رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، داعی اتحاد امت اسلامیہ قائد ملت جعفریہ پاکستان حجت الاسلام والمسلمین سید ساجد علی نقوی کی دعوت پر مارچ 2016 کو علمائے اسلام کانفرنس کا انعقاد ہوا جس میں ملک کے طول و عرض سے تمام مکاتب فکر کے ممتاز علمائے کرام اور دانشور شریک ہوئے۔
اہل علم وفضل کے نمائندہ اجتماع نے اتفاق رائے سے مندرجہ ذیل اعلامیے کی منظوری دی۔
1۔ عالم اسلام اس وقت نہایت ناگفتہ بہ حالات سے گزر رہا ہے۔ جغرافیائی، لسانی، گروہی، فرقہ وارانہ اور طبقاتی تقسیم در تقسیم اس کے زوال در زوال کا سبب بن رہی ہے۔ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے مسلمانوں کے کئی ملک عالمی سازشوں کے نتیجے میںمزید ٹکڑے ٹکڑے ہوتے چلے جارہے ہیں۔ اسلام دشمن قوتوں نے ہمارے وسائل لوٹنے کے لیے طرح طرح کی سازشوں کا جال بچھا رکھا ہے۔ یہ طاقتیں خود ہی دہشت گردی کی بنیاد رکھتی ہیں، دہشت گرد گروہ تیار کرتی ہیں، ان کی تربیت کرتی ہیں اور انھیں وسائل فراہم کرتی ہیں اور پھر مسلمانوںکو اور اسلام کو بدنام کرنے کے لیے بھی اپنے تمام تر وسائل بروئے کار لاتی ہیں۔ افسوسناک امر تو یہ ہے کہ ہمارے حکمران طبقے اور دیگر ذمہ داران گروہ شعوری یا لاشعوری طور پر انسانیت کے انہیں خونی اور بے رحم دشمنوں سے غافل نظر اۤتے ہیں۔ ایسے میں سوز دل رکھنے والے علماء ، راہنما، دانشور اور مفکررنج و غم کی کیفیت میں اس ساری صورت حال سے نکلنے کے لیے اپنے اپنے مقام پر غوروفکر کرتے رہتے ہیں۔ یقینی طور پر دین کی معرفت رکھنے والے اور گہرے شعور کے حامل عالمی حالات سے اۤگاہ علمائے کرام کی ذمہ داری ہر دوسرے گروہ سے سوا ہے۔ علمائے کرام کی ذمہ داری ہے کہ وہ عالمی حالات پر نظر رکھتے ہوئے باہمی مشاورت اور افہام وتفہیم سے کسی متفقہ لاأحہ عمل تک پہنچیں۔ اۤج کی یہ کانفرنس اسی پس منظر میں منعقد ہوئی ہے ہم اس کے انعقاد پر اور پاکستان کے تمام مذہبی طبقوں کو اس کے پلیٹ فارم پر مجتمع کرنے کے لیے کی گئی کوششوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔
2۔ امت اسلامیہ کے لیے دینی اور الٰہی تعلیمات کا متفقہ سرچشمہ اللہ کی پاک کتاب اور اللہ کے اۤخری رسول رحمت للعالمین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ واۤلہ وسلم کا اسوہ حسنہ ہے۔ قراۤن و سنت ہر دور اور ہر علاقے میں ہر صورتحال میں انسانیت کی رہبری اور ہدایت کا سامان ہے۔ یہی وہ اللہ کی رسی ہے جس کو متفقہ طور پر تھامے رکھنے کا امت اسلامیہ کو حکم دیا گیا ہے اور ہر طرح کے تفرقے سے بچنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
3۔ ہم اس بات سے اچھی طرح سے اۤگاہ ہیں کہ مغربی تہذیب جو فقط کاأنات کے مادی پہلووں پر نظر رکھتی ہے اس کے مظاہر کو زبردستی عالم اسلام پر مسلط کرنے کے لیے طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کیے جارہے ہیں۔ اۤزادی رائے کے نام پر انسانیت کے مقدسات خاص طور پر انبیاء اور اۤسمانی صحیفوں کی توہین کا سلسلہ جاری ہے اور مسلمانوں کو بالخصوص ان مقدسات سے منقطع کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ باعث رنج امر تو یہ ہے کہ اس میں ہمارے حکمران بغیر سوچے سمجھے ایسے قوانین بنانے پر مُصر ہیں جن سے اسلامی اقدار کی نفی ہوتی ہے اور اسلامی معاشرے کی بنیادیں متزلزل ہو جاتی ہیں۔ پاکستان جیسا ملک جسے سارے عالم اسلام کے لیے اسلام کی پاکیزہ عادلانہ اور کمال اۤفریں تعلیمات واحکام کا نمونہ ہونا چاہیے تھا، اس سلسلے میں بہت پسماندگی کا مظاہرہ کررہا ہے۔ ہمارے حکمران طبقے انسانیت کے ان دشمنوں کے مقاصد اور ان کی چالوں سے ناواقفیت اور نافہمی کا ثبوت دے رہے ہیں۔ مغربی تہذیب کے بے خدا اور کائنات کی ناقص شناخت پر مبنی اۤثار کو روکنے کی کوشش نہ کی گئی تو یہ انسانیت کے لیے بہت ہولناک اور تباہ کن ہوگا۔ ہم تمام خدا پرست لوگوں، گروہوں اور جماعتوں کو اس مسئلے کی طرف توجہ مبذول کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔
4۔ ہم یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ اسلام انسانی حقوق کا سب سے بڑا علمبردار اور محافظ ہے۔ اسلام نے عورتوں کو سب سے پہلے حقوق کا شعور دیا اور انھیں معاشرتی اور معاشی طور پر تحفظ فراہم کیا۔ اسلام نے انھیں ظلم و استحصال سے نجات دلانے کے لیے اقدامات کیے۔ ان کے لیے وراثت میں حصہ مقرر کیا، شادی بیاہ میں ان کو بااختیار بنایا،ماوں کے پیروں تلے جنت کی تعلیم دی، بیٹیوں پر شفقت کا حکم دیا اور مرد و زن سب کو خدا کے سامنے اپنے اۤزاد اختیار کی وجہ سے مسئول اور جوابدہ قرار دیا۔ اسلام اۤج بھی خواتین کے حقوق کا سب سے بڑا محافظ ہے۔ اسلام ہی کا قانون ہے کہ جان کے بدلے جان، کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت۔ اس سلسلے میں نہ جنس کی تفریق ہے اور نہ کسی طبقے کی۔
¬5۔ اسلام خاندان کو معاشرے کی اکائی قرار دیتا ہے۔ خاندان کے اسلامی تصور نے معاشرے کو ہمیشہ ایک تحفظ فراہم کیا ہے۔ خاندان انسانوں کے لیے ایک پناہ گاہ کی حیثیت رکھتا ہے ، خاندان نئی نسل کی تربیت کے لیے ایک بنیادی کردارادا کرتا ہے۔ والدین سے حسن سلوک ،مرد و عورت کے باہمی حقوق و فرائض ، بچوں کی تعلیم و تربیت جیسے بنیادی ، سماجی تصورات تشکیل خاندان ہی سے جڑے ہوئے ہیں۔ قراۤن حکیم حکم دیتا ہے کہ اپنے اۤپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اۤگ سے بچاو، یہ وہی اۤگ ہے جو اس دنیا میں بھی انسان اور اس کے معاشرے کو جلا کر راکھ کر دیتی ہے اور اۤخرت میں بھی اپنی خاندانی اور معاشرتی ذمے داریوں سے عہدہ براۤ نہ ہونے والے خود غرض انسانوں کے لیے عذاب کی صورت اختیار کر جاتی ہے۔
6۔ ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ کسی بھی قانون سازی سے پہلے اسلام کی تعلیمات کو ملحوظ نظر رکھے اور یہ حکومت کی اۤئینی ذمے داری بھی ہے کیونکہ پاکستان کا اۤءین اس کو پابند کرتا ہے کہ وہ قراۤن وسنت کی تعلیمات کے منافی کوئی قانون نہیں بناسکتی۔
7۔ قدس شریف کئی دہاأیوں سے صہیونیوں کے استبدادی اور خونیں پنجوں میں سسک رہا ہے۔ فلسطینی مسلسل جارحیت کا شکار اور اپنے حقوق سے محروم ہیں۔ اۤج بھی فلسطینیوں کی اکثریت بے وطن ہے یا محاصرے کی حالت میں زندگی بسر کررہی ہے۔ عالمی طاقتیں جو انسانی حقوق کے نعرے لگاتے ہوئے نہیں تھکتیں، وہی جارح اسرائیل کی پیٹھ ٹھونکتی ہیں ایسے میں جو مسلمان ان طاقتوں سے اس مسئلے کے حل کے لیے امیدیں لگائے بیٹھے ہیں ،ان کی سادہ اندیشی پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔ ظالم اور جارح کا مقابلہ اتحاد اور جرائت سے ہی کیا جاسکتا ہے، ظالم اورقاتل کا ہاتھ اۤہنی ہاتھ سے ہی روکا جاسکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان اپنے قبلہ اول کی اۤزادی اور مظلوم فلسطینیوں کے حقوق کی بازیابی کے لےے اکٹھے ہو کر اقدام کریں۔
8۔ بھارت کی پاکستان میں بڑھتی ہوئی مداخلتیں دن بدن اۤشکار ہوتی چلی جارہی ہیں۔ بھارت نے پہلے دن سے ہی پاکستان کے وجود کو صدق دل سے تسلیم نہیں کیا اوراۤج پھر یہ امر پایہ ثبوت کو پہنچ گیا ہے کہ بھارت کی خفیہ ایجنسیاں پاکستان کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے اور پاکستان کے مختلف طبقوں اور گروہوں کو اۤپس میں دست و گریباں کرنے کی سازشوں پر عمل پیرا ہیں۔ بھارت کی ان سازشوں کو بے نقاب کرنا ہی پاکستان کی حکومت کی ذمہ داری نہیں بلکہ ایسی ہر سازش کا قلع قمع کرنے کے لیے عوامی قوت کو ساتھ ملا کر کسی متفقہ اور جرائت مندانہ حکمت عملی کی تشکیل کی ضرورت ہے۔
9۔ وطن عزیز پاکستان میں اےک مرتبہ دہشت گردی المناک لہر چل پڑی ہے جس کا تازہ ترین شاخسانہ لاہور کے گلشن اقبال پارک میں وقوع پذیر ہونے والا سانحہ ہے۔ اس سانحے میں شہید ہونے والے تمام افراد کے خاندانوں سے ہم اظہار تعزیت کرتے ہیں اور زخمی ہونے والے ہم وطنوں کی جلد صحت یابی کے لیے دعا کرتے ہیں ہم ایسے تمام واقعات کے پیچھے موجود انسانیت کے وحشی دشمنوں کی شدید مذمت کرتے ہیں اور ان پر واضح کرتے ہیں کہ اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے اور اسلامی سرزمینوں کو خاک و خون میں نہلانے کے ان کے منصوبوں کو ہم اپنے اتحاد اور جرات مندانہ عزم سے ناکام بنا دیں گے۔
10- کشمیر کے مظلوم عوام جو اپنی اۤزادی کے لیے لاکھوں قربانیاں دے چکے ہیں اور جو پاکستان کو اپنی منزل قرار دیتے ہیں انھیں بھارتی استبداد اور ستم کے سپرد کیے رکھنا بے انصافی اور اسلامی تعلیمات کے منافی ہے جس کے مطابق تمام مسلمان ایک بدن کی طرح سے ہیں اور بدن کا جب ایک عضو کسی تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے تو سارا بدن بے آرام ہو جاتا ہے۔ ہمیں اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھنا چاہیے جب تک کشمیر کے مسلمان اۤزاد ہو کر پاکستان کی اۤغوش میں نہیں اۤجاتے اوریہی ان کی منزل مراد ہے۔
11- ہم وفاقی اور تمام صوبائی حکومتوں پر یہ واضح کردینا چاہتے ہیں کہ ملک میں مختلف ضلعوں اور علاقوں میں مثبت اور تعمیری دینی اور تبلیغی سرگرمیوں پر جو ناروا پابندیاں عائد کی جارہی ہیں اور رکاوٹیں کھڑی کی جارہی ہیں ہم انہیں کسی صورت قبول نہیں کریں گے ہم تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام اور خطبا سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ وہ مسلمانوں میں انتشار پیدا کرنے والی قوتوں کو ناکام بنانے کے لیے ہر مقام اور ہر موقع پر اپنے اتفاق و اتحاد کو برقرار رکھیں۔
12۔ پاکستان میں ہر روز کرپشن اوردھاندلی کے ہوش ربا قصے منظر عام پر اۤتے رہتے ہیں۔ افسوس اس ملک میں احتساب کے ادارے اب تک کو"ی موثر کردار ادا نہیں کر سکے۔ حکمران طبقے انھیں وہ اختیار دینے کو تیار نظر نہیں اۤتے جن سے ملک کو کھوکھلا کر دینے والی اس کرپشن کا راستہ روکا جاسکے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جب تک کرپشن کے بڑے بڑے مگرمچھوں کو نمونہئ عبرت نہیں بنا دیا جاتا پاکستان سے کرپشن کا خاتمہ نہیں ہوسکتا اور جب تک کرپشن کا خاتمہ نہ ہو پاکستان ایک ایسی رفاہی ریاست میں تبدیل نہیں ہوسکتا جہاں قانون سب کے لیے مساوی ہو، ترقی کے مواقع سب کے لیے یکساں ہوں، تعلیم اور صحت کے مساأل حل ہو چکے ہیں اور ملک عالمی برادری میں ایک باوقار مقام حاصل کرسکے۔
11۔ ہم تمام اہل وطن سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ پاکستان کو ایک حقیقی فلاحی ریاست بنانے کے لیے اتفاق و اتحاد کی فضا پیدا کرنے میں اپنا کردارادا کریں۔ پاکستان کے میڈیا کی خاص طور پر ذمہ داری ہے کہ تفرقہ اور نفرتیں پیدا کرنے والے عناصر کے خلاف متحد ہو جائے۔ خاص طورپر ملک کے باہر سے براۤمد کیے جانے والے تفرقہ انگیز ایجنڈے کو مسترد کردیں اور اس حوالے سے عوام کی درست راہنماأی کریں۔میڈیا کی یہ بھی ذمے داری ہے کہ وہ اسلامی سماج کے منافی پروگراموں اور اشتہاروں کو نشر کرنے اور شائع کرنے سے اجتناب کرے کیونکہ ایسے امور سے معاشرے میں بگاڑ اوراخلاقی فساد بڑھتا چلا جارہا ہے اوراس کا نقصان بالاۤخر میڈیا سمیت معاشرے کے تمام طبقوں کو ہوگا۔
12۔ علمائے اسلام کانفرنس کے انعقاد پر ہم حجت الاسلام والمسلمین سید ساجد علی نقوی اور جامعہ الکوثر کے سربراہ حجت الاسلام والمسلمین شیخ محسن علی نجفی اور کانفرنس کے لیے زحمتیں اٹھانے والے تمام افراد کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور عراق کے مقدس شہروں نجف اشرف اور کربلائے معلی سے تشریف لانے والے علماء اور دانشوروں کے وفد کو پاک سرزمین پر خوش اۤمدید کہتے ہیں۔