رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق منتوں، مرادوں، قرار دادوں بلکہ مذمتوں کے بعد وزیراعظم جناب میاں نواز شریف، پہلی مرتبہ اسمبلی کے اجلاس میں شریک ہوئے۔نوبت یہاں تک پہنچ چکی تھی کہ اگر کچھ عرصہ مزید وزیراعظم اجلاس میں شریک نہ ہوتے تو وزیراعظم کی صندلی پر وزیراعظم کی تصویر کے ساتھ جلی حروف میں ’’تلاش گمشدہ‘‘لکھا ہوا ہوتا ۔
وزیراعظم ایک اہم اعلان کیلئے اجلاس میں تشریف لائے سب منتظر تھے کہ دہشت گردوں سے نمٹنے کیلئے بلکہ ریاست کی رٹ قائم کرنے کے لیے وزیراعظم جرات مندانہ فیصلہ فرمائیں گی۔
وزیراعظم نے اپنی پارٹی سمیت پورے ملک کی اکثریت قاطع کی امیدوں کے خلاف ایک مرتبہ پھر طالبان سے مذاکرات کا اعلان کیا، جبکہ اپنی تقریرمیں دہشت گردوں کے جرائم خوب گنوائی، انکی ظالمانہ کاروائیوں کا دل کھول کر تذکرہ کیا، لیکن ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ ان تمام تر جرائم کے باوجو د ہم طالبان سے مذاکرات کو ترجیح دیتے ہیں، صرف اعلان پر ہی اکتفا نہ کیا بلکہ مذاکراتی ٹیم کا اعلان بھی کر دیا، اگرچہ چار رکنی مذاکراتی ٹیم کے بعض ارکان کو بھی اپنی نامزدگی کے خلاف توقع اعلان کا علم بھی نہ تھا۔
طالبان کے خلاف آپریشن کی حامی جماعتوں نے بھی وزیراعظم کی حمایت کا اعلان کر دیا ۔جمعیت علماء اسلام، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے ارکان حمایت کا اعلان کریں تو بات سمجھ میں آتی ہے۔
کیونکہ یہ تین ایسی جماعتیں ہیں جنہوں نے اپنے چہروں پر سیاست، اسلام اور لبرل پسند ہونے کے صرف نقاب چڑھا رکھے ہیں، حقیقت میں یہ جماعتیں طالبان کا ایک ونگ ہی ہیں، یہ فیصلہ کرنا مشکل امر ہے کہ تحریک انصاف طالبان کا سیاسی ونگ ہے یا طالبان تحریک انصاف کا سیاسی ونگ، ھکذا جماعت اسلای اور جمعیت علماء اسلام بہر حال یہ طے ہے کہ ان میں سے ایک عسکری ونگ ہے اور دوسرا سیاسی، عسکری کون ہیں اور سیاسی کون؟ اس کا فیصلہ کرنا مشکل امر ہے۔ قدرمتیقن کے طور پر اجمالا یوں کہا جا سکتا ہے کہ عسکریت پسندی کے صلب سے اور دہشت و انتہا پسندی کی کوکھ سے جنم لینے والی والی اولاد، طالبان، تحریک انصاف ۔۔۔۔کی صورت میں سامنے آئی یہ جماعتیں تو مذاکرات کے اعلان پر بغلیں بجائیں گی۔
لیکن سمجھ سے بالا تر ہے کہ پیپلز پارٹی نے اس غیر جمہوری اعلان کی حمایت کیوں کی؟ بلاول کے متعدد بیانات کے بعد پیپلز پارٹی کی طرف سے مذاکرات کی حمایت خود پارٹی پر ایک سوالیہ نشان ہے؟
آپشن مذاکرات کا ہو یا آپریشن کا۔جو سیاستدان اپنے وجدان اور ضمیر کی آواز کے مطابق اپنے موقف پر ڈٹ جانے کا حوصلہ نہ رکھتے ہوں انہیں قوم کی قیادت کرنے کا حق حاصل نہیں۔
چودہ مرتبہ کی مسلسل ناکامیوں کے بعد پندرھویں مرتبہ مذاکرات کی میز سجے گی۔حسبِ سابق اور حسب یقین مذاکرات پھر ناکام ہوں گے دہشت گردی سے فضا مکدر اور بارود کی بدبو پھیلتی چلی جائے گی لیکن اس جنگ کا کم از کم یہ فائدہ ضرور ہو گا کہ بارود والے اور درود والے نکھر کر سامنے آتے جائیں گے۔
بالفرض مذاکرات کامیاب ہو جاتے ہیں، ہمارا ایک سوال ملت تشیع اور تسنن کے ذمہ داران سے ہے کہ کیا مذاکرات کی شقوں میں کسی شق کے ضمن میں "نیز" "بھی" "اور" "یہ" کے کلمات کے ساتھ اس بات کی معمولی سی ضمانت بھی دی جائے گی۔ کہ مساجد اور امام بارگاہوں پر حملے نہ ہوں گے،
محرم الحرام اور میلاد النبیؐ کے جلوس محفوظ رہیں گے،
شیعہ اور سنی علماء اور عوام کا قتل عا م نہ ہو گا،
یقیناً یہ شقیں قیامِ امن کے مذاکرات کا حصہ ہی نہیں ہیں،
مذاکرات تو صرف فوج، پولیس، دیگر فورسز اور عمومی مقامات کو محفوظ کرنے کے لیے ہیں۔
اگر ایسا ہے تو پھرہمیں ہر وقت اپنا مذہبی، شرعی اور اخلاقی فریضہ ادا کرتے ہوئے ظالم سے خصومت اور مظلوم کی حمایت کا اصولی موقف ترک نہیں کرنا چاہیے ۔