رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، قائد ملت جعفریہ پاکستان حجت الاسلام و المسلمین سید ساجد علی نقوی نے 28 رجب کی مناسبت سے ارسال کردہ پیغام میں کربلا کو فقط ایک واقعہ یا مصائب و آلام کی علامت نہیں بلکہ ایک تحریک اور نظام کا نام دیا ۔
اس پیغام کا تفصیل متن مندرجہ ذیل ہے :
حق و صداقت کی سربلندی اور دین مبین اسلام کی ترویج و اشاعت کے لئے جان و مال اور اولاد کا نذرانہ پیش کرنا خانوادہ عصمت و طہارت کا شیوہ رہا ہے اور مذہب حق کی حمایت اور بقاء کے لئے نواسہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے اپنے نانا کے مدینہ کو خیرباد کہہ کر رہتی دنیا تک کے لئے یہ ثابت کردیا کہ اگر دین اسلام پر مشکل اور کڑا وقت آجائے تو وطن چھوڑنے سے بھی دریغ نہیں کیا جانا چاہئے ۔
نواسہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و الہ وسلم حضرت امام حسین علیہ السلام نے واقعہ کربلا سے قبل مدینہ سے مکہ اور مکہ سے حج کے احرام کو عمرے میں تبدیل کرکے کربلا کے سفر کے دوران اپنے قیام کے اغراض و مقاصد کے بارے میں واشگاف انداز سے اظہار کیا اوردنیا کی ان غلط فہمیوں کو دور کیا کہ آپ کسی ذاتی اقتدار، جاہ و حشم کے حصول، ذاتی مفادات کے مدنظر یا کسی خاص شخصی مقصد کے تحت عازم سفر ہوئے ہیں اور موت جیسی اٹل حقیقت کے یقینی طور پر رونما ہونے کے باوجود بھی اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہیں ہیں یہی وجہ ہے کہ حکمرانوں کی طرف سے ہر قسم کی مالی، دنیاوی ، حکومتی اور ذاتی پیشکش کو ٹھکرایا اور صرف قرآن و سنت ، شریعت محمدی، دینی احکام ، اوامر و نواہی اور اسلام کے نظام کے نفاذ کو ترجیح دی ۔
امام عالی مقام کی بے مثال قربانی اور تحریک کربلا سے آج بھی دنیائے عالم میں چلنی والی آزادی و حریت کی تحریکیں استفادہ کررہی ہیں اور چونکہ کربلا فقط ایک واقعہ یا مصائب و آلام کی علامت نہیں بلکہ ایک تحریک اور نظام کا نام ہے اس لئے ہمارے لئے مشعل راہ اور رہنمائی کا باعث ہے۔ دنیا میں جو طبقات فرسودہ، غیر اسلامی، لادین، غیر منصفانہ، ظالمانہ، آمرانہ اور بادشاہانہ نظاموں کے خلاف جدوجہد کررہے ہیں کربلا ان کے لئے سب سے بڑی مثال اور مینارہ نور ہے۔
اس کے علاوہ موجودہ معاشروں کے تمام حاکم طبقات اور محروم و مظلوم طبقات امام حسین علیہ السلام کی جدوجہد سے استفادہ کرسکتے ہیں کیونکہ آپ نے فقط ایک مذہب یا مسلک یا امت کی فلاح کی بات نہیں کی بلکہ پوری انسانیت کی نجات کی بات کی ہے۔ البتہ خصوصیت کے ساتھ محروم، مظلوم اور پسے ہوئے طبقات کے خلاف ہونے والی سازشوں کو بے نقاب کیا۔
اس کے ساتھ حکمرانوں کی بے قاعدگیوں، بے اعتدالیوں، بدعنوانیوں، کرپشن، اقرباء پروری، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور شہریوں کے مذہبی، شہری اور قانونی حقوق کی پامالی کی طرف بھی نشاندہی فرمائی۔ امام حسین علیہ السلام کے اس اجتماعی انداز سے آج دنیا کا ہر معاشرہ اور ہر انسان بلا تفریق مذہب و مسلک استفادہ کرسکتا ہے۔