رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق قراقرم یونیورسٹی میں یوم حسین (ع) منانے پر طلبہ کو یونیورسٹی سے نکالے جانے کے رد عمل میں مرکزی صدر جے ایس او پاکستان ساجد علی ثمر نے بیان کیا :قراقرم یونیورسٹی میں یوم حسین (ع) منانے پر اتنا بڑا ہنگامہ برپا کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ یوم حسین (ع) منانے سے روکنے والے انسان نہیں ہیں۔
انہوں نے وضاحت کی : امام حسین (ع) صرف شیعوں کے امام نہیں ہیں بلکہ وہ تو انسانیت کے محسن ہیں ۔ قراقرم یونیورسٹی کے طلبہ بھی انسانیت کے لیے ہی یہ سب کچھ کر رہے تھے ، لیکن یونیورسٹی کے طلبہ کے یوم حسین (ع) منانے پر یونیورسٹی کی وائس چانسلر ڈاکٹر نجمہ نجم کی طرف سے ایکشن لیتے ہوئے 3 طلبہ پر ہمیشہ کے لیے تعلیم کے دروازے بند کر دیے اور2 طلبہ پر 3 سال کے لیے تعلیم کے دروازے بند کر دینا کہاں کی انسانیت ہے۔
انہوں نے تاکید کرتے ہوئے بیان کیا : یوں معلوم ہوتا ہے کہ وائس چانسلر کو کوئی خاص ایجنڈا دیا گیا ہے جس کی وجہ سے وہ یہ سب کر رہی ہیں۔ حالانکہ یہ یوم حسین (ع) پچھلے آٹھ برس سے اس یونیورسٹی میں منایا جا رہا ہے اور ہر سال امن و امان سے منایا جا تا ہے۔اس سال وائس چانسلر نے اس کو اتنا بڑا ایشو بنا دیا کہ 5 طلبہ پر تعلیم کے دروازے ہی بند کر دیے، جب کہ یوم حسین(ع) منانے سے پہلے وقار رضوی کی قیادت میں 4 رکنی کمیٹی بنی تھی جس نے متفقہ طور پر یہ یوم حسین (ع) منانے کا فیصلہ کیا تھا۔
ساجد علی ثمر نے بیان کیا : ہمیں یہ بھی اطلاعات ہیں کہ وائس چانسلر قراقرم یونیورسٹی نے ہائر ایجوکیشن کمیشن کو ایک خط لکھا ہے جس میں ہائر ایجوکیشن کمیشن سے یہ درخواست کی گئی ہے کہ پاکستان کی تمام یونیورسٹیوں میں یوم حسین (ع) منانے پر پابندی عائد ہونی چاہیے۔ ہمارا یہ سوال ہے کہ کیا امام حسین (ع) نے کربلا میں آ کر کیا انسانیت کی خدمت نہیں کی ؟؟اگر ایسا ہے اور امام حسین (ع)انسانیت کے محسن ہیں تو وہ کون سی انسانیت ہے کہ جس پر وائس چانسلر صاحبہ کار فرما ہیں۔
مرکزی صدر جے ایس او کا کہنا تھا : ایک منظم سازش کے تحت یونیورسٹی کے چند شیعہ طلبہ پر دفعہ 741،341 اور 2605 لگائی گئی۔ ہم اس کی بھر پور مخالفت کرتے ہیں ، یہ ذاتی خواہشات کی تکمیل اور ایک خاص گروہ کو خوش کرنے کی سازش ہو رہی ہے۔
انہوں نے وضاحت کی : کچھ عرصہ پہلے چیف سیکرٹری گلگت یونس ڈھاگہ سے جب ایک وفد شیخ سعادت کی سربراہی میں ملا کہ جس وفد میں تمام ملی تنظیمی شامل تھیں اور ان سے اس مسئلہ کو حل کروانے کی درخواست کی تو انہوں نے جواب میں کہا کہ یہ یونیورسٹی کا اندرونی معاملہ ہے میں اس میں دخل اندازی نہیں کر سکتا۔اب وہی چیف سیکرٹری صاحب ہی مختلف بیانات دے کر ایک مخصوص گروہ کی حمایت کر رہے ہیں اور مقدمات کی حمایت کی جارہی ہے۔
مرکزی صدر جے ایس او پاکستان نے اپیل کی : ہم وفاقی حکومت اور ہائر ایجوکیشن کمیشن سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ بذات خود اس معاملے کا نوٹس لیں اور ایک وائس چانسلر کو اپنی ذاتی خواہشات کے بدلے میں طلبہ کا مستقبل تباہ کرنیکی اجازت نہ دی جائے ۔