رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق عاشورہ محرم الحرام 1437 ھ (015ئ) کے موقع پر قائد ملت جعفریہ پاکستان حجت الاسلام ولمسلمین سید ساجد علی نقوی کا پیغام : محسن انسانیت، نواسہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلسیدالشہدا حضرت امام حسین علیہ السلام نے بزور مسلط کی جانے والی حکمرانی کوماننے سے انکار کردیا، اسلامی اصولوں اور بنیادی انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کی نفی پر مبنی جابرانہ نظام کو تسلیم نہ کیا، اوپرے کلچر اور تہذیب کو ٹھکرا دیا اور اصلاح امت ، معروف (نیکی) کو پھیلانے اور منکر (برائی) کو مٹانے کے لیے مدینہ سے ہجرت اختیار کی۔
انہوں نے بیان کیا : یزید کا دور ایسا تھا کہ احکام اسلام کو کھلونا بناکر، اطاعت خداوندی کو ترک کر کے، شیطان کی پیروی کو اپنا نصب العین بنا کر، قرآنی احکامات اور سنت رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں تحریف کر کے، اسلامی تعلیمات کو نابود کر کے، عدل اجتماعی کے تصور کا خاتمہ کر کے، بنیادی انسانی حقوق سلب کر کے، معاشی و سماجی ناانصافی کانظام قائم کر کے، خدا کے حلال کو حرام اور حرام کو حلال میں بدل کر، بدعتیں زندہ کر کے، فحاشی وعریانی کو فروغ دے کراور قومی خزانے کو اپنے ذاتی و حکومتی مفادات و مقاصد کے لیے استعمال کر کے دین الہی میں تبدیلی کی جارہی تھی شریعت محمدی (ص) کا حلیہ بگاڑا جا رہا تھا۔
قائد ملت جعفریہ پاکستان نے کہا :61 ھ کے بعد روز عاشور امام حسین علیہ السلام کے اسم گرامی کے ساتھ منسوب ہوگیا اس سے قبل عاشورہ کا لغوی اور لفظی مفہوم علمی حد تک تو عیاں تھا لیکن عاشورہ کی عملی شکل امام عالی مقام کے کردار سے سامنے آئی اور اس انداز سے اجاگر ہوئی کہ عاشورہ حریت کی ایک تعبیر بن گیا اور جب بھی عاشورہ کا ذکر ہوا تو انسان کے ذہن میں امام حسینؑ اور ان کی لازوال قربانی کا نقش اجاگر ہوا پیغمبران الہیٰ کا اصلاحی مشن زندہ ہوا اور وحی الہٰی کی روشنی میں نظام اور طرز زندگی کو منظم کرنے کا راستہ خون ناحق سے روشن ہوا۔
انہوں نے کہا : روز عاشور سے قبل شب عاشور بھی اپنے اندر ایک الگ تاریخ کی حامل ہے جب امام عالی مقام نے عاشورا کے حقائق سے اپنے ساتھیوں ، جانثاروں اور بنو ہاشم کو آگاہ کیا اور انہیں بتایا کہ عاشورا برپا ہونے کی عملی شکل کیا ہوگی؟ اور اس میں کس کس کو کیا کیا قربانی دینا پڑے گی؟
سید ساجد نقوی نے بیان کیا : آپؑ نے جب اپنے اصحاب و انصارکو عاشورا کی حقیقت یعنی اٹل موت سے باخبر کیا تو ساتھ ساتھ انہیں اپنے راستے کے انتخاب کی آزادی بھی فراہم کی اور کسی قسم کا حکم یا جبر اختیار نہیں کیا بلکہ انہیں اختیار دیا کہ وہ ان انہوں نے کہا : عاشورا کے راستے کا انتخاب کریں یا کربلا سے چلے جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ شب عاشور جب چراغ گل کرایا گیا تو انسانوں کی تقسیم نہ ہوئی بلکہ ضمیروں کی شناخت ہوئی۔ کھوکھلے دعوئوں کی بجائے نظریہ کی پختگی کا اندازہ ہوا اور چند لمحوں کی وابستگی دائمی نجات کی ضامن بن گئی۔
قائد ملت جعفریہ پاکستان نے کہا : شب عاشور حضرت امام حسین علیہ السلام کی طرف سے لوگوں کو اپنی بیعت سے آزاد کرنا، شعور و نظریہ اور آزادی و استقلال کے ساتھ شہادت کے سفر پر گامزن ہونے کا درس دیتا ہے۔ آپؑ نے جبر کے ساتھ لوگوں کو اپنے ساتھ وابستہ نہ رکھ کر رہتی دنیا کے لئے ہدایت و رہنمائی چھوڑی کہ کشتیاں جلا کر لوگوں کو جبری شہادت کی طرف مجبور کرنا اور ہے جبکہ چراغ بجھا کر لوگوں کو ابدی نجات عطا کرنا اور ہے۔
انہوں نے بیان کیا : آج کی صورت حال 61 ھ کی صورت حال کے مشابہ ہے لیکن انداز و ماحول نیا ہے۔ آج بھی حسین ابن علی علیہ السلام کربلا سے صدائیں بلند کر رہے ہیں کہ کوئی آئے اور ہمارا ساتھ دی۔ آئیے ہم حسین ابن علی علیہ السلام کا ساتھ دیں اور ان کی صدا پر لبیک کہیں۔
حجت الاسلام سید ساجد نقوی نے تاکید کی : احکام خداوندی اور شریعت نبوی پر عمل پیرا ہو کر اپنے اچھے اور مضبوط کردار کے ذریعے ، کردار سیدہ زینب سلام اللہ علیہا اور سیرت حضرت زین العابدین علیہ السلام پر عمل کے ذریعے ، مشن حسین علیہ السلام اور اسلام کے عادلانہ نظام کے لیے عملی جدو جہد کے ذریعہ، دشمن کے عزائم اور مظالم سے اتحاد و اخوت اور وحدت کے ساتھ نبرد آزما ہونے کے ذریعے …اور اس راستے میں اگر مشکلات پیش آئیں حتی کہ شہادت کی سعادت بھی نصیب ہو تو اس کے لیے اپنے آپ کو تیار رکھا جائے بلکہ حالات کا تقاضا ہے کہ ایک اور عاشورہ برپا کرنے کے لیے آمادہ رہا جائے۔ یہی ہر دور کا پیغام عا شورہ ہے ۔