیت رسول علیہم السلام کے خود مشاہد کو قابل احترام نہیں سمجھتے اور ان کے انہدام کو سن کر خوش ہوتے ہیں ،بلکہ نعرہ تحسین و آفریں سے دل بڑھاتے اور ہزارہا صفحات اس کی تائید میں مثل اپنے نامہ اعمال کے سیاہ کرتے ہیں ان سے کیا تعجب ہے کہ وہ تعزیہ کے مٹانےکے در پے ہوں اور اس پر عمل کریں ایسے لوگوں کے دعوائے اسلام پر اسلام آٹھ آٹھ آنسو روتا ہے ۔
4۔مشاہد مشرفہ کی تعظیم کفر و شرک ہے اور جو لوگ ان کی تعظیم و زیارت کرتے ہیں وہ واجب القتل اور مہدور الدم ہیں
جواب: تعزیہ در اصل روضہ سید الشہدا کی نقل ہے خود مشاہد ائمہ معصومین علیہم السلام کو متبرک و قابل تعظیم ماننے کے بعد ان کی نقل فطرۃ قابل تعظیم ہوجاتی ہے۔ جس طرح کعبہ ایک مخصوص گھر ہے ،مگر ہزارہا فرسخ دور جو نقل اس کی مسجد کے عنوان سے بنائی جاتی ہے وہ بھی خاص تعظیمی احکام رکھتی ہے۔ چونکہ یہ بد باطن وہابی مشاہد مشرفہ کی اصل تعظیم کے مخالف ہیں اس لئے تعزیہ کی تعظیم پر بھی کفر وشرک کا حکم لگاتے ہیں ۔
5۔تعزیہ بنانا اقتصادی نقطہ نظر سے مضر ہے
جواب:جب تعزیہ شرعی رجحان سے ثابت ہے تو اس کے اقتصادی حیثیت سے اعتراض کی کوئی وجہ نہیں اپنے ذاتی مشاغل اور فضول کاموں میں جو لوگ ہزاروں روپیہ صرف کرنا کوئی بات نہیں سمجھتے کسی کار خیر میں اگر کچھ روپیہ لگادیں تو اس میں کون سا اقتصادی ضرر ہے۔
یہ تو تھے مخالفین کے شبہات اور ہمارے جوابات لیکن اب خود ہمارے ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ اس عزاداری کا اصل مقصد کیا ہے اور حقیقی عزادار کون ہے؟
عزاداری کا اصل مقصد یہ ہے کہ جس راستے میں انہوں نے جان دی جس مقصد کی خاطر انہوں نے اپنا گھر بار لٹادیا اور جس راہ میں انہوں نے ظاہری عزت و آبرو تک کو عزیز نہ کیا اس راستہ کو ہم سمجھیں اور چلتے رہنے کی کوشش کریں ،ان کے مقصد کو جانیں اور عملا اس کے محافظ ہوں جو امام حسین کے مقصد شہادت کو جانے اور اس کا عملا محافظ ہو کیونکہ محبت کسوٹی اطاعت ہے الفت شعاری اگر اطاعت کے ساتھ ہے توحق محبت ادا ہوگا ورنہ زبانی دعوائے محبت کرنے والے بہت ہیں ہم جو امام حسین کے جاں نثار فداکار اور شیدائی ہونے کے دعویدار ہیں ہم کس قدر عزائے حسین سے متاثر ہوئے ؟ ہم میں کتنی ہمت اور کتنا جوش عمل پیدا ہوا ؟خدا کرے رفتہ رفتہ گفتار کے ساتھ کردار بھی سازگار ہو ۔