18 July 2013 - 16:53
News ID: 5666
فونت
اسلامی اخلاق اور رھبر معظم انقلاب(7):
رسا نیوز ایجنسی - رھبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت ‌الله العظمی خامنہ ای نے اپنے اخلاقی بیان میں حضرت امام محمد باقر علیہ السّلام سے منقول حدیث کی تشریح میں کہا: شیعہ ایک دوسرے کی حامی اور اور پشت پناہ رہیں ۔
رھبر معظم انقلاب اسلامي

 

رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، رھبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت ‌الله العظمی خامنہ ای نے اپنے درس خارج کے ابتداء میں سیکڑوں افاضل و علمائے کرام کی موجودگی میں جو حسینہ امام خمینی تھران میں منعقد ہوا اخلاقی نکات کی جانب اشارہ کیا ۔


رھبر معظم انقلاب اسلامی نے حضرت امام محمد باقر علیہ السّلام سے منقول حدیث «قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ ع أَیَجِی‏ءُ أَحَدُکُمْ إِلَى أَخِیهِ فَیُدْخِلُ یَدَهُ فِی کِیسِهِ فَیَأْخُذُ حَاجَتَهُ فَلَا یَدْفَعُهُ فَقُلْتُ مَا أَعْرِفُ ذَلِکَ فِینَا فَقَالَ أَبُو جَعْفَرٍ ع فَلَا شَیْ‏ءَ إِذاً قُلْتُ فَالْهَلَاکُ إِذاً فَقَالَ إِنَّ الْقَوْمَ لَمْ یُعْطَوْا أَحْلَامَهُمْ بَعْد» کافى، ج 2، ص 174 کی تشریح کی ۔


آپ نے فرمایا : کتاب کافی میں امام محمد باقر منقول ہے کہ حضرت نے اپنے ایک صحابی سے سوال میں کہ اس صحابی کا نام ، مکان اور سوال کا تذکرہ روایت میں نہیں ہے کہا: « أَیَجِی‏ءُ أَحَدُکُمْ إِلَى أَخِیهِ فَیُدْخِلُ یَدَهُ فِی کِیسِهِ فَیَأْخُذُ حَاجَتَهُ » جہاں سے تم ہو کیا وہاں اسی طرح کے حالات ہیں کہ تم سے کوئی ایک، اپنے دینی بھائی کے جیب میں ہاتھ ڈال کر اپنی ضرورت کے بقدر پیسہ نکال لے اور وہ بھی ناراض نہ ہو ؟ کیا تم لوگ اس حد تک پہونچ چکے ہو کہ تم لوگوں کی جیبیں ایک دوسرے کے لئے فری ہوں ؟ کیا تمھارے مال و دولت میں ایسا ںظام ہے ؟  کیا اپ کے درمیان ایسا ہے کہ اپ کا نیاز مند دوست اپ کی قبا سے بقدر ضرورت پیسہ نکال لے اور اسکا اپ پر کوئی اثر نہ ہو ؟  اپ ناراض نہ ہوں ؟ کیا اپ کے درمیان ایسے حالات ہیں ؟ تو راوی نے جواب دیا «فقیل ما اعرف ذلک فینا» نہیں ایسا نہیں ہے ، تو امام نے فرمایا «فقال فلا شى‌ء اذاً» ابھی کچھ بھی نہیں ہوا ، منزل ابھی بہت دور ہے ۔


حضرت آیت ‌الله العظمی خامنہ ای نے کہا: میں یہاں پر میں اس بات کا اضافہ کر رہا ہوں کہ یہ واقعہ امام باقر(س) کے زمانہ کا ہے ، اس زمانہ  میں شیعہ اہستہ اہستہ یکجا ہورہے تھے ، جڑ پکڑ رہے تھے ۔  سانحہ عاشور کے بعد 34 کی مدت میں اہستہ اہستہ لوگ یکجا ہونا شروع ہوئے ، چون کے سانحہ عاشور کے بعد سختیوں نے کچھ ایسے حالات پیش کئے تھے کہ بعض شیعہ اپنے مذہب پلٹ گئے تھے ، بعض نے شیعہ بننے سے گریز کیا تو کچھ ولایت اھلبیت علیھم السلام سے شرمسار ہوئے ، ہر کوئی ایک سمت نکل پڑا ۔ اس 34 سال کی مدت میں اہستہ اہستہ شیعہ دوبارہ یکجا ہوئے اور امام محمد باقر(س) کے زمانہ میں کچھ زیادہ شیعہ یکجا ہوئے ۔ لوگ شھروں اور مخلتف مقامات پر یکجا ہوتے اور ایک دوسرے سے  ملتے ۔


انہوں نے مزید کہا: یہ اس وقت کی بات ہے مگر اس روایت میں حضرت یہ بیان کرنا چاہتے ہیں کہ پوری دنیا میں شیعہ مراکز اور تنظیمیں اس طرح ہوں کہ ایک دوسرے کی دستگیری کرسکیں اور ایک دوسرے کا خیال رکھیں ۔ 
رھبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کی: حضرت نے جب راوی سے خطاب میں کہا کہ«فلا شى‌ء»  ابھی کچھ بھی نہیں بدلا، جو کچھ ہونا بھی چاہئے تھا وہ نہیں ہوا لھذا ڈرو « قیل فالهلاک اذاً » یہاں پر اور بہت ساری دیگر جگہوں پر ہلاکت مرنے کے معنی میں نہیں ہے بلکہ نابودی اور بربادی کےمعنی میں ہے ۔ 


انہوں نے کہا: امام فرمایا کہ «فقال انّ القوم لم ‌یعطوا احلامهم بعد» ابھی قوم کا ظرف اور صبر و تحمل اس منزل تک  نہیں پہونچ سکا ہے ۔ یعنی اس روایت میں ہلاک کے معنی موت کے نہیں ہیں کہ مرے اور عذاب الھی تمھارے دامن گیر ہوگیا ، نہیں ، بلکہ اس معنی میں ہے کہ ابھی تک تم اس ظرفیت اور صلاحیت کے حامل نہیں ہوئے ۔


حضرت آیت ‌الله العظمی خامنہ ای نے اس روایت کے مطالب سے مربوط داستان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: مرحوم حرزالدین نقل کرتے ہیں کہ مرحوم کاشف‌الغطاء کے زمانہ میں شیخ خضر کا شمار بزرگ اور جید علماء دین میں سے ہوا کرتا تھا اور اپ بہت زیادہ لوگوں کے مورد احترام تھے ، بیان کرتے ہیں کہ نجف کے لوگ اور قبائل شیخ خضر سے بے انتہا محبت کے سبب عید کے دن ان کے گھر ائے ، ان کے لئے تحائف ، رقمیں ، سونے چاندی لائے اور لاکر ان کے سامنے ڈال دیا ، ان کے سامنے پڑے ہوئے ان تمام پیسوں ، سونے اور چاندیوں کا ایک انبار تیار ہوگیا تھا ، کچھ دیربعد اس محفل میں شیخ جعفر کاشف الغطاء ائے اور بیٹھ گئے ، اس معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت شیخ جعفر کاشف الغطاء کسی خاص منزل کے حامل نہیں تھے ، ان کی نگاہیں ان پیسوں، سونے اور چاندیوں پر پڑیں ، اہستہ اہستہ نماز ظھر کا وقت ہوگیا اور لوگ چلے گئے، لوگوں کے جانے بعد شیخ جعفر کاشف الغطاء بھی اٹھے اور ایک کونے میں اپنی عبا پھیلا کر ان تمام سونے ، چاندیوں اور پیسوں کو باندھ لیا اور خدا حافظی کرکے چلے گئے ، شیخ خضرنے بھی ایک بار انہیں دیکھا اور کچھ بھی نہیں بولے جیسے کچھ بھی نہ ہوا ہو ۔ اب ہم اس ادھورے واقعہ پر ہی اپنا بیان ختم کرتے ہیں اس کے بعد کی داستان اس سے بھی زیادہ دلچسپ ہے  جو انشاء اللہ پھر کبھی بیان کروں گا ۔ 
 

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬