تحریر: ڈاکٹر حجت الاسلام سید شفقت شیرازی
1۔ انقلاب اسلامی ایران شجره طیبہ کی مانند ہے، اس کی اصل اور بنیادیں حقیقی و محمدی اسلام کے نورانی سرچشمہ سے متصل ہیں، جس شجره طیبہ کی آبیاری قرآن و سنت کی تعلیمات، سیرت انبیاء کرام اور اہلبیت علیهم السلام سے ہو تو پھر لازم ہے کہ ہر زمانے کی شیطانی قوتیں اس سے خوفزده ہوں اور ہدایت کے اس چراغ کو بجھانے کی سازشیں کرتی رہیں۔
2۔ یہ عالمی اسلامی انقلاب ہے کیونکہ اسکا منبع اور سرچشمہ قرآن و سنت ہے، قرآن و سنت پر ایمان رکهنے والے پوری دنیا میں بستے ہیں، دنیا کے بہت سے ممالک میں قرآن و سنت کے ان پیروکاروں کی اکثریت ہے، اس انقلاب کی مسلسل 36 سالہ کامیابیوں اور ہر میدان میں ترقی سے ثابت ہوچکا ہے کہ اسلام آج بھی زنده اور مکمل نظام حیات ہے، اس کے سنہری اصولوں پر عمل پیرا ہوکر آج بهی مسلمان دنیا خوشحال زندگی بسر کرسکتے ہیں، انہیں مشرق و مغرب کے لادینی اور مادی بنیادوں پر قائم ہونے والے نظاموں کی ضرورت نہیں ہے۔
3۔ علم اور ٹیکنالوجی پر فخر کرنے والے، مغربی دنیا میں ہونے والی علمی و فنی پیشرفت کے گیت گانے والے، دنیا کے سامنے علم دوستی، ٹیکنالوجی کی پیشرفت اور اسے دنیا میں پهیلانے کا نعرہ لگانے والے آج پریشان ہیں کہ انکے تمام تر محاصروں اور پابندیوں کے باوجود کس طرح اس انقلاب اسلامی کے پیروکاروں نے اسلامی جذبے اور تعلیمات کی روشنی میں کتنی تیزی سے علمی اور ٹیکنالوجی کے میدان مین پیشرفت حاصل کی ہے۔ کل کے علم دوست آج مزید پابندیاں لگا کر علم دشمنی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
4۔ یہ انقلاب مستضعفین جہان کے لئے ایک نوید لے کر آیا، بانی انقلاب حضرت امام خمینی قدس سره نے اپنے زمانے کے طاغوت اور فرعون صفت شخص شہنشاہ ایران کا مقابلہ نہتے، بے سروسامان مظلوم اور پسے ہوئے مسلم عوام کے ساتھ کیا۔ شہنشاہ امریکہ اور غرب کا چہیتا تها، اس کے پاس بہت بڑی فوج تھی، خطے کے ممالک کے سب بادشاه اور ملوک اس کے سامنے سر نہیں اٹھاتے تھے۔ الله تعالٰی کی ذات پر توکل کرتے ہوئے اسلام کی قوت پر ایمان رکھنے والے اس فقیہ و عارف مرد قلندر نے فقط شاه کو نہیں بلکہ شرق و غرب کی استکباری قوتوں کو لکارا، ایران کی بیدار، غیرتمند، بہادر و باتقوىٰ و ایمان اور شہید پرور ملت کی نرم عوامی طاقت سے ہزاروں سال قدیمی شہنشایت کا تختہ الٹ دیا۔
5۔ جن اصولوں پر عمل پیرا ہوکر ایرانی قوم نے ظلم، ناانصافی اور ذلت سے نجات حاصل کی ہے، یہ ظالم حمکران اور استکباری و استعماری قوتیں سمجهتی ہیں کہ اگر باقی مسلم ممالک کی عوام بھی اس انقلاب کے اصولوں کو سمجھ گئی اور انہوں نے ان پر عمل کرنا شروع کر دیا تو انکے ظالمانہ اقتدار کا سورج غروب ہو جائے گا، اسی لئے 36 سال سے انکی پروپیگنڈا مشینریاں اور ان کے جلاد اور قاتل اس انقلاب سے لوگوں کو متنفر کرنے اور انقلاب کو سمجھنے والوں کو قتل کرنے میں مصروف عمل ہیں۔
6۔ سب سے پہلی جنگ عرب و عجم کی بنیاد پر ایران پر مسلط کی گئی۔ امریکہ اور غرب نے عرب بادشاہوں کو ڈرایا کہ یہ عجمی انقلاب کل آپ لوگوں کی بادشاہتوں کو بھی نگل جائے گا، سب عرب ممالک ملکر اس انقلاب کو ابتدا ہی میں دفن کر دو۔ عرب ممالک کی عوام کو بھی میڈیا کے ذریعے اکسایا گیا اور ایران کے ہمسایہ عراقی صدر نے غرب اور عربوں کی پشت پناہی حاصل کرنے کے بعد تقریباً مسلسل آٹھ سال جنگ مسلط کی۔ پوری دنیا ایک طرف تھی، اسلام کی حقانیت، عوام کی طاقت اور الله تعالٰى کی نصرت سے یہ انقلاب سرخرو ہوکر اس جنگ سے نکلا۔ الله تعالٰى نے ایرانی عوام کے جذبہ ایمان اور شجاعت کی بدولت انہیں فتح و کامرانی سے سرفراز کیا۔
7۔ دوسری جنگ کی بنیاد مذہبی تنافر اور فرقہ بندی پر رکھی گئی، کیونکہ یہ انقلاب اسلامی انقلاب تها، اس کو پورے عالم اسلام کا ماڈل بننا تها، تمام مسلم اقوام نے اپنے اپنے ممالک میں اس کے سنہری اصولوں پر عمل پیرا ہو کر ظالموں سے نجات حاصل کرنا تھی اور ذلت سے نکلنا تها، مکار دشمن اور خطے میں اس کے ایجنٹ حکمرانوں نے اس انقلاب کو روکنے کے لئے شیعہ اور سنی تعصب کو پھیلانے اور مسلمانوں کو توڑنے کا فارمولہ استعمال کیا، جس پر آج بھی پوری شد و مد کے ساتھ عمل جاری ہے۔ شیعہ اور سنی لبادے میں ایسی قوتوں اور افراد کو میدان لایا گیا جو مسلمانوں کے درمیان زیاده سے زیاده نفرت پھیلا سکتے تھے۔
8۔ شیعہ مذہب سے بعض علماء، خطباء و ذاکرین کی شکل میں افراد اور گروه بنائے گئے، جنہوں نے مسلمانوں کے درمیان نفرتیں پھیلائیں۔ دوسری طرف تو باقاعدہ ایک وہابی و تکفیری مذہب کو جہان اسلام بلکہ پوری دنیا میں بے پناہ وسائل اور ہر قسم کی حمایت اور سپورٹ دے کر پھیلایا گیا، اس کی پلاننگ تو غرب کی تھی، لیکن اسکو ایران کے ہمسایہ عرب اور خلیجی ممالک بالخصوص تکفیری اور وہابی مذہب کو پوری دنیا میں پھیلانے کا کام سعودی عرب نے کیا۔ میڈیا کے تمام تر وسائل تکفیریت اور وہابیت کو دنیا میں نشر کرنے اور اس کی تبلیغ اور ترویج کرنے کیلئے فراہم کئے گئے۔ مختلف ممالک میں لاتعداد کالجز، یونیورسٹیاں اور دینی مدارس قائم کئے گئے۔ اس مشن کی ترویج کے لئے خلیجی ممالک بالخصوص سعودی عرب نے اپنے خزانوں کے منہ کهول دیئے۔
9۔ یہ سرچشمہ نور، انقلاب اسلامی ایران امت اسلامی کی وحدت پر مکمل ایمان کے جذبے، بیدار شیعہ اور سنی علماء و مفکرین کی محنت اور قربانیوں کے ساتھ اپنی نورانی کرنوں سے ظلمتوں کا مقابلہ کرتے ہوئے آگے بڑھ رہا ہے۔ اس انقلاب کا پرچم بردار اور اسلام کی عظمت کا پاسبان سنت کائنات کے مطابق تبدیل ضرور ہوا، لیکن حضرت امام خمینی قدس سره کے جانشین ولی امر مسلمین حضرت امام خامنہ ای دام ظلہ نے اپنی حکمت و تدبیر سے نہ فقط حضرت امام خمینی قدس سرہ کے خلا کو پر ہی نہیں کیا، بلکہ ترقی و پیشرفت کے مراحل نہایت ہی خوش اسلوبی سے طے کئے اور انکی حکمت و دانائی کا اعتراف دشمن بھی کر رہا ہے۔
10۔ جس انقلاب کو ایران کے اندر دفن کرنے کا دشمن نے منصوبہ بنایا تها، آج ایران تنہا مضبوط اور طاقتور ملک ہی نہیں بلکہ خطے اور دنیا کی عظیم طاقت میں تبدیل ہوچکا ہے۔ دشمن و مخالف ممالک اس بات کے معترف ہیں کہ ایران کے تعاون کے بغیر خطے اور دیگر بین الاقوامی مسائل حل نہیں ہوسکتے۔ جنگیں مسلط کرنے والے آج مجبور ہو کر ایران کے ساتھ مذاکرات کی میز پر نظر آتے ہیں۔ ایران کو دنیا میں تنہا کرنے والے آج خود تنہائی کا احساس کر رہے ہیں۔
11۔ جیسا کہ قران مجید میں آیا ہے "اصلها ثابت و فرعها فی السماء" اس شجره طیبہ (اسلامی انقلاب) کی جڑیں مضبوطی سے ایران میں پیوست ہیں، دشمن کے ایجاد کردہ موسوی و کروبی جیسے فتنے انقلاب اسلامی کی ان مضبوط جڑوں کو ہرگز نہیں ہلا سکتے اور نہ ہی کوئی بیرونی قوت اثر انداز ہوسکتی ہے۔ اسکی اصل ثابت ہے اور اسکے ثمرات فقط عراق، شام، لبنان، فلسطین اور یمن ہی میں نہیں بلکہ اس کی حمایت اور مشرق کی بلندیوں کو طے کرتے ہوئے لاطینی امریکہ تک جا پہنچی ہے۔ آزادی کے متوالے اور عزت و سربلندی کے متلاشی اس الہی انقلاب کے ماڈل سے بہره مند ہو رہے ہیں۔
12۔ دوسری طرف امریکہ، غرب اور خلیجی ممالک بالخصوص سعودی عرب کی لگائی ہوئی تکفیری وہابی فصل بھی اب پک چکی ہے، جس نے کئی ایک اسلامی ممالک کے امن و امان کو تباه کر دیا ہے۔ آج یہ شیعہ و سنی کو بے دریغ قتل کر رہے ہیں، اپنے آپ کو اہل سنت کہتے ہیں، لیکن سب سے زیاده جس فرقے کے افراد کو ان تکفیریوں نے قتل کیا ہے، وه بھی فرقہ اہل سنت ہی ہے۔
لیبیا میں لاکھوں مسلمان قتل ہوئے ہیں، وه سب اہل سنت بھائی ہی ہیں، کیونکہ وہاں اہل تشیع کی آبادی نہ ہونے کے برابر ہے۔
شام میں ایک لاکھ سے زیاده مسلمان قتل ہوئے ہیں، ان میں اہل تشیع فقط 3500، علوی برادری کے تقریباً 12000، مسیحی برادری کے تقریباً 6000 اور باقی تقریباً 80000 ہمارے برادران اہل سنت قتل ہوئے ہیں۔
عراق میں شیعہ آبادیوں کی طرف تکفیری نہیں پہنچ سکے، ممکن ہے دھماکوں اور دہشت گردی کی دیگر کارروائیوں میں چند ہزار شیعہ قتل کئے گئے ہوں، لیکن تکفیریوں نے اہل سنت کے علاقوں پر شام و عراق میں قبضہ کیا ہے، اس لئے وہاں لاکھوں کی تعداد میں برادران اہل سنت قتل ہو رہے ہیں اور انکی ناموس کی بے حرمتی ہو رہی ہے۔
یہ انقلاب تمام ظلم و ناانصافیوں، مستضعفین کے حقوق اور عزت وآبرو کی جنگ لڑتے ہوئے جہان اسلام بلکہ دنیا میں محور مقاومت کے نام سے پہچانا جاتا ہے، اس نے اپنے گرد ایک مقاومت کا بلاک تیار کر لیا ہے۔ اس بلاک کے اندر مختلف مذاہب اور ادیان کے حریت پسند طبقات شامل ہیں۔
ایران کے شیعہ و سنیوں کے ساتھ عراق کے شیعہ اور بعض سنی اور کردی سیاسی قوتیں شامل ہیں۔
اسی طرح شام میں برادران اہل سنت اکثریت میں ہیں اور حکومت میں 80% روساء، وزراء اور وہاں کی بعض سیاسی اپوزیشن قوتیں بھی اس بلاک مقاومت کا حصہ ہیں۔ اسی طرح وہاں کے شیعہ، علوی، مسیحی اور درزی فرقہ کے لوگ بھی اس بلاک مقاومت کا حصہ ہیں۔
لبنان کی سب سے بڑی مسیحی سیاسی پارٹیاں، اسی طرح بعض سنی اور درزی سیاسی پارٹیاں اس بلاک مقاومت کا حصہ شمار ہوتی ہیں۔
فلسطین کے اکثر مقاومتی فصائل اور گروہ پورے افتخار کے ساتھ بلاک مقاومت میں شامل ہیں اور وہ سب کے سب اہل سنت فرقہ سے ہیں۔
حال ہی میں امریکہ مرده باد اور اسرائیل مرده باد کے نعروں کو بلندکرنے والے حوثی زیدی شیعہ کہ جو یمن کی 60% آبادی ہیں اور اسی طرح وہاں کے برادران اہل سنت کہ جنہوں نے شیعوں کے شانہ بشانہ سعودیہ کے ایجنٹوں کی حکومت کا خاتمہ کیا ہے، وہ بھی بلاک مقاومت کا ہراول دستہ ہیں۔
امریکی، مغربی تسلط، مشرق کے اندر ان کی مداخلت اور خطے کے امن کو تباه کرنے والى پالیسی کے مقابلے میں روس اور چین بھی آج مقاومت کا بلاک شمار ہوتے ہیں۔ ان دونوں ممالک نے مل کر اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کے اجلاسوں میں کئی بار شام کے حق میں ویٹو پاور کا استعمال کیا ہے اور امریکہ و غرب اور عرب ممالک بالخصوص سعودیہ و قطر کو ذلیل کیا ہے۔ انشاءالله یہ اسلامی انقلاب ترقی کی راه پر گامزن رہے گا، عدل و انصاف، ظلم کیخلاف قیام، عزت و آبرو کی بحالی اور بیداری اسلامی کے فروغ کا پرچم سر بلندرکھے گا اور اسے آخری حجت خدا، فرزند رسول الله، خاتم الاوصیاء، حضرت امام مہدی علیہ السلام کے سپرد کرے گا۔