رسا نیوز ایجنسی کا قائد انقلاب اسلامی کے خبر رساں سائیٹ کے منقول رپورٹ کے مطابق قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے منگل کی شام ملک کے اعلی حکام سے ماہ رمضان کی سالانہ ملاقات میں مزاحمتی معیشت کو جامہ عمل پہنانے کے طریقوں، در پیش مسائل اور اس کے تعمیری نتائج پر روشنی ڈالی۔ قائد انقلاب اسلامی نے ایٹمی مذاکرات کے سلسلے میں فیصلہ کن نکات بیان کئے اور ایران کی ایٹمی ریڈ لائنوں کی نشاندہی کی۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: "امریکی، ایران کی ایٹمی صنعت کو نابود کر دینے کے در پے ہیں جس کے جواب میں ایران کے حکام ریڈ لائنوں پر زور دیتے ہوئے اچھے معاہدے یعنی منصفانہ، آبرومندانہ اور ایران کے مفادات سے مطابقت رکھنے والے معاہدے کی کوشش میں ہیں۔"
قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آغاز میں ماہ رمضان المبارک کا حوالہ دیا جو تقوی کا مہینہ ہے۔ قائد انقلاب اسلامی کے مطابق تقوے کی دو قسمیں ہیں شخصی تقوا اور سماجی تقوا۔ آپ نے فرمایا کہ شخصی تقوی در حقیقت دائمی طور پر محتاط اور چوکنا رہنے کی حالت ہے جو انسان کو روحانی میدان میں مہلک ضربوں سے محفوظ رکھتی ہے اور انسان کے دنیوی امور پر بھی اس کے بہت اہم اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ سماجی تقوے کے دائرے کو سماجی مسائل کے ساتھ ہی اقتصادی مسائل تک بھی پھیلایا جا سکتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اقتصادی مسائل میں سماج کا تقوی در حقیقت مزاحمتی معیشت سے عبارت ہے جو عالمی سطح کی دگرگونیوں یا مخالف عالمی پالیسیوں کے زہریلے تیروں سے ملک کو محفوظ رکھتی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے گزشتہ برسوں کے دوران بڑی طاقتوں کی اقتصادی جست کے مقابلے میں ملک کو مستحکم بنانے سے متعلق اپنے مکرر انتباہات کی یاد دہانی کرائی اور فرمایا کہ ان برسوں کے دوران حکام نے اپنی توانائی کے اعتبار سے کافی محنت کی لیکن مزاحمتی معیشت کا موضوع ملک کی تمام تر توانائیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے عملی شکل میں تبدیلی کیا جانا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ بعض دوسرے ممالک میں مزاحمتی معیشت کے رول ماڈل کو عملی جامہ پہنایا گیا ہے اور اس کے مثبت نتائج بھی سامنے آئے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ مزاحمتی معیشت کا مرکزی پہلو اس کا داخلی توانائیوں پر منحصر ہونا اور انھیں کی مدد سے نشونما کے مراحل طے کرنا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: "داخلی توانائیوں کی مدد سے نمو کا مطلب سب سے الگ تھلگ ہو جانا نہیں ہے، بلکہ بیرونی دنیا کو مد نظر رکھتے ہوئے داخلی توانائیوں اور صلاحیتوں کو استعمال کرنا ہے۔"
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے کہا کہ مزاحمتی معیشت سے متعلق پالیسیوں کی تدوین اجتماعی فکر اور طولانی مشاورتی عمل کا نتیجہ ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ان پالیسیوں کا نوٹیفیکیشن جاری ہونے کے بعد بہت سے اقتصادی ماہرین نے اس کی حمایت کی اور آج مزاحمتی معیشت ملک کی رائج اقتصادی ثقافت اور اصطلاحات میں پوری طرح متعارف ہو گئی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ مزاحمتی معیشت در حقیقت عالمی طاقتوں کی جانب سے تیسری دنیا کے ملکوں کو ڈکٹیٹ کر دئے جانے والے اقتصادی ماڈل کے مد مقابل معیشت ہے۔ آپ نے فرمایا: "قدیمی اقتصادی ماڈل میں ساری توجہ بیرونی دنیا پر ہوتی ہے جبکہ مزاحمتی معیشت داخلی توانائیوں پر تکیہ کرنے والا ترقی پذیر ماڈل ہے۔"
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: "ممکن ہے کچھ لوگ یہ گمان کریں کہ مزاحمتی معیشت کا ماڈل ایک اچھا نمونہ ہے لیکن اسے عملی جامہ پہنانے کا امکان نہیں ہے، مگر ہم قطعیت کے ساتھ کہتے ہیں کہ ملک کے موجودہ حالات میں بھی اور دستیاب توانائیوں کی مدد سے ہی اس ماڈل کو عملی جامہ پہنانا پوری طرح امکان پذیر ہے۔"
قائد انقلاب اسلامی نے اس کے بعد ملک کے اندر موجود توانائیوں اور صلاحیتوں پر روشنی ڈالی جن کی مدد سے مزاحمتی معیشت سے متعلق پالیسیوں کو عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں قائد انقلاب اسلامی نے سب سے پہلے تعلیم یافتہ، ماہر اور خود اعتمادی کے جذبے سے سرشار نوجوان نسل کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: "ملک میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کی یہ کثیر تعداد اسلامی انقلاب کی برکت ہے، مگر شرط یہ ہے کہ غلط پالیسیوں کی وجہ سے معاشرہ، بڑھاپے اور نوجوان افرادی قوت میں کمی کی مشکل سے دوچار نہ ہونے پائے۔"
قائد انقلاب اسلامی نے ملک میں یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہونے والے ایک کروڑ سے زائد نوجوانوں کی موجودگی اور چالیس لاکھ سے زائد زیر تعلیم یونیورسٹی طلبہ کا ذکر کیا جن کی تعداد اوائل انقلاب کے مقابلے میں پچیس گنا زیادہ ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: "یہ ماہر، جوان اور اعلی تعلیم یافتہ افرادی قوت اسلامی نظام کے افتخارات میں شامل ہے اور اس طرح ایک عظیم موقع دستیاب ہے۔"
قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ ملک کی اقتصادی پوزیشن بھی ایک اہم توانائی کا درجہ رکھتی ہے۔ آپ نے فرمایا: "عالمی اعداد و شمار کے مطابق دنیا کے اقتصادی میدان میں اسلامی جمہوریہ ایران بیسویں نمبر پر ہے اور اگر اب تک استعمال نہ ہونے والی صلاحیتوں کو بھی بروئے کار لایا جائے تو دنیا کی بارہویں معیشت میں تبدیل ہو جانے کے امکانات فراہم ہو جائیں گے۔"
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے کہا کہ تیل اور گیس کے ذخائر کو مشترکہ طور پر دیکھا جائے تو ایران دنیا میں پہلے نمبر کا ملک ہے اور ملک کے جغرافیائی محل وقوع کو دیکھا جائے تو یہ شمال و جنوب اور مشرق و مغرب کا رابطہ پل ہے۔
آپ نے فرمایا: "پندرہ ممالک کے پڑوس میں واقع ہونا جن کی مجموعی آبادی سینتیس کروڑ ہے اور جو انتہائی قریب واقع غیر ملکی بازار کا درجہ رکھتے ہیں، اسی طرح ملک کی سات کروڑ سے زیادہ کی آبادی جو ایک اچھے بڑے داخلی بازار کی حیثیت رکھتی ہے، یہ سب اہم امکانات و مواقع ہیں، اگر داخلی بازار پر بھی توجہ مرکوز کی جائے تو پیداواری شعبے کی صورت حال بدل جائے گی۔"
قائد انقلاب اسلامی نے انرجی، نقل و حمل، مواصلات، بجلی گھروں اور ڈیمز کے میدانوں میں ملک کے بنیادی انفراسٹرکچر اور مینیجمنٹ کے طویل تجربات کو بھی اہم امکانات و مواقع میں شمار کیا۔ آپ نے فرمایا: "ہمیں ان مواقع کو مناسب اور صحیح انداز میں استعمال کرنا چاہئے کیونکہ ملک کی مشکل اچھے اور ماہرانہ پروجیکٹوں اور باتوں کی کمی نہیں ہے بلکہ اصل مشکل، جو علمی حلقوں میں بار بار موضوع بحث بھی بن رہی ہے، صحیح باتوں اور منصوبوں کا بنحو احسن استعمال نہ کیا جانا ہے۔"
قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ کچھ مشکلات ملک کے داخلی مسائل کا نتیجہ ہیں جن میں ایک بڑا مسئلہ عمل میں تساہلی اور مسائل کے بارے میں سطحی نگاہ ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ لفظی بحثوں اور روشن فکرانہ باتوں سے کوئی کام انجام نہیں پائے گا، مسائل کا حل گوناگوں امور کے سلسلے میں دراز مدتی اقدامات، عمل اور مربوط مساعی کا متقاضی ہے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ کچھ بڑے کام ایسے ہیں کہ جن کی انجام دہی کے لئے شاید ایک نسل گزرنے جتنی مدت درکار ہو۔ آپ نے فرمایا: "ملک کی علمی تحریک کے بارے میں جس زمانے میں یونیورسٹیوں میں بحث ہو رہی تھی، اس وقت شاید کسی کو بھی یہ یقین نہ رہا ہوگا کہ دس پندرہ سال کی مدت میں اساتذہ اور با صلاحیت نوجوانوں کی بلند ہمتی کے نتیجے میں ملک کے اندر علمی لہر پیدا ہوگی، مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ان برسوں کے مقابلے میں آج قابل قدر اور بعض میدانوں میں تو مبہوت کن ترقی حاصل ہوئی ہے۔"
قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ موازی، آسان لیکن مہلک راستوں کا انتخاب ملک کی ایک بڑی مشکل تھی۔ آپ نے اس کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: "بسا اوقات ضرورتوں اور سامان کی فراہمی کے دو راستے ہوتے ہیں۔ ایک راستہ یورپ کے ذریعے آسانی سے ضرورت کی تکمیل کا ہے اور دوسرا راستہ یورپ کی مدد کے بغیر ہے لیکن دشوار ہے۔ پہلا راستہ ایسا ہے جو انسان کو مشکل میں اسیر کر دینے والا ہے، ایسا راستہ ہے جو اس کے دوستوں کو کمزور اور دشمنوں کو قوی کرے گا۔"
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ ایک اور داخلی مشکل جو بہت بڑی اور بنیادی غلطی کا شاخسانہ بھی ہے، یہ تصور ہے کہ اگر ہم اسلامی ںظام کے بنیادی اصولوں اور عقیدوں سے خود کو علاحدہ کر لیں گے تو سارے راستے کھل جائیں گے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: "خدمت گزار حکومت کے عہدیداران، انقلاب کے اصولوں اور معیاروں پر گہرا یقین رکھنے والے انسان ہیں، مجھے ان سے کوئی شکوی نہیں ہے لیکن متعلقہ افراد میں بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ اصولوں کو نظر انداز کر دینے کی صورت میں راستے کھل جائیں گے، جبکہ گزشتہ برسوں میں ہم اس بڑی غلطی کے نتائج بعض ملکوں میں دیکھ چکے ہیں۔"
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ پیشرفت کا واحد راستہ استقامت اور اصولوں پر سختی سے کاربند رہنا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ داخلی سطح پر ایک اور مشکل یہ ہے کہ بعض افراد یہ گمان کرتے ہیں کہ عوام الناس مشکلات کو برداشت نہیں کر پائیں گے۔ آپ نے فرمایا: "اگر جملہ امور کے حقائق کو پوری صداقت کے ساتھ اور صحیح طریقے سے عوام کے سامنے پیش کر دیا جائے تو عوام استقامت و مزاحمت کے جذبے کا مظاہرہ کریں گے۔"
قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ ملک کی اندرونی توانائیوں کے بارے میں شک و شبہ بھی ایک بڑی داخلی مشکل ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اقتصادی امور میں ملک کے نوجوان مفکرین اور عوامی گروہوں پر اعتماد کرتے ہوئے ان کی صلاحیتوں سے استفادہ کرنا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ مزاحمتی معیشت کو عملی جامہ پہنانے کی شرط پختہ عزم، بھرپور توجہ، تساہلی و راحت طلبی سے اجتناب اور مجاہدانہ انتظامی اقدامات ہیں۔ آپ نے فرمایا: "مجاہدانہ انتظامی اقدامات سے مراد اللہ کی ذات پر توکل کرنا، عقل و فکر اور تدابیر کو بروئے کار لانا اور ساتھ ہی ذیلی اثرات کی فکر کئے بغیر پختہ عزم کے ساتھ کاموں کی انجام دہی ہے۔"
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ مجاہدانہ انتظامی اقدامات کے ساتھ ہی مزاحمتی معیشت سے مطابقت رکھنے والے کلچر کی ترویج بھی ضروری ہے۔ آپ نے فرمایا کہ قومی نشریاتی ادارہ، ذرائع ابلاغ، حکام، ائمہ جمعہ اور وہ تمام افراد جن کی بات کا عوام پر اثر ہوتا ہے، مزاحمتی معیشت کی ترویج کے لئے کام کریں۔
قائد انقلاب اسلامی نے کفایت شعاری، مختلف میدانوں اور خاص طور پر سرکاری محکموں میں ملکی مصنوعات کے استعمال، غیر ضروری درآمدات کے سد باب، کالا بازاری کی روک تھام، چھوٹی اور اوسط درجے کی پیداواری یونٹوں پر توجہ اور مالیاتی پالیسیوں اور بنکاری کے شعبے کی کارکردگی پر نظر ثانی کو مزاحمتی معیشت کی پالیسیوں کے نفاذ کے اہم تقاضے قرار دیا اور زور دیکر کہا کہ ان تمام اہداف کے حصول کی شرط داخلی ہمدلی و ہم زبانی اور اندرونی اتحاد و یکجہتی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ سب کو چاہئے کہ حکومت اور عہدیداروں کی مدد کریں اور کسی بھی طرف سے حاشیہ پردازی ناقابل قبول ہے، اس سے اجتناب ضروری ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے مزاحمتی معیشت سے متعلق اپنی بحث کو سمیٹتے ہوئے کہا کہ ہم اقتصادی میدان میں بڑے کام کر سکتے ہیں اور اس حساس گزرگاہ کو عبور کر لینا ہمارے امکان میں ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے ایٹمی مسئلے کے تعلق سے انتہائی حساس اور کلیدی نکات بیان کئے۔ آپ نے مذاکرات کی کچھ تفصیلات کا ذکر کرنے اور ایٹمی میدان کے مطالبات اور ریڈ لائنوں کو بیان کرنے سے قبل تین نکات پر تاکید فرمائی۔
پہلا نکتہ یہ ہے کہ عمومی جلسوں میں رہبر انقلاب جو باتیں کہتے ہیں بعینہ وہی باتیں صدر مملکت اور دیگر متعلقہ عہدیداروں سے ہونے والی ملاقاتوں میں بھی کرتے ہیں۔ بنابریں یہ پروپیگںڈہ کہ نجی ملاقاتوں میں بعض رسمی ریڈ لائنوں سے پسپائی اختیار کر لی گئی ہے، خلاف حقیقت اور جھوٹ ہے۔
دوسرا نکتہ جسے قائد انقلاب اسلامی نے تمہید کے طور پر بیان کیا، وہ ملک کی مذاکراتی ٹیم کی دیانتداری، غیرت و حمیت، شجاعت اور تدین تھا۔ آپ نے فرمایا: "یہ ٹیم غیرت قومی کے ساتھ، پوری توجہ سے، راستے کھولنے اور امور کو آگے لے جانے کی نیت سے فریق مقابل کے مذاکرات کاروں کی کثیر تعداد کے مقابلے میں مصروف عمل ہے اور واقعی پوری شجاعت کے ساتھ موقف کو بیان کرتی ہے اور اس پر قائم رہتی ہے۔"
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: "جسے بھی مذاکرات کی تفصیلات کا علم ہوگا بلا شبہ اسے مذاکراتی ٹیم کے بارے میں بیان کی گئی ان باتوں پر یقین آ جائے گا۔ البتہ ممکن ہے کہ تشخیص اور اقدام میں ان سے غلطی ہو جائے لیکن وہ متدین اور غیور افراد ہیں۔"
قائد انقلاب اسلامی کا تیسرا تمہیدی نکتہ ایٹمی مسائل کے ناقدین سے متعلق تھا۔ آپ نے فرمایا: "ہم تنقید کے مخالف نہیں ہیں، بلکہ اسے لازمی اور معاون سمجھتے ہیں، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ تنقید کرنا عمل کرنے سے بہت آسان ہوتا ہے، کیونکہ فریق مقابل کے عیوب کو آسانی سے تلاش کیا جا سکتا ہے جبکہ اسے در پیش دشواریوں اور تشویش کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔"
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے مزید فرمایا: "میری اس بات کا مطلب یہ نہیں کہ تنقیدوں کا سلسلہ بند ہو جائے، تاہم ہمیں اس بات پر توجہ رکھنی چاہئے کہ ایٹمی مذاکراتی ٹیم ہدف تنقید قرار پانے والے بہت سے مسائل سے آگاہ ہے لیکن کچھ ضرورتیں ایسی پیش آ جاتی ہیں کہ اسے بعض اقدامات انجام دینے پڑتے ہیں۔"
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اس کے بعد مذاکراتی عمل کی مختصر تاریخ بیان کی جو مذاکرات کے عمل کو سمجھنے کے سلسلے میں خاصی مدد کر سکتی ہے۔ آپ نے فرمایا: "امریکیوں سے مذاکرات کا موضوع گزشتہ حکومت کے زمانے سے تعلق رکھتا ہے اور یہ معاملہ مذاکرات کے لئے ایک ثالثی کو تہران بھیجے جانے سے مربوط ہے۔"
قائد انقلاب اسلامی نے مزید تشریح کرتے ہوئے فرمایا: "اس وقت علاقے کی ایک محترم شخصیت ثالثی کے طور پر ہم سے ملاقات کے لئے آئی اور انھوں نے صریحی طور پر کہا کہ امریکی صدر نے ان سے تہران کا دورہ کرنے اور مذاکرات کے سلسلے میں امریکیوں کی درخواست پیش کرنے کی گزارش کی ہے۔ امریکیوں نے اس شخصیت سے کہا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ایران کو ایٹمی طاقت تسلیم کرتے ہوئے ایٹمی مسئلے کا تصفیہ کر دیں اور چھے مہینے کی مدت میں پابندیوں کو اٹھا لیں۔ البتہ ہم نے اس ثالثی سے بھی کہا تھا کہ امریکیوں پر اور ان کی باتوں پر ہمیں بھروسہ نہیں ہے لیکن اس شخصیت کے اصرار پر ہم اس بات پر تیار ہوئے کہ ایک بار اس کا تجربہ کیا جائے اور پھر مذاکرات کا آغاز ہو گیا۔"
قائد انقلاب اسلامی نے عالمی رقابت اور مقابلہ آرائی کے تعلق سے دو نکتوں پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: "ہر سفارتی مباحثے میں دو میدان ہوتے ہیں جن پر توجہ مرکوز رہنی چاہئے۔ ایک اصلی میدان ہوتا ہے جو حقائق، عمل اور سرمائے کی پیدوار کا میدان ہے اور سفارتی و سیاسی عہدیداران اس سرمائے کو مراعات حاصل کرنے اور قومی مفادات کی تکمیل کا ذریعہ بناتے ہیں۔
آپ نے فرمایا: "اگر پہلے میدان میں کوئی ملک خالی ہاتھ ہے تو دوسرے میدان میں اس کے ہاتھ بندھے ہوئے ہوں گے اور اسی حقیقت کے مد نظر ایران انتہائی اہم اور مستحکم حصولیابیوں کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھا اور ان حصولیابیوں میں سے ایک، 20 فیصدی کے گریڈ تک یورینیم افزودہ کرنے کی صلاحیت تھی۔"
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے یاد دہانی کرائی کہ تمام ایٹمی طاقتیں تہران کے ایٹمی ری ایکٹر میں نیوکلیئر دوائیں بنانے میں استعمال ہونے والا 20 فیصدی کے گریڈ تک افزودہ یورینیم دینے سے گریز کر رہی تھیں، بلکہ دوسرے ملکوں سے بھی ہمیں یہ مادہ خریدنے سے روک رہی تھیں، مگر ہمارے نوجوان سائنسدانوں نے، ایران کے لئے افتخارات رقم کرنے والوں نے یہ ایندھن تیار کرکے اسے فیول پلیٹس کی شکل میں تبدیل کر دیا اور فریق مقابل ششدر رہ گیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: "20 فیصدی کی سطح تک افزودہ یورینیم کے علاوہ بھی ہمارے پاس گوناگوں عینی حصولیابیاں تھیں، در حقیقت دباؤ کے مقابلے میں ایران کی استقامت کی اسٹریٹیجی کارگر ثابت ہوئی اور امریکی اس نتیجے پر پہنچے کہ پابندیوں سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو رہے ہیں، لہذا کوئی اور راستہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔"
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے امریکیوں کے بارے میں ایران کی مشکوک نظر کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا: "اس کے باوجود ہم تیار تھے کہ اگر امریکی حکام علاقے کی اس شخصیت سے کئے گئے اپنے وعدوں اور باتوں پر قائم رہتے ہیں تو ہم بھی کچھ مراعات دیں گے، کیونکہ مذاکرات میں عقل و منطق اور تخمینوں کی بنیاد پر پسپائی بھی کی جا سکتی ہے، لیکن مذاکرات شروع ہونے کے کچھ ہی عرصے بعد امریکیوں نے بیجا مطالبات اور عہد شکنی کا سلسلہ شروع کر دیا۔"
قائد انقلاب اسلامی نے کہا کہ ایک منصفانہ اور عادلانہ معاہدہ ایران کی نظر میں اچھا معاہدہ ہے۔ آپ نے فرمایا: "مذاکرات کے دوران امریکیوں نے چھے مہینے کی مدت میں پابندیاں اٹھانے کے وعدے کو بدل کر ایک سال کر دیا اور پھر اپنے مطالبات میں اضافہ کرتے ہوئے مذاکرات کو طول دے دیا اور مزید پابندیاں عائد کرنے کی دھمکیاں بھی دینے لگے اور میز کے اوپر اور میز کے نیچے فوجی کارروائی کا آپشن موجود ہونے کی باتیں کرنے لگے۔"
مذاکراتی عمل کے سلسلے میں اپنی گفتگو کو سمیٹتے ہوئے قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ امریکیوں کے مطالبات پیش کرنے کی روش پر غور کرنے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان کا ہدف ایران کی ایٹمی صنعت کو نابود کرنا، ملک کی نیوکلیائی پہچان کو ختم کرنا اور اسے مضمون و مندرجات سے خالی کیریکیچر اور خاکے میں تبدیل کر دینا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ تحقیق و مطالعے کے مطابق ملک کو بیس ہزار میگاواٹ ایٹمی بجلی کی ضرورت ہے، جبکہ امریکی ایران کی ایٹمی صنعت کو نابود کرنے اور اس صنعت کے بے شمار ثمرات سے ایرانیوں کو محروم کرنے کی کوشش کے ساتھ ہی یہ ارادہ بھی رکھتے ہیں کہ دباؤ جاری رکھتے ہوئے ایک طرح سے پابندیوں کو بھی باقی رکھیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے اس کے بعد امریکیوں سے مذاکرات کے پیچیدہ عمل کی تشریح کرتے ہوئے ایک اور اہم نکتے یعنی امریکی حکومت کو ایٹمی معاہدے کی شدید ضرورت کا بھی جائزہ لیا۔ آپ نے فرمایا: "اگر وہ مذاکرات میں اپنے اہداف حاصل کر لیں تو گویا انھوں نے بہت بڑی فتح حاصل کر لی ہے کیونکہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ انھوں نے خود مختار ملت ایران کو جھکا لیا ہے، ایک ایسے ملک کو شکست دے دی ہے جو دوسروں کے لئے نمونہ عمل بن سکتا ہے، ان کی عہد شکنی اور سودے بازی سب کچھ انھیں اہداف کے حصول کے لئے ہے۔"
قائد انقلاب اسلامی نے مذاکرات کے آغاز سے تاحال اپنی جگہ پر قائم ملت ایران کے منطقی مطالبات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے شروع ہی سے کہا ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ ظالمانہ پابندیاں ہٹائی جائیں اور اس کے بدلے میں کچھ چیزیں دینے کے لئے ہم تیار ہیں لیکن اس شرط پر کہ ہماری ایٹمی صنعت بند نہ ہو اور اسے کوئی نقصان نہ پہنچے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اپنی گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے ایٹمی ریڈ لائنوں کی واضح طور پر نشاندہی کر دی۔ آپ نے پہلی ریڈ لائن کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: "ہم امریکیوں کے برخلاف دس سال اور بارہ سال جیسی طولانی مدت تک ایٹمی پروگرام محدود کرنے پر تیار نہیں ہیں اور اس سلسلے میں جس 'مدت' پر ہم رضامند ہیں اس کے بارے میں امریکیوں کو ہم نے بتا دیا ہے۔"
قائد انقلاب اسلامی کے بقول دوسری ریڈ لائن یہ ہے کہ ایٹمی سرگرمیاں محدود ہو جانے کی مدت کے دوران بھی تحقیق و ترقی اور تعمیرات کا عمل جاری رہنا چاہئے۔ آپ نے فرمایا: "وہ کہتے ہیں کہ بارہ سال تک آپ کوئی کام نہ کیجئے لیکن یہ حد درجہ منہ زوری اور احمقانہ بات ہے۔"
تیسری ریڈ لائن کی نشاندہی کرتے ہوئے قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: "اقتصادی، مالیاتی اور بینکنگ کے شعبے کی پابندیاں خواہ وہ سلامتی کونسل سے متعلق ہوں ، امریکی کانگریس سے مربوط ہوں یا ان کا تعلق امریکی حکومت سے ہو، سب کی سب معاہدے پر دستخط ہوتے ہی فورا ختم ہوں اور بقیہ پابندیاں قابل فہم وقفوں میں اٹھا لی جائیں۔"
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: "پابندیوں کے بارے میں امریکی ایک عجیب و غریب، پیچیدہ اور تہہ در تہہ فارمولا پیش کر رہے ہیں اور واضح نہیں ہے کہ اس سے کیا نتیجہ برآمد ہوگا، مگر ہم اپنی بات دو ٹوک انداز میں بیان کرتے ہیں۔"
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ریڈ لائنوں کے بارے میں اپنی گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے مزید فرمایا: " پابندیوں کی منسوخی ایران کی جانب سے وعدوں پر عملدرآمد سے مشروط نہیں ہونی چاہئے، وہ یہ نہ کہیں کہ آپ پہلے اپنے وعدوں پر عمل کیجئے، آئی اے ای اے اس کی تصدیق کریگی، تب اس کے بعد پابندیاں اٹھائی جائیں گی! ہم اس چیز سے ہرگز اتفاق نہیں کرتے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ پابندیوں کو اٹھانے کے اجرائی اقدامات ایران کے وعدوں کے اجرائی اقدامات کے ساتھ ساتھ انجام دئے جانے چاہئیں۔"
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے زور دیکر کہا کہ ہم مد مقابل فریق کے وعدوں کے نفاذ کو آئی اے ای اے کی رپورٹ پر منحصر کئے جانے کے خلاف ہیں کیونکہ آئی اے ای اے نے بارہا اپنے عمل سے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ خود مختار اور منصف نہیں ہے، لہذا ہمیں اس کے سلسلے میں شکوک و شبہات ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا کہ وہ کہتے ہیں؛ "آئی اے ای اے کو اطمینان حاصل ہونا چاہئے۔" آخر یہ کیسی نامعقول بات ہے، اسے کیسے اطمینان حاصل ہوگا؟ کیا وہ اس سرزمین کے ایک ایک انچ حصے کا معائنہ کرنا چاہتی ہے؟!
قائد انقلاب اسلامی نے غیر معمولی معائنوں، ایرانی شخصیات سے سوال و جواب اور فوجی مراکز کے معائنے کی مخالفت کو بھی ایٹمی مسئلے کی ریڈ لائن قرار دیا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ ایران میں سبھی لوگ منجملہ یہ حقیر، حکومت، پارلیمنٹ، عدلیہ، سیکورٹی و فوجی ادارے اور دیگر تمام ادارے اچھے ایٹمی معاہدے کے حامی ہیں، ایسا ایٹمی معاہدہ جو عزت مندانہ اور منصفانہ ہو اور ایران کے مفادات کے مطابق تدوین کیا جائے۔
قائد انقلاب اسلامی نے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اگرچہ ہم پابندیوں کو ختم کروانے کی کوشش میں ہیں لیکن ان پابندیوں کو ایک زاوئے سے ہم سنہری موقع کے طور پر دیکھتے ہیں کیونکہ ان پابندیوں کی وجہ سے ہم نے اپنی داخلی توانائیوں اور صلاحیتوں پر توجہ مرکوز کی۔
قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آغاز میں ماہ رمضان المبارک کی برکتوں سے بہرہ مند ہونے اور خاص طور پر اس مہینے کی خاص دعاؤں اور ان کے اعلی مضمون سے مستفیض ہونے کی سفارش کی۔ آپ نے فرمایا کہ رمضان کا مبارک مہینہ، خشوع و استغفار، اللہ کی بارگاہ میں واپسی اور خود سازی اور خود کو اخلاقیات سے مزین کرنے کا مہینہ ہے۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے پہلے صدر مملکت حجت الاسلام ڈاکٹر حسن روحانی نے اپنی حکومت کی بائیس مہینے کی کارکردگی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ داخلی مسائل کے سلسلے میں حکومت کا رخ حسن ظن، مفاہمتی برتاؤ، فاصلوں کو کم کرنے اور انتہا پسندی سے اجتناب پر مرکوز رہا۔ انھوں نے کہا کہ خارجہ پالیسی کی سطح پر حکومت کی روش قومی غیرت و وقار اور خود مختاری کی حفاظت کی ریڈ لائن کو مد نظر رکھتے ہوئے دنیا سے تعاون پر مبنی رہی ہے۔
ڈاکٹر حسن روحانی نے کہا کہ ایٹمی حقوق کی حفاظت کے ساتھ ایٹمی مسئلے کا حل نکالنا اور معاشرے اور ملک کی ضرورتوں کی تکمیل حکومت کی دو اہم ترجیحات ہیں۔ صدر مملکت نے کہا کہ جو چیز طاقتور ملکوں کو مذاکرات کی میز پر لے آئی وہ بدخواہوں کے دباؤ کے سامنے ملت ایران کی استقامت اور ایران پر لگائی گئی پابندیوں کی ناکامی ہے۔
صدر مملکت نے کہا کہ پابندیاں کبھی بھی کامیاب نہیں ہوں گی اور ملت ایران پابندیوں کے حالات میں بھی اپنے سماجی، اقتصادی، سیاسی اور ثقافتی مسائل کو بخوبی حل کرنے پر قادر ہے۔ انھوں نے کہا کہ پابندیوں کے عالم میں بھی ہم نے عوام کی مدد سے افراط زر پر قابو کیا، مندی کی کیفیت سے باہر نکلے اور انھیں پابندیوں کے عالم میں سرمایہ کاری کی شرح میں اضافہ ہوا۔
صدر مملکت نے اپنی گفتگو میں کہا کہ علاقے کی قومیں اس وقت بعض ممالک اور دہشت گردوں کی بڑھی ہوئی مداخلتوں کے دباؤ کا سامنا کر رہی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران دہشت گردی کے خلاف جنگ اور علاقے کی قوموں کی مدد میں پیش پیش رہا ہے اور یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا۔