29 May 2014 - 15:10
News ID: 6828
فونت
رسا نیوز ایجنسی – جب سے حق نے اپنے وجود کو ظاہر کیا ہے تو اس دن سے ہی باطل نے حق کے مقابلے میں پنجہ آزمائی کرنا شروع کردی ۔ جبکہ حق ایک ایسا چمکتا نور ہے جس کی چمک اور دمک ختم تو کیا پھیکی نہیں پڑسکتی ۔
علي عليہ السلام

 

تحریر: فرحت حسین مہر، جامعۃ الکوثر اسلام آباد

 

اس کی حقیقت کا کوئی انکار نہیں کرتا اور جو انکار کرے گا وہ مشکوک تو ہوسکتا مگر  حق کی حقیقت کو مشکوک نہیں بنا سکتا۔ البتہ حق کے خلاف مختلف قسم کی سازشیں ہوئیں ہیں اور ہر دور میں حق کے مقابلے میں باطل اپنی شکلیں بدل بدل کر کام کرتا رہا ہے۔ باطل نے مختلف صورتوں اور شکلوں میں حق کو مٹانے کے لیے  عوامل اور اسباب بروئے کار لائے ۔ اورانہیں اسباب اور عوامل میں سے ایک پروپیگنڈا ہے ۔

 

پروپیگنڈا یعنی عام بول چال میں اس لفظ کے معنیٰ دروغ گوئی ، ترغیب وتحریص یا غلط افواہ کا پھیلانا ہے ، اس میں شک نہیں کہ اکثر اوقات سیاسی انجمنیں یا حکومتیں غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے اپنے فوری اور ذاتی مفاد کے پیش نظر غلط روایات و واقعات کا چرچا کر کے اپنی مطلب برداری کر لیتی ہیں، لیکن یہ لازم نہیں ہے کہ پروپیگنڈے کی بنا جھوٹ پر ہی ہو۔ پروپیگنڈا سچا بھی ہوتا ہے اور عوام کے فائدے کا باعث بھی ہوتا ہے۔ لیکن جس پروپیگنڈے کے بارے ہم تحریر کرنے جا رہے ہیں وہ باطل قوتوں کا پروپیگنڈا ہے ۔

 

حضرت علی (ع) کی ذات رسول اسلام (ص) کی حدیث شریف «الحق مع علی وعلی مع الحق ؛ حق علی کے ساتھ ہے اور علی حق کے ساتھ ہیں » کی مصداق ہے اور آپ کے دشمن حسد کا شکار ہوئے اور آپ کے خلاف بھی بہت زیادہ پروپیگنڈا ہوا ۔


آپ (ع)  کی ولایت کا جب اعلان ہو ا تو آپ کے مقابلے میں باطل نے اتنا پروپیگنڈا کیا کہ حضرت علی (ع) کی ولایت کا غدیر خم میں اعلان  لوگوں کو بھولنے پر مجبور کر دیا اورحضرت علی (ع) کو طلحہ اور زبیر کے مقابلے میں لاکر کھڑا کر دینا امام(ع) کی ناقدری تھی ۔ اس سے بڑھ کر جب سقیفہ بنی سعدہ میں حضرت عمر نے تمام اراکین کا تعارف کروایا تو اس وقت ہر ایک کو ایک ایک صفت سے متہم کیا اس موقع پر انہوں نے امام (ع) کی طرف جو صفت منسوب کی وہ حد درجہ کی بے بنیاد ہونے کے ساتھ ساتھ حقارت آمیز بھی تھی۔

 

حضرت عمر نے امام (ع) کو «فیہ دعابۃ» ( ایک مذاق کرنے والا شخص) خطاب دیا کہ امام (ع) نے اس کی تردید بھی کی ۔ (منھاج البراعہ فی شرح نہج البلاغہ جلد 3،4، علامہ آیت اللہ سید حبیب اللہ ہاشمی خوئی، ناشر حق برادرز لاہور، پاکستان)

 

ابن الحدید لکھتے ہیں: جنگ صفین میں کچھ لوگ حضرت عمار یاسر (رض) کو دیکھنا چاہتے تھے کہ عمار(رض) کس لشکر میں ہیں تاکہ اس لشکر کی حقانیت کی دلیل سمجھ سکیں ، تعجب ان پر ہے جو عمار (رض) کو حق و باطل کا معیار قبول کر رہے تھے مگر علی ابن ابی طالب علیھما السلام جن کے بارے رسول اکرم (ص) کا فرمان ہو کہ «الحق مع علی و علی مع الحق ؛ حق علی کے ساتھ ہے اور علی حق کے ساتھ ہیں » اورایک دوسری جگہ ارشاد ہوا کہ « لایحبک الا مومن ولا یبغضک الا منافق ؛ تم سے محبت نہیں کرے مگر مومن اور تم سے بغض نہیں کرے گا مگر منافق » ۔( آئمہ اہل بیتؑ کی سیاسی فکری و سیاسی زندگی، مصنف رسول جعفریان، مترجم سجاد حسین مھدی، ناشر دار الثقلین) ۔

 

جنگ صفین میں آپ کے خلاف قرآن مجید کے ذریعہ سے پروپیگنڈا کیا گیا۔ دشمن اس پروپیگنڈے میں کامیاب رہا۔ کیونکہ اس وجہ سے امام علی (ع) کو جیتی ہوئی جنگ کو روکنا پڑا اور ان کے بارے میں مولا نے ارشاد فرمایا ۔ یہ جنگ میں اپنے نادان دوستوں کی وجہ سے (جو دشمن کے پروپیگنڈے کا شکار  ہوگئے ) ہار گیا ہوں ۔
 
اسی طرح آپ کے « خلاف لاحکم الاللہ ؛ حکم صرف اللہ کے لیے خاص ہے» کا نعرہ بلند کیا گیا ۔ اس کا جواب میں بھی امام (ع) نے فرمایا کہ « کملۃ حق یراد بھا باطل » یہ جملہ تو صحیح ہے مگر وہ جو مطلب لیتے ہیں وہ صحیح نہیں ۔ (نہج البلاغہ ،خطبہ 40)

 

العجب فلعجب حضرت علی (ع) کے مقام کو معاویہ کے مقابلے میں لا کھڑا کیا ۔ یہ امام (ع) کے خلاف پروپیگنڈے کی انتہا تھی یا امام(ع)  کی مظلومیت کی انتہا تھی ۔

 

حضور اکرم (ص) کی رحلت کے تین ماہ کے بعد ہی لوگوں نے آپ اور اعلان رسالت کے مقابل ، اعلان خلافت کرنے والے کو قبول کرلیا ۔

 

امام علی (ع) کے خلاف اتنا زیادہ پروپیگنڈا ہوا کہ آپ کو شام میں کوئی نہیں جانتا تھا ۔ بلکہ جب امام (ع) کی مسجد میں شہادت ہوتی ہے تو اس وقت شام کے لوگ سوال کرتے ہیں کہ علی (ع) مسجد میں کیا کرنے گئے تھے؟ حالانکہ آپ (ع) شہادت کے وقت ظاہری حکومت و خلافت پر بھی فائز تھے ۔

 

حضرت علی (ع) اصحاب کو حسن و حسین علیھما السلام اور حضرت زہراء علیھا السلام کے ہمراہ اصحاب رسول (ص) کے گھر جاتے لیکن کوئی صحابی کہتا کہ مجھے یاد نہیں کہ حضور اکرم (ص) نے کیا فرمایا اور کوئی کہتا کہ میں نے آپ (ص) کے الفاظ کو صحیح طرح سن نہیں سکا تھا ۔

 

ابن ابی الحدید کہتے ہیں کہ میں نے ابو جعفر نقیب (یحیی بن ابی زید) سے سوا ل کیا کہ مجھے علی (ع) پر حیرت ہے کہ وہ رسول اکرم (ص) کی رحلت کے بعد اتنا طویل عرصہ زندہ کیسے رہے۔ قریش کی اتنی دشمنیوں کے باوجود ان کی جان کیسے محفوظ رہی؟۔ ابوجعفر نے کہا اگر انہوں نے اپنے آپ کو گوشہ نشین نہ کر لیا ہوتا تو وہ زندہ نہیں بچ سکتے تھے۔ جیسا سعد بن عبادہ کا تجربہ سامنے تھا ، انہوں نے بیعت نہیں کی تھی اور خلیفہ اول یا دوم کے زمانے میں اچانک اطلاع ملی کہ انہیں جنات نے قتل کردیا ہے ۔ جبکہ ان کا قتل سیاسی تھا۔

 

باطل کے پروپیگنڈے کی وجہ سے جب آپ ظاہری خلافت پر جلوہ افروز ہوئے تو پہلا خطبہ مولا کو اپنے تعارف میں دینا پڑا ۔

 

معاویہ (لعن) کے زمانے میں حضرت علی (ع) کو اور آپ کے ماننے والے کو اذیت سے دو چار کیا جاتا رہا ۔ نہ صرف اذیت بلکہ موت کے مناظر کو محبان علی (ع) کو دیکھنا پڑا کیونکہ محبت محمد آل محمد صل اللہ علیہ و الہ وسلم کو سنگین جرم و خطا قرار دے دیا گیا اور آئمہ مساجد کو حضرت علی(ع) پر سبّ شتم کرنے کو کہا گیا یہ رسم بد عمر بن عبد العزیز کے دور حکومت تک جاری رہی ۔

 

شیعہ اثنا عشری کے عقائد میں بھی اس باطل پروپیگنڈے نے اثر کیا جس میں کہا گیا کہ حضرت جبرئیل نعوذ باللہ غلطی سے حضرت رسول خدا (ص) کے پاس وحی لیے کر آئے جبکہ اصل حضرت علی (ع) کے پاس وحی لے کر جارہے تھے ، یہ من گھڑت چیز بھی باطل کے پروپیگنڈے کا نتیجہ ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔

 

عبد اللہ ابن سبا کا افسانہ دیکھا جائے تو یہ باطل کے پروپیگنڈے کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔

 

آج اس دورمیں بھی شیعیت کے خلاف بد قسمتی سے لکھنا پڑتا ہے کہ بہت زیادہ پروپیگنڈا کیا جارہا ہے۔ پروپیگنڈے کی نئی شکل وجود میں آئی جب حضرت علی (ع) کے خلاف دشمن نے بہت زیادہ اقدام کئے  اور وہ پوری طرح کامیاب نہ ہوسکا تو اس دشمن نے شیعیت کے روپ میں  ہمارے اسٹیج اور ممبر سے معاویہ کے پروپیگنڈے سے زیادہ سنگین کیا کہ حضرت علی (ع) کا اللہ سے موازنہ کیا جارہا ہے یا کبھی علی، اللہ کا نعرہ لگایا جارہا ہے ۔ پروپیگنڈے کی یہ نئی شکل ہے دشمن کی اس سازش کو سمجھنے اور سمجھ کر اس کو رد کرنے کی ضرورت ہے۔

 

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬