تحریر: سجاد احمد مستوئی
شہید کی جو موت ہے، وہ قوم کی حیات ہے۔ یہ جملہ شہداء کی برسیوں پر یا اسی طرح کے مختلف پرگراموں میں اور خاص طور پر جب کوئی شہید ہوتا ہے تو اس کی شہادت کے وقت، بہت زیادہ دہرایا جاتا ہے۔ اس جملے کا نعرہ لگانے والے لگاتے ہیں اور لوگ سن کر چلے جاتے ہیں۔ کبھی کسی نے اس جملے پر توجہ کی ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک بندہ شہید ہو جائے اور اسکی موت سے پھر ساری قوم زندہ ہوجائے۔؟ آیا فقط شہید کی موت سے ہی قوم زندہ ہوتی ہے؟ اگر ایسا ہے تو ہماری قوم نے تو بہت شہید دیئے ہیں اور ابھی تک سکون کی نیند سو رہی ہے۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ایسے ہی شہید کی موت سے کوئی قوم زندہ نہیں ہوجاتی بلکہ شہید کے مرنے کے بعد قوم پر کچھ مزید ذمہ داریاں عائد ہوجاتی ہیں۔ اگر وہ ذمہ داریاں ادا کی جائیں تو بیداری جنم لیتی ہے، ورنہ غفلت کی نیند اور سستی کی عادت سے چھٹکارا ممکن نہیں۔ ان ذمہ داریوں میں سے ایک یہ ہے کہ ہم پہلے شہید کے مشن کو سمجھیں، اس کے طرز زندگی کا مطالعہ کریں اور سب سے اہم یہ ہے کہ ہم اس کے نظریئے و طرزِتفکر سے آشنا ہوں۔ دوسری ذمہ داری یہ ہے کہ اپنی تحقیق کی روشنی میں شہید کے نقشِ قدم پر چلنے کی سعی و کوشش کریں۔
آج میں جس شہید کے کا تذکرہ کرنے جا رہا ہوں، وہ کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ ڈاکٹر محمد علی نقوی نے قوم کی حیات کے لئے بہت ساری خدمات انجام دیں اور اسی کام کے لئے اپنی جان تک قربان کر دی۔ ڈاکٹر صاحب کا ایک ایسا جملہ کہ جو ان کی بلند سوچ و فکر کی عکاسی کرتا ہوا نظر آتا ہے کہ "ذمہ داری کچھ نہیں بلکہ احساس ذمہ داری سب کچھ ہے۔" یہ جملہ آج تک بہت سارے لوگ سن چکے ہیں، مگر اس جملے کی روح کو آج تک کسی نے نہیں پایا۔ ہر شخصیت چاہے اس کے کندھوں پر کسی تنظیم کی کوئی بڑی ذمہ داری ہو یا چھوٹی، ہر فر د نے ڈاکٹر صاحب کے اس جملے کو مختلف محفلوں میں دہرایا، مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ سب کچھ صرف تھیوری کی حد تک ہی رہا، کبھی بھی اس سنہری قول کو قوم کے سامنے مجسم و عملی طور پر پیش کرنے کی زحمت ہرگز نہیں کی گئی۔ واقعاً یہ ایک ایسا پیغام ہے کہ جس کو عملی جامہ پہنانے سے قوموں کی تقدیر کو بدلا جاسکتا ہے اور یہ کوئی منطق یا فلسفے کی کوئی مشکل ترین اصطلاح بھی نہیں کہ جس کو ہر کوئی نہ سمجھ سکے، بلکہ اسکا مطلب بہت ہی واضح و آسان ہے کہ جس میں شہید ڈاکٹر قوم سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ قوم و ملت کے ہر فرد کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہونا چاہیئے۔
اگر ہر فرد نے اپنی ذمہ داری کا بخوبی احساس کر لیا تو یقیناً قوم زندہ ہوجائے گی اور اگر ایسا نہ ہوا تو افراد و قومیں بے حس و موت کا شکار ہوجاتیں ہیں، جبکہ بے حس چیز کو کاٹنا اور توڑنا آسان ہوتا ہے۔ مثلاً ایک جسم کو بے حس کرکے ڈاکٹر اس کا پیٹ چاک کرتا ہے یا اس جسم کا کوئی حصہ کاٹ لیتا ہے، لیکن اس جسم کو ذرہ برابر بھی تکلیف نہیں ہوتی کیونکہ وہ بے حس ہے، اسے درد کا احساس نہیں ہوتا۔ ڈاکٹر ایک اہم کام کرتا ہے کہ اس جسم سے درد کا احساس ختم کر دیتا ہے۔ ڈاکٹر یہ سب جسم کے فائدے کے لئے کرتا ہے، لیکن جب کوئی دشمن کسی قوم کو بے حس کرتا ہے تو وہ اس قوم سے فائدہ اٹھانے کے لئے، اس پر حکومت کرنے کے لئے، اس کے مختلف اعضاء کاٹ کر ختم کرنے کیلئے۔ ڈاکٹر ایک انجیکشن سے ایک جسم کو بے حس کرتا ہے، جبکہ دشمن مختلف طریقوں سے قوم کو بے حس کرتا ہے، کبھی اختلاف پیدا کرکے، کبھی شیعہ و سنی کو لڑا کر، تو کبھی معاشرے میں گناہوں کو عام کرکے۔ جس میں، رشوت، چوری، ڈاکہ، جھوٹ اور آزادی کے نام پر بے حیائی و عریانی کا دور دورہ۔ اس تمام سے ایک دانا دشمن ایک قوم کو بے حس کرتا ہے اور پھر جس طرح چاہتا ہے اس قوم کے اعضاء کو کاٹتا ہے۔
آج ملت پاکستان کا بھی یہی حال ہے۔ قوم آج مکمل طور پر بے حس ہوچکی ہے۔ دشمن کے کنٹرول میں ہے۔ آج دشمن اس کی انگلی پکڑ کر جب اور جہاں چاہتا ہے لے جاتا ہے۔ کبھی اس قوم سے اپنی مرضی کے افراد چھین لیتا ہے کہ جس پر قوم خون کے آنسو روتی ہے تو کبھی بم دھماکوں سے اس قوم کے جگر کو چھلنی کرتا ہے۔ کبھی کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کرواتا ہے تو کبھی بلوچستان کو الگ کرنے کی بات کرتا ہے۔ کبھی طالبان، سپاہ صحابہ یا لشکر جھنگوی کے نام پر خیبر پختونخواہ میں بے گناہ لوگوں کا خون بہاتا ہے تو کبھی سکولوں پر حملے کرکے معصوم بچوں کے خون سے اپنی پیاس بجھاتا ہے۔ آج کل سرکاری مافیا کوئٹہ سے تفتان بارڈر پر رہزنوں کی طرح مسافروں سے رشوت بٹور رہا ہے۔ اسی مافیا نے پہلے خوف پھیلانے کے لئے اس راستے میں دھماکے کروائے، زائرین کی بسوں پر حملے کروائے، یہ سب کرنے کے بعد اب لوگوں کو دہشت گردوں سے ڈرا کر اور کانوائے میں پھنسا کر رشوت وصول کی جاری ہے۔ سرکاری کارندے چیک پوسٹوں پر آنے جانے والے مسافروں سے پیسے لے کر اپنی جیب گرم کرتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ اب انٹر و ایگزٹ کی مہر بھی رشوت لے کر لگائی جا رہی ہے۔ ایسے میں ہماری کیا ذمہ داری بنتی ہے؟ کیا زائرینِ امام حسینؑ کے ساتھ جو مرضی ہے ہوتا رہے اور ہم خاموش ہی رہیں! کیوں ہمارا میڈیا اس کا ٹرائل نہیں کرتا؟ کیوں ہماری تنطیمیں اس کا نوٹس نہیں لیتیں؟ کیوں ہماری ایجنسیوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی؟ کیوں ہمارے دلوں میں لبیک یاحسینؑ کی موج کروٹ نہیں لیتی؟
ہمارے بعض دانشمندوں کا خیال ہے کہ اس منطقے کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔ یہ عجیب دانشمندی ہے کہ جس نے سارے عالم کو حرام سے نجات دی، اسی کے زائرین سے مالِ حرام بٹورا جا رہا ہے اور ہمیں احساس ہی نہیں۔ ایک سالم عقل یہ کہتی ہے کہ جب جسم کے کسی حصے میں کوئی بیماری لاحق ہو تو ڈاکٹر پہلی فرصت میں اس بیماری کو ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اگر بیماری ختم نہ ہو تو مجبوراً جسم کو تحفظ دینے کے لئے جسم کے متاثرہ حصے کو کاٹ دیتا ہے، تاکہ باقی جسم اس موزی مرض سے نجات پائے۔ لیکن عجیب ہے ان حضرات کی منطق جو اپنا فریضہ ادا کئے بغیر اور کوشش کئے بغیر ہی اپنی ملت کے حصوں کو کاٹ کر بیماری کے حوالے کرنے پر بضد ہیں۔ فلاں تو فلاں پارٹی کا ہے، اسے اس کے حال پر چھوڑ دو، فلاں تو زائر ہے، اس کے ساتھ جو مرضی ہے ہونے دو، فلاں تو ذاکر ہے، اس کی ایسی کی تیسی، فلاں تو مولوی ہے وہ جائے بھاڑ میں۔۔۔ ہمارے ہاں بے حسی اس قدر اپنی حدیں پھلانگ چکی ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے قوم کو بیدار اور باشعور کرنا ہوتا ہے، وہی قوم کو بے غیرتی اور بے عزتی برداشت کرنے کے درس دے رہے ہوتے ہیں۔ لوگ اس طرح ظالم کی حمایت کرتے ہیں اور مظلوم کو ظلم برداشت کرنے کا درس دیتے ہیں، گویا یہی دین کا پیغام ہے کہ ظلم برداشت کرنا ہی سعادت ہے۔
ڈاکٹر نقوی کی شہادت کے ایام ہیں اور میں ڈاکٹر کا نعرہ یاد ہے، کے نعرے لگانے والوں کو یہ بھی یاد دلانا چاہتا ہوں کہ ڈاکٹر شہید کے مطابق ذمہ داری کچھ نہیں بلکہ احساس ذمہ داری سب کچھ ہے۔ آج قوم کے ہر فرد کو چاہئے کہ وہ اپنی ذمہ داری کا احساس کرے۔ اگر ہر فرد اپنی ذمہ داری کا احساس کرلے اور یہ باور کر لے کہ دشمن کی پہچان اور اسکو بے نقاب کرنا میری ذمہ داری ہے، ظلم کے خلاف آواز اٹھانا اور ظالم کے سامنے سر اٹھا کے جینا میری ذمہ داری ہے۔ اسی طرح دوسروں کا خیال رکھنا، رشوت کی لعنت کا خاتمہ، ہر غلط کام کے خلاف اقدام کرنا ہی میری ذمہ داری ہے۔ جب قوم کے ہر فرد کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہوجائے گا تو شہید ڈاکٹر کا خون یقیناً رنگ لائے گا۔ پھر یہ جملہ کہ "شہید کی جو موت ہے، وہ قوم کی حیات ہے" لفظوں کے گرداب سے نکل کر حقیقت کا روپ دھارے گا۔ پھر ہمارا ملک پاکستان کہ جس کی خاطر شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی اور باقی شہداء نے اپنی جان کے نذرانے پیش کئے ہیں، ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکے گا۔ یاد رکھئے، بے حسی موت ہے اور احساس زندگی ہے۔