رسا نیوز ایجنسی کا قائد انقلاب اسلامی کی خبر رساں سائیٹ سے منقول رپورٹ کے مطابق قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 11 فروری کو جشن انقلاب میں عوام کی پرشکوہ اور تاریخی شرکت کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہوئے اسے عوام کے عزم راسخ، استقامت اور بیداری کی نشانی قرار دیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ چھبیس فروری کو منعقد ہونے والے انتخابات بھی قوم کی بیداری، اسلامی نظام، خود مختاری اور قومی وقار کے دفاع کا آئینہ ثابت ہوں گے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ عوام الناس وسیع پیمانے پر اور مکمل آگاہی و بصیرت کے ساتھ انتخابات میں شرکت کرکے دشمن کی مرضی کے عین مخالف سمت میں قدم رکھیں گے۔
18 فروری 1978 کو شہر تبریز کے عوام کے تاریخ ساز قیام کی مناسبت سے شہر تبریز اور صوبہ مشرقی آذبائیجان سے سالانہ ملاقات کے لئے تہران آنے والے مختلف عوامی طبقات سے خطاب میں قائد انقلاب اسلامی نے ملک کی تاریخ کے اہم اور فیصلہ کن مواقع اور خاص طور پر اسلامی انقلاب کے دوران آذربائیجان کے عوام کی استقامت، جوش و جذبے، بیداری اور گہرے جذبہ ایمانی کی قدردانی کی۔
آپ نے انقلاب کے تاریخی ایام کو ہمیشہ زندہ رکھنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے اور 11 فروری کو منائی جانے والی اسلامی انقلاب کی سالگرہ کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ معتبر مراکز سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق اس سال پورے ملک میں 11 فروری کے جلوسوں میں عوام کی شرکت گزشتہ سال کی نسبت کافی زیادہ تھی۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 11 فروری کو جشن انقلاب کے جلوسوں میں عوام کی پرشکوہ شرکت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے فرمایا کہ اس وسیع تر پیمانے پر شرکت یہ ثابت کرتی ہے کہ عوام کے ذہنوں سے انقلاب کا نقش مٹا دینے یا اسے کمرنگ کر دینے کی استکباری محاذ کی وسیع اور متواتر کوششوں کے باوجود قوم کے عزم راسخ میں کوئی خلل پیدا نہیں ہوا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے 26 فروری کو ہونے جا رہے انتخابات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ دشمن مخصوص منصوبہ بندی کے ساتھ اپنی سازش کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش میں ہے، بنابریں اس ملک کے اصلی مالکین کی حیثیت سے ایران کے عوام کو چاہئے کہ بعض اہم حقائق کو ضرور مد نظر رکھیں تاکہ خبیثانہ عزائم پورے نہ ہو سکیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے یہ پس منظر بیان کیا کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے ساتھ ہی ایران یکبارگی امریکا اور اور صیہونی حکومت کے ہاتھ سے نکل گیا جو ان کے لئے سب سے بڑی توہین تھی اور ان طاقتوں نے گزشتہ 37 سال کے دوران ملت ایران کی تیز رفتار پیشرفت کو روکنے کے لئے کسی بھی اقدام سے دریغ نہیں کیا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اسلامی انقلاب کے کامیاب ہوتے ہی اغیار کی سب سے پہلی سازش ایران میں انتخابات کے انعقاد کا سد باب کرنا تھا اور اس سلسلے میں کچھ کوششیں بھی انجام دی گئیں لیکن انھیں مایوسی ہی ہاتھ لگی اور گزشتہ برسوں میں ان طاقتوں کی کوشش یہ رہی کہ انتخابات کی صحت پر سوالیہ نشان لگائیں اور انتخابات پر اثرانداز ہوں۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ 26 فروری کے انتخابات کے لئے ان طاقتوں کی سازش 'شورائے نگہبان' (نگراں کونسل) کی شبیہ خراب کرنے اور اس کے فیصلوں پر سوالیہ نشان لگانے سے شروع ہوئی، یہ ادارہ اسلامی نظام کے ان کلیدی اداروں میں سے ایک ہے جن پر اسلامی انقلاب کی کامیابی کے فورا بعد سے امریکیوں نے شدید اعتراض کیا۔
قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ نگراں کونسل کے فیصلوں پر سوالیہ نشان لگانے کا مطلب انتخابات کے غیر قانونی ہونے کے خیال کی ترویج کرنا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ جب انتخابات کے غیر قانونی ہونے کا خیال پھیلا دیا جائے تو پھر اس الیکشن کے نتیجے میں چن کر آنے والی پارلیمنٹ اور اس کے فیصلے بھی غیر قانونی ہوں گے!
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ چالاکی بھری اس چال کا مقصد آئندہ چار سال کے دوران ملک کے اندر آئینی اور پارلیمانی خلا پیدا کرنا ہے، لہذا عوام الناس کو چاہئے کہ اس مسئلے پر توجہ رکھیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے ملک کے اندر ان افراد کا حوالہ دیا جو 'نگراں کونسل' کی شبیہ مسخ کرتے ہوئے دشمن کی زبان بولنے لگتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ ان میں بیشتر افراد اپنے اظہار خیال کے تمام پہلوؤں سے آگاہ نہیں ہیں، لہذا ان پر خیانت کا الزام نہیں لگایا جا سکتا، لیکن انھیں خیال رکھنا چاہئے کہ اظہار خیال کی اس مماثلت کا مطلب دشمن کی خطرناک سازش کی تکمیل ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ انتخابات کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے سے استکباری محاذ کا ایک اہم مقصد دنیا کی مسلمان اقوام کو بے مثل، پرکشش اور حیرت انگیز اسلامی جمہوریت کے جلوؤں سے محروم کرنا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے ایران میں پارلیمنٹ کی حد درجہ اہم پوزیشن کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ پارلیمنٹ قوانین وضع کرکے حکومت اور مجریہ کی کارکردگی کے لئے پٹری بچھانے کا کام کرتی ہے، بنابریں بصیرت و آگاہی کے ساتھ ممبران پارلیمنٹ کا انتخاب ملک کی پیش قدمی کے لئے پٹری بچھانے کے عمل میں بہت موثر ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ اگر پارلیمنٹ عوامی رفاہ، سماجی مساوات، اقتصادی آسائش، سائنسی پیشرفت اور قومی اقتدار و خود مختاری سے وابستگی رکھنے والی ہوگی تو راستے کی تعمیر کا عمل انھیں اہداف کے تحت انجام دیگی، لیکن اگر پارلیمنٹ مغرب اور امریکا سے مرعوب ہوگی اور اشرافیہ کلچر کی ترویج میں دلچسپی لیگی تو پٹری بچھانے کا عمل اسی سمت میں مرکوز ہوگا اور وہ ملک کو بدبختی کے راستے پر ڈال دیگی۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے اس جملے کا حوالہ دیا کہ 'پارلیمنٹ امور میں سر فہرست ہے' آپ نے فرمایا کہ امور میں سر فہرست ہونے کا مطلب اجرائی سلسلہ مراتب نہیں ہے بلکہ اس سے مراد ملک کی پیش قدمی کے لئے راستے اور سمت کے تعین کے اعتبار سے پارلیمنٹ کی کلیدی پوزیشن ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اپنی گفتگو میں اسلامی نظام کے اندر 'مجلس خبرگان' (ماہرین کی کونسل) کے بنیادی کردار اور کلیدی اہمیت کا بھی حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ ماہرین کی کونسل کی اہمیت اس وجہ سے ہے کہ ملک کے سب سے اہم پالیسی ساز اور فیصلہ کرنے والے عہدیدار 'رہبر انقلاب' کے انتخاب میں اس کونسل کا کردار ہے، بنابریں اس کونسل کے ارکان کا انتخاب بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ اگر ماہرین کی کونسل کے ممبران انقلاب کے گرویدہ، عوام کے شیدائی، دشمنوں کی سازشوں سے باخبر اور ان سازشوں کا مقابلہ کرنے والے ہوں گے تو وقت پڑنے پر وہ الگ انداز سے فیصلے کریں گے، لیکن اگر ماہرین کی کونسل کے ارکان میں یہ اوصاف نہیں ہوں گے تو پھر ان کی کارکردگی بالکل الگ شکل کی ہوگی۔
ماہرین کی کونسل پر استکباری محاذ کے تشہیراتی اداروں کی خاص توجہ کا حوالہ دیتے ہوئے قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ انتخابات میں عوام کی آگاہی، بصیرت اور دانائی پر توجہ کی ضرورت پر تاکید کی یہی وجہ ہے کہ دشمن کی مرضی کے برخلاف عمل کیا جائے۔
قائد انقلاب اسلامی نے ایک بار پھر عوام کو انتخابات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے اور اسلامی نظام، خود مختاری اور قومی وقار کے دفاع کی دعوت دی اور ملت ایران کے مقابل موجود خطرناک محاذ کی طرف سے جو صیہونی نیٹ ورک کے زیر تسلط کام کرتا ہے، ہوشیار رہنے کی تاکید کی۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ امریکا اور بہت سی یورپی حکومتوں کی پالیسیاں اسی نیٹ ورک سے متاثر رہتی ہیں اور ایٹمی مسئلے میں امریکیوں کا رویہ بھی اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہئے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ طولانی مذاکرات اور ایٹمی معاہدے کے بعد ایک بار پھر ایک امریکی عہدیدار نے حال ہی میں کہا ہے کہ ہم وہ کام کریں گے کہ دنیا کے سرمایہ کار ایران میں قدم رکھنے کی ہمت نہ کر سکیں۔ قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ اس طرح کے بیان ملت ایران سے امریکا کی کینہ توزی کی عکاسی کرتے ہیں۔
آپ نے فرمایا کہ جو افراد گزشتہ دو سال تک ایٹمی مذاکرات میں مصروف تھے اور واقعی انھوں نے بڑی زخمتیں برداشت کیں، ان کا ایک ہدف غیر ملکی سرمایہ کاری کے ذریعے اقتصادی مسائل کو حل کرنا تھا، لیکن امریکی اب یہ راستہ بھی بند کرنا چاہتے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ بار بار جو کہا گیا کہ 'امریکی قابل اعتماد نہیں ہیں' اس کا یہی مطلب ہے۔
ایران میں جلوسوں کے دوران امریکا مردہ باد کے نعروں پر امریکی سیاسی رہنماؤں کے اعتراص کا حوالہ دیتے ہوئے آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے کہا کہ جب آپ کا یہ طرز عمل ہے اور آپ کا ماضی و حال سب کھلی ہوئی دشمنی کا آئینہ ہے تو پھر آپ کو ملت ایران سے اور کس رد عمل کی توقع ہے؟
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: البتہ وہ نجی ملاقاتوں میں مسکراتے بھی ہیں، مصافحہ بھی کرتے ہیں اور اچھی اچھی باتیں بھی کرتے ہیں، لیکن یہ رویہ سفارتی اور نجی ملاقاتوں تک محدود ہے اس کا زمینی حقائق پر پر کوئی اثر نہیں ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ طولانی مذاکرات انجام پانے، معاہدہ ہو جانے اور تمام امور کے ختم ہو جانے کے بعد اب وہ کہنے لگے ہیں کہ ہم سرمایہ کاری نہیں ہونے دیں گے اور آشکارا نئی پابندیاں عائد کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ یہی امریکا کی حقیقت ہے اور اس دشمن سے چشم پوشی نہیں کی جا سکتی اور اس پر ہرگز اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے عوام کو مخاطب کرکے فرمایا کہ عزیز ملت ایران! آپ کا واسطہ ایک ایسے عنصر سے ہے، لہذا آپکی بیداری و ہوشیاری لازمی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ ملک کی مشکلات کا حل عوام کی بیداری، معاشرے کے اندر ایمانی و دینی جذبات کی حفاظت، باایمان اور پرجوش نوجوانوں کی خدمات حاصل کرنا اور ایمان، معیشت، علم اور انتظامی اداروں کے اعتبار سے ملک کو اندرونی طور پر تقویت پہنچانا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے انقلاب اور اس کے اصول و اہداف کی حفاظت میں عوام کی یکجہتی و ہم آہنگی قائم رکھنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ عہدیداران بھی جو ملک کے مستقبل کا درد رکھتے ہیں، اللہ کی خوشنودی اور عوام کے لئے کام کریں اور ملک کے اندر موجود توانائیوں پر اعتماد کریں۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے مزید کہا کہ مزاحمتی معیشت کا مطلب اپنے ارد گرد حصار کھینچ لینا نہیں ہے بلکہ مزاحمتی معیشت اندرونی طور پر فروغ پانے والی اور بیرونی دنیا سے تعاون کرنے والی معیشت ہے، یعنی اگر قومی معیشت داخلی طور پر فروغ نہ پائے تو کسی بھی منزل تک نہیں پہنچ سکے گی۔
قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ دنیا کے ملکوں سے اقتصادی تعاون اچھی بات ہے لیکن یہ تعاون ہوشمندانہ طریقے سے ہو اور اس کا نتیجہ داخلی سطح پر معیشت کے نمو کی شکل میں نکلے اور اس منزل تک رسائی عوام کی استقامت اور حکام کی آگاہانہ کارکردگی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آخر میں فرمایا کہ فضل پروردگار سے ملک کے نوجوان وہ دن ضرور دیکھیں گے جب امریکا ہی نہیں 'اس کے بڑے' بھی ملت ایران کا کچھ بھی بگاڑ پانے سے عاجز ہوں گے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے خطاب سے پہلے صوبہ مشرقی آذربائیجان میں ولی امر مسلمین کے نمائندے اور شہر تبریز کے امام جمعہ آیت اللہ مجتہد شبستری نے حساس مواقع پر جلوہ گر ہونے والی صوبہ آذربائیجان کے عوام کی دینی حمیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 18 فروری 1978 کا تبریز کے عوام کا قیام اسلامی انقلاب کی تاریخ میں بہت اہم موڑ اور ولی امر مسلمین سے عقیدت رکھنے والے آذربائیجان کے عوام کی بصیرت کی نشانی ہے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے مزید کہا کہ آذربائیجان کے عوام پورے ملک کے عوام کے ساتھ آئندہ 26 فروری کو وسیع پیمانے پر اور مکمل آگاہی کے ساتھ پولنگ اسٹیشنوں پر جمع ہوں گے اور ایک بار پھر یادگار کارنامہ رقم کریں گے۔