رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر کی رپورٹ کے مطابق حضرت آیت الله جعفر سبحانی مرجع تقلید نے ایران کے مقدس شہر قم کے مجتمع آموزش عالی فقہ (حجتیہ) کے مسجد میں منعقدہ رمضان المبارک کے تیسرے روز قرآن کریم کی تفسیری جلسہ میں سورہ احزاب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا : اسلام میں مختلف گروہ جمع ہوئے ہیں تا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حیات کو ختم کر سکیں ۔
مرجع تقلید نے خیبر کے یھودیوں کی خیانت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وضاحت کی : خیبر کے یھودی مکہ کے مشرکوں سے کسی طرح کا رشتہ نہیں رکھتے تھے ؛ کیوں کہ اسلام اور پیغمبر (ص) سے خطرہ کا احساس کرتے تھے اس لئے بت پرستوں کے ساتھ متحد ہو گئے ۔
انہوں نے آیہ «یَا أَیُّهَا النَّبِیُّ اتَّقِ اللَّهَ وَلَا تُطِعِ الْکَافِرِینَ وَالْمُنَافِقِین» کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بیان کیا : اس آیت میں کئی مطالب بیان کئے گئے ہیں اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تقوا کی دعوت کی ہے کہ تقوا سے مراد خدا کی مخالفت سے خوف کرنا ہے ۔
حضرت آیت الله سبحانی نے تقوا اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے معنوی مقام و منزلت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بیان کیا : دین میں ثبات قدم کے لئے تقوا اختیار کرنے کی تاکید کی گئی ہے جیسا کہ نماز میں خداوند عالم سے درخواست کرتے ہیں کہ ہم لوگوں کو سیدھے راستہ کی طرف ہدایت کرے جب کہ ہم لوگ سیدھے راستہ پر قائم ہیں ۔
قرآن کریم کے مشہور و معروف استاد نے وضاحت کی : جہاں پر بھی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مورد خطاب ہوئے ہیں اور خداوند عالم نے حضرت کو تقوا کا حکم دیا ہے ؛ تب دوسروں کے لئے ترجیح ہے کہ وہ اپنی موقعیت کو جان لیں ۔
انہوں نے کفار و منافقین کی اطاعت نہ کرنا قرآن کریم کی احکام میں سے جانا ہے تاکید کی : خداوند عالم نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو حکم دیا ہے کہ کفار و منافقین کی اطاعت و احترام نہ کریں ؛ لیکن یہاں پر سوال یہ ہے کہ کیوں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کفار و منافقین کی اطاعت کی ممانعت کی ہے حالان کہ حضرت کے لئے ان امور کو انجام دینا ممکن نہیں ؟
حوزہ علمیہ قم میں درس خارج کے مشہور و معروف استاد نے آیہ کی شان نزول کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بیان کیا : پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے رسالت کو جاری رکھتے ہوئے جاہلیت کے خرافات و روایات سے مقابلہ کرتے تھے لیکن کفار و منافقین رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مقابلہ کے لئے ان کے خلاف افواہ پھیلاتے تھے کہ یہ آیت پیغمبر اکرم کی حوصلہ افزائی کو مضبوط کرنے کے لئے نازل ہوئی ہے ۔
حضرت آیت الله سبحانی نے موکل و متوکل کے معنا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا : موکل کا معنی اختیار کا نہ ہونا یعنی جبر کے معنی میں ہے اس بنا پر ہم مسلمان خداوند عالم پر متوکل ہیں و موکل نہیں ہیں ؛ یعنی انسان اختیار رکھتا ہے اور اپنے کاموں کو انجام دیتا ہے ؛ لیکن ہر صورت میں خداوند عالم سے مدد حاصل کرتا ہے اور مشکلات میں اس سے پناہ حاصل کرتا ہے ۔