رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب نے یمن پر اپنی جارحیت ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اپنے منصوبہ کے مطابق طے شدہ مقاصد کے حصول کا بھی اعلان کیا ہے ۔
۲۶ دنوں تک سعودی عرب کی طرف سے یمن کے بے گناہ عوام پر فضائی جارحیت کا سلسلہ جاری رہا جس میں جہاں ہزاروں بے گناہ بچے اور عورتوں کو اپنی جان گنوانی پڑی تو بے شمار لوگ بے گھر و بار ہوگئے اور اس ملک کی غریب عوام کی بنیادی دھانچے بھی تباہ ہوئے ۔
معتبر رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کی سربراہی میں یمن پر کی گئی فضائی جارحیت میں تقریبا ۲۶۰۰ بے گناہ لوگوں کا قتل عام ہوا اور دس ہزار لوگ زخمی ہوئے اس کے باوجود بعض مسلمان یہ نہیں سمجھ پا رہے ہیں کہ ظالم کون ہے اور مظلوم کون ؟
سعودی عرب کی طرف سے کئے گئے اعلان جس میں اپنے طے شدہ منصوبہ کی تکمیل کی تاکید کی گئی ہے اس اعلان نے اب یہ واضح کر دیا ہے کہ اس فضائی حملہ میں خادمین حرمین شریفین کا ہدف اس ملک کے بے گناہ بچے اور خواتین و عوام شہری تھے جس کی تباہی سے ان کا مقصد تھا جو حاصل ہوگیا اور اس کے بعد جنگ بند کرنے کا اعلان کر دیا گیا ۔
سعودی عرب کے پیسوں کے بھوکے اتحادیہ نے یمن پر ظلم و بربریت کے بعد فوجی کاروائی ختم کرنے کا فیصلہ کیا اور اس مسئلہ کا سیاسی حل نکالنے کی کوشش میں مشغول ہیں حالانکہ جنگ کے ابتدائی ایام سے ہی کئی صلح پسند ممالک و سیاسی و دینی رہنماوں نے مذاکرہ سے اس مشکل کو حل کرنے کی تاکید کی تھی ۔ مگر تیل کی آمدنی میں مست مسلمان نما حکومت کو اس سے کیا سرو کار کے مسلمانوں کی دولت مسلمانوں ہی کے قتل عام کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے ۔
اس جنگ میں سوائے چند سامراجی طاقت کے کسی اور کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوا کسی نے اسلحہ فروخت کر کے سعودی عرب سے پیسے کھینچے تو کسی نے سیاسی مفاد حاصل کئے مگر نقصان ہوا تو اسلام و مسلمانوں کا جہاں چھوٹے چھوٹے بچے خالی پیٹ گھروں کے ملبے پر رات گزار رہے ہیں اور جارح افواج حملہ کے بعد اپنے آشیانہ پر نرم بستر پر آرام کر رہے ہیں کہاں ہے اسلام کہاں گئے اسلام کی قیادت کا دعوا کرنے والے اور خدا کے گھر کی آمدنی پر اپنی عیاشی میں مست رہنے والے ؟۔
اس جنگ میں سعودی عرب نے کیا حاصل کیا ؟ کیا اس کی طرف سے شروع کی گئی اس جنگ سے علاقہ میں اس کی ہیبت طاری ہو گئی یا کیا وہ اس جنگ سے یمن کا غدار و فراری حکمران منصور ھادی کو اقتدار میں واپس لا سکے ؟ ہاں اس جنگ و اس جارحیت میں سعودی عرب کو سوائے رسوائی کے کچھ حاصل نہیں ہوا۔ اور علاقہ میں یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ خدا پر بھروسہ کرنے والے یمن کے ایک قبیلہ کے مدافعین نے سعودی عرب کے متحدہ و آقا کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا ۔
خدا پر بھروسہ کرنے کے بجائے اپنے آقا امریکا و صہیونی حکومت پر بھروسہ کرنے والوں کا انجام یہی ہوتا ہے آخر میں رسوائی کو گلے لگانا پڑتا ہے سعودی حکام کو بھولنا نہیں چاہیئے کہ جب غزہ کی تہتھی عوام سے مقابلہ میں ان کے آقا صہیونیستو کو خاک چاٹنی پڑی تو یہاں تو ایک اصیل عرب قبیلہ ہے جو خدا پر بھروسہ کر کے اپنا جائز حق چاہ رہی ہے ۔
یمنیوں نے تو ابھی صرف اپنا دفاع ہی کیا ہے اگر اس ملک کی سب عوام ایک ساتھ ہو کر اسلحہ اٹھا لیتی تو حرمین شریفین پر قابض حکمران نہ جانے کون سا بہانہ بناتے اور کہاں جا کر چھپتے یہ کہنا ذرا مشکل ہے ؟
سعودی عرب کے حکام کو غور کرنا چاہیئے کہ کب تک مسلمانوں کے جذبات سے غلط فائدہ اٹھاتے رہو گے ، کب تک حرمین و شریفین کو خطرے کا بہانہ بنا کے مسلمانوں کی حمایت حاصل کرو گے ؟ اب مسلمان بھی با بصیرت ہوتے جا رہے ہیں ان کو خبر ہے کہ حرمین کے اصلی دشمن تو تم ہو جسے برطانیہ نے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے وہاں قبضہ دلایا تھا ۔
ہر مسلمان حرمین و شرفین کی حفاظت کے لئے جان بھی دے سکتا ہے مگر تمہاری بد کرداری و عیاشی و سامراجیت کی غلامی میں ان کے مقاصد کو پانے میں مدد نہیں کر سکتا ہے ، عوام کو غلام بادشاہوں کی ضرورت نہیں ہے بلکہ عادل جمہوریت کی ضرورت ہے ۔