تحریر: نادر بلوچ
جوں جوں محرم الحرام قریب آتا گیا، تکفیری بھی سرگرم ہوتے گئے، گو کہ نیشنل ایکشن پلان میں یہ شق واضح ہے کہ حکومت تکفیری یعنی کالعدم جماعتوں کیخلاف کارروائی کرے گی اور تکفیر کے فتوے بانٹنے والوں کو قانون کے شکنجے میں لایا جائیگا، لیکن عملی طور پر وفاقی اور بالخصوص پنجاب حکومت میں موجود چھپے تکیفری مائنڈ سیٹ نے قومی ایکشن پلان کا رخ عزاداری کی طرف موڑ دیا ہے، اس بات کا اندازہ اس چیز سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ پنجاب حکومت کی جانب سے تمام تھانوں کو جاری حکم نامے اور مجالس کے لئے درخواست دہندہ کو جاری اجازت نامے میں یہ واضح کہا گیا ہے کہ لاوڈ اسپیکر اور حتیٰ ساونڈ سسٹم تک عزاداری کی مجالس میں استعمال نہ کیا جائے، تمام عزاداری کے پروگراموں کو چار دیواری تک محدود کیا جائے، جو تکفیریوں کا درینہ مطالبہ رہا ہے۔ اس کے علاوہ اجازت نامے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ چار دیواری سے ہرگز مجالس کی آواز باہر نہ آئے۔ فرقہ وارانہ گفتگو سے اجتناب کرنے اور پروگراموں کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال نہ کرنے کی تنبیہہ بھی کی گئی ہے۔ اجازت نامے میں مزید کہا گیا ہے کہ کوئی بھی شخص جس پر قانوناً تقریر کرنے پر پابندی ہو، ضلع بندی یا فورتھ شیڈول میں درج ہو، اس کو تقریر کرنے کی اجازت نہ ہوگی۔ حتیٰ یہاں تک کہا گیا ہے کہ پروگراموں کو موجود ملکی صورتحال کے پیش نظر کسی بھی وقت منسوخ کیا جاسکتا ہے۔ حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ مندرجہ بالا کسی بھی نکتے کی خلاف ورزی کی صورت میں مجلس یا عزاداری کا پروگرام منعقد کرنے والوں کیخلاف قانونی کارروائی کی جائیگی۔
پنجاب حکومت کے اس عمل سے صاف واضح ہوتا ہے کہ تکفیریوں کے ایجنڈے کو آگے بڑھایا جا رہا ہے اور یہ سب کام نیشنل ایکشن پلان کے نام پر کیا جا رہا ہے۔ حکومت پنجاب اگر نیشنل ایکشن پلان پر من و عن عمل کرنے میں ایک فیصد بھی مخلص ہوتی تو کالعدم جماعت کی جانب سے بالخصوص وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور باالعموم پنجاب بھر میں یوم حضرت عمر (ر) کی مناسب سے ریلیاں نہ نکلتیں، حد تو یہ ہے کہ تمام ریلیاں سکیورٹی کے حصار میں نکالی گئیں۔ یاد رہے کہ ہمارا اعتراض ریلیوں کے انعقاد پر نہیں بلکہ کالعدم جماعتوں کی جانب سے قومی ایکشن کی دھجیاں اڑانے پر ہے۔ مطلب یہ کہ حکومت نے خود انہیں یہ چھوٹ دی اور سکیورٹی بھی فراہم کی۔ عجیب صورت حال ہے کہ 98 فیصد ان علماء اور ذاکرین پر پابندی عائد کی گئی ہے جنہوں نے زندگی بھر اعتدال اور بھائی چارگی کی فضاء پیدا کرنے کیلئے اپنی زندگیاں صرف کیں۔ شیعہ دشمنی کا اندازہ یہاں سے لگا سکتے ہیں کہ حکومت نے اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن علامہ محمد امین شہیدی پر بھی خطاب کرنے پر پابندی لگا دی ہے۔ اس کے علاوہ علامہ شیخ محسن نجفی، علامہ شیخ شفاء نجفی سمیت دیگر علماء کے خطاب پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے۔
ایک طرف حکومت نے پنجاب میں دوسرے صوبوں سے آنے والے علماء پر پابندی عائد کرکے جہاں علاقائیت کو ہوا دی ہے، وہیں اس نے اپنے تعصب کا بھی کھل کر اظہار کیا ہے۔ لوگ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ہزاروں کے اجتماع کو چاردیواری میں قید کیسے کیا سکتا ہے اور ہزاروں افراد تک بغیر اسپیکر اور ساونڈ سسٹم کے کیسے آواز پہنچائی جاسکتی ہے۔ کسی بھی ناخوشگوار واقعہ کی صورت میں لاکھوں پر مشتمل مجمعے کو کیسے اکٹھا کیا جاسکتا ہے۔ یہ اسپیکر کے استعمال کے ذریعے ہی ممکن ہے کہ مجمعے کو اکٹھا کیا جاسکے اور انہیں کسی سمت کی طرف جمع کرکے منتشر ہونے سے روکا جاسکے۔ حکومت کی جانب سے ایک طرف سے پنجاب کے باہر سے آنے والے علماء پر پابندی لگائی گئی ہے تو دوسری جانب خود مقامی علماء پر بھی خطابات پر قدغن لگا دی گئی ہے۔ اس کا مطلب صاف ظاہر ہے کہ پنجاب بھر میں مجالس کے انعقاد کو روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ حکومت کو یاد رکھنا چاہیئے کہ عزاداری کا انعقاد تشیع کا آئینی و قانونی حق ہے، جسے وہ کسی صورت نہیں چھننے دی گی۔
حق تو یہ بنتا تھا کہ حکومت لاوڈ اسپیکر کی بجائے ایسی زبانوں کو بند کرتی جو معاشرے میں زہر افشانی کا کام کرتی ہیں، جو فتنہ کرکے لوگوں کو تکفیر پر مجبور کرتی ہیں، معتدل علماء پر پابندی عائد کرنے کے بجائے ایسے نام نہاد علماء کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند کرتی جو معصوم جوانوں کو خودکش بمبار بناتے ہیں، انہیں ریاستی اداروں پر حملے کرنے اور معصوم انسانوں کا خون بہانے پر قائل کرتے ہیں۔ حکومت ایسے مدارس کو بند کرتی، جو دراصل دہشتگردی کے اڈے بنے ہوئے ہیں اور ملک بھر میں خودکش بمبار سپلائی کرتے ہیں۔ لیکن افسوس کہ اس حوالے حکومتی اقدامات نہ ہونے کے برابر نظر آتے ہیں۔ پنجاب حکومت کو یاد رکھنا چاہیئے کہ عزاداری سیدالشہداء تشیع کی جان اور بقاء کی ضامن ہے، لہٰذا وہ کسی بھی صورت اس پر کسی قسم کی کوئی قدغن برداشت کریں گے اور نہ ہی ان نام نہاد حکمرانوں اور اجازت ناموں کی پروا کریں گے۔ ہاں یہ ضرور ہوگا کہ تشیع پاکستان نون لیگ کو تکفیریوں کی جماعت سمجھنے پر مجبور ہوگی، جو ایک سیاسی جماعت کو زیب نہیں دیتا۔ یاد رکھنے کی بات ہے کہ طالبان اور لشکروں کے سب سے زیادہ متاثر مکتب اہل بیت کے ماننے والے ہیں، جنہوں نے روز اول سے ان نام نہاد جہادیوں کیخلاف آپریشن کا مطالبہ کیا تھا، جبکہ موجودہ حکومت آخری دم تک ان دہشتگردوں سے مذاکرات کرنے کی حامی رہی۔