رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ہر گذشتہ برسوں کی طرح امسال بھی اسد عاشورہ کے موقع پر گمبہ اسکردو میں درجن سے زائد جلوس عزا بر آمد ہوئے، جو اپنے مقررہ راستوں سے ہوتے ہوئے خانقاہ معلٰی گمبہ اسکردو میں اختتام پذیر ہوئے۔
جلوس عزا میں ہزاروں لوگ شریک تھے۔ ان ماتمی دستوں میں دستہ عباسیہ شگری کلاں، دستہ اصغریہ چنداہ، انجمن فدائیان قمر بنی ہاشم تنجوس، دستہ سقائے سکینہ شگری بالا، دستہ اکبریہ نوجوانان چنداہ، دستہ عباسیہ نوجوانان کچورا، دستہ آل عباء حوطو، دستہ عباسیہ گیول، دستہ حسینیہ کتپناہ، دستہ حیدریہ رنگاہ شامل تھے۔
خانقاہ معلی کے مرکزی مجلس عزا سے خطاب میں حجتہ الاسلام شیخ علی محمد کریمی نے یہ کہتے ہوئے کہ کربلا کوئی حکایت اور واقعہ نہیں بلکہ انسانیت کیلئے باوقار اور مکمل ضابطہ حیات ہے کہا: کربلا انسانیت کے ایثار، قربانی اور اعلٰی اخلاقی اقدار کے لیے مرمٹنے کا درس دیتا ہے ۔
اس کا تاریخی پسِ منظر کچھ یوں ہے کہ کشمیر اور شمالی علاقہ جات تمام سال سردی کی لپیٹ میں رہتے ہیں اور عموماً ان علاقوں میں ماہِ محرم سردی کی شدت کے ایام میں آتا ہے۔ لھذا ان علاقوں کے مذہبی رہنماوں اور علمائے کرام نے عوام کی باہمی مشاورت سے ان ایام کو شمسی تقویم کے تحت ہجری تقویم کے ساتھ گرمی کے موسم میں بھی منانے کا فیصلہ کیا۔ چونکہ محرم کا واقعہ شمسی تقویم میں ماہِ اسد میں پیش آیا تھا، لہذا کشمیر میں محرم کے علاوہ ماہ اسد میں بھی ایامِ عزاء منانے کے رواج نے فروغ پایا۔ یوں یہ سلسلہ کشمیر سے چل کر بلتستان آیا اور قریباً ایک صدی سے یہ عشرہ اسد تمام بلتستان میں مذہبی جوش و جذبے اور دینی حمیت کے ساتھ منایا جاتا ہے۔