رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے رائل انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل افیئر میں اپنے تقریر کے درمیان خاموشی کا روزہ توڑتے ہوئے دس ماہ سے جاری یمن کی جنگ کو جارحیت قرار دیتے ہوئے بیان کیا : برطانیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے ملک کو ہتھیاروں کی فراہمی روک دے جو اسکولوں، اسپتالوں، مساجد، بنیادی تنصیبات اور عام شہریوں کو نشانہ بنا رہا ہے ۔
انہوں نے اپنے اعتراف میں تاکید کرتے ہوئے کہا : یمن میں سعودی حکومت کی جارحیت اصول جنگ کے خلاف ہے اور اس ملک کی طرف سے یمن میں بلاہدف بمباری کی جا رہی ہے ۔ یمن آگ میں جل رہا ہے اور اتحادیوں کے حملوں میں کھلے عام اسکول، اسپتال، مساجد ، بنیادی تنصیبات اور عام شہری نشانہ بن رہے ہیں۔
بان کی مون نے یمن سمیت جنگ زدہ ممالک میں عام شہریوں کے قتل اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی روک تھا م میں بڑی طاقتوں کی ناکامی پر بھی کڑی تنقید کی ہے جبکہ سعودی عرب ایک عرصے سے برطانوی اسلحے کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ برطانیہ کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سن دوہزار پندرہ کے پہلے نو ماہ کے دوران لندن نے ریاض حکومت کو تقریبا تین ارب پونڈ کے ہتھیار فروخت کیے ہیں جن میں سے دو ارب اسی کروڑ کے ہتھیار جنگ یمن شروع ہونے کے بعد سعودی عرب کو فراہم کیے گئے ہیں۔
واضح رہے کہ جب اقوام مرحدہ کی طرف سے پیش کی گئی ایک رپورٹ میں بیان کیا گیا کہ سعودی عرب جنگ یمن میں عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورز ی کر رہا ہے اس وقت سعودی عرب کو برطانوی اسلحوں کی فروخت بند کرنے کا مطالبہ شدت اختیار کر گیا ہے ۔
اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ سعودی اتحاد کی جانب سے یمن میں غیر فوجی اہداف کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ عام پناہ گاہوں، شادی کی تقریبات، عام شہریوں کی گاڑیوں، رہائشی مکانات، اسپتالوں ، مسجدوں، اسکولوں، بازاروں اور کارخانوں پر سعودی اتحاد کی وحشیانہ بمباری کی جانب اشارہ کیا گیا تھا ۔
قابل ذکر ہے کہ یمن کی عوام کی طرف سے اپنے حق کا مطالبہ پر امن طریقہ سے کئی برس سے جاری ہے جہاں کی عوام اپنے مرضی سے عوامی انتخاب کے ذریعہ حکومت بنانا چاہتی ہے نہ کسی غیر ممالک کا ناجائز تسلط برداشت کرنا چاہتی ہے جس کی وجہ سے آمریت کے غلام آل سعود و یھود نے سامراجی طاقت کی نوکر ہونے کی ثبوت پیش کرتے ہوئے ان کے اشارہ پر یمن کی بے گناہ مظلوم عوام پر ظلم کی انتہا شروع کر دی ۔