رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، قائد شہید حجت الاسلام و المسلمین سید عارف حسین الحسینی کی 27 ویں برسی، تحریک حسینی پاراچنار کے زیر اھتمام کل 2 اگست کو پیواڑ میں نہایت عقیدت و احترام کے ساتھ ان کے مزار پر منائی گئی جس میں علمائے کرام ، شخصیتوں اور کثیر تعداد میں عقیدتمندوں نے شرکت کی ۔
سابقہ روایات کے مطابق برسی سے پہلے ہی پاراچنار سے لیکر پیواڑ تک در و دیواروں کو جھنڈوں، پوسٹرز، فناپلیکس اور بینروں سے مزین کیا گیا تھا۔
صبح آٹھ بجے سے ہی کرم ایجنسی کے کونے کونے سے عقیدتمند پیر اور جوانوں کے قافلے بارش کے باوجود اپنے محبوب قائد شہید کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے انکے مزار کی جانب رواں دواں تھے۔ روٹین سے ھٹ کر مسلسل بارش کی وجہ سے آج جلسے کا پروگرام مزار قائد شہید کے ہہلو میں واقع انکے آبائی امام بارگاہ میں رکھا گیا تھا۔ جو کہ شرکاء کے لئے کم پڑ رہا تھا چنانچہ اطراف میں واقع برآمدے اور خواتین کے لئے تعمیر شدہ امام بارگاہ بھی شرکاء جلسہ سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔
اس پروگرام کا آغاز صبح نو بجے معروف قاری سید ھدایت حسین الحسینی کی شیرین تلاوت کلام مجید سے ہوا۔ پھر تحریک حسینی کے صدر منیر آغا، مجلس علمائے اہلبیت کے نو منتخب صدر مولانا شیخ یوسف حسین، شاعر و ذاکر اہلبیت مرتضی حسین بنگش، سید محمد حسین طاہری اور تحریک حسینی کے سرپرست اعلی اور سابق سنیٹر سید عابد حسینی نے خطاب کیا۔
مقررین نے قائد شہید کی شیعیان پاکستان کے لئے خدمات کو سراہتے ہوئے ملکی سطح پر اتحاد بین المسلمین کے لئے انکی کوششوں کو ہر وقت کے لئے خصوصا موجودہ دور میں مومنین کے لئے قابل تقلید قرار دیا۔
مولانا سید عابد حسین نے ملک بھر میں فوج کی جانب سے دہشتگردوں کے خلاف کارروائیوں کو سراہتے ہوئے کہا : فوج کے موجودہ سربراہ جنرل راحیل شریف کی طرح سابقہ فوجی سربراہان بھی مصمم ارادے سے دہشتگردوں کے خلاف بھرپور کارروائی کرلیتے تو پاکستان کی یہ حالت زار نہ ہوتی۔
حسینی نے دہشتگردوں کے خلاف پاک فوج کی کامیابنی اور فتح کے لئے خصوصی دعا کی اور کہا: فوج جیسے پاکیزہ اور ذمہ دار ادارے میں موجود بعض عناصر کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔ اس حوالے سے انہوں نے سفارش کی کہ عوام کی جان و مال اور سرحدوں کے محافظ اسے ادارے کو بعض کرپٹ عناصر سے پاک کرایا جائے۔
انہوں نے اپنی تقریر میں کرم کے مسائل کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا : طوری بنگش اقوام نہایت پرامن اور تہذیب یافتہ ہیں جنہوں نے شروع ہی سے مملکت خدا داد پاکستان پر اپنی جانیں نچھاور کی ہیں۔ کشمیر سے لیکر سندھ تک اور کوئٹہ سے لیکر پاراچنار تک جہاں کہیں ملک کو خون کی ضرورت پڑی ہے تو ان اقوام نے سب سے پہلے اپنی قربائیاں پیش کی ہیں۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بیشتر اوقات یہاں مقامی سطح پر انتظامیہ کا رویہ ان اقوام کی طرف نہایت معاندانہ ہوتا ہے۔ دوسرے علاقوں میں جن دہشتگردوں کے خاتمے کے لئے حکومت کو قربانیاں دینا پڑتی ہیں، انہی عناصر کی حمایت میں کرم میں آباد طوری بنگش اقوام کو دبایا جاتا ہے۔ جن عناصر پر فاٹا کے دیگر علاقوں میں پابندی عاید ہے، وہی عناصر یہاں کھولے عام اسلحہ کی نمائش کرکے آزادانہ پھیرتے ہیں۔
حسینی نے کہا : پاکستان کے تمام قبائلی علاقوں میں نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کی بھرمار ہے، جن سے سرحدوں پر موجود سول اور فوجی اہلکار بھاری رقم لیکر پاکستان آنے کی اجازت دیتے ہیں۔ اور پھر انہیں گاڑیوں کو پکڑ کر مالکان سے دوبارہ ہزاروں روپے وصول کرکے چھوڑ دیے جاتے ہیں۔
تحریک کے صدر مولانا منیر حسین جعفری نے کرم ایجنسی کے مسائل کا تفصیل سے ذکر کیا۔ اور اس حوالے سے سرکار کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کا بھی حوالہ دیا۔ اور جن مسائل پر پیش اب تک پیش رفت ہوئی ہے انکی بھی پوری تفصیل بیان کی۔
انہوں نے آخر میں تحریک حسینی کے تمام یونٹوں اور انکے ممبران کا شکریہ ادا کیا۔ جنہوں نے برسی کے انتظامات کے سلسلے میں دن رات ایک کرکے تکلیفیں اٹھائی تھیں۔
اہلیان کرم کے مسائل اور مشکلات پر مبنی قرارداد تحریک حسینی کے پریس سیکریٹری ذاکر و شاعر اہلبیتؑ مرتضیٰ حسین بنگش نے پیش کی، جسکے بعد مدرسہ آیۃ اللہ خامنہ ای کے استاد اور مجلس علمائے اہلبیت کے سابق صدر علامہ سید محمد حسین طاہری نے مصائب امام حسین علیہ السلام پڑھے۔