رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق قائد ملت جعفریہ پاکستان حجت الاسلام سید ساجد علی نقوی نے علی آباد ہزارہ ٹائون کوئٹہ اور کوہاٹ میں دہشت گردانہ دھماکوں اور حالیہ سیلاب کی ہولناکیوں کے باعث عید الاضحی انتہائی سادگی سے منانے کا اعلان کیا ہے ۔
انہوں نے سانحہ کوہاٹ اور کوئٹہ کو ریاستی اداروں کی کارکردگی پر ایک بڑا نشان قرار دیا ہے اور کہا : ملک کی داخلی سلامتی کے لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے گذشتہ کافی عرصے سے معطل شدہ سزائے موت کے قانون پر فوری عمل درآمد یقینی بنایا جائے اور دوسرا ملک کے دیگر حصوں میں بھی دہشت گردوں کے خلاف سخت آپریشن کیا جائے۔
مختلف علاقوں سے آئے علمائے کرام، عمائدین قوم اور اکابرین ملت سے گفتگو کرتے ہوئے حجت الاسلام ساجد نقوی نے مزید کہا کہ ہزارہ ٹاؤن چاروں اطراف سے ایف سی بلوچستان کے حصار میں تھا، علاقے میں اتنی بھاری سکیورٹی ہونے کے باوجود دہشتگردی کے اس واقعے کا رونما ہونا، ریاستی اداروں کی کارکردگی پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ اگر پچھلے سانحات کی تحقیقات کرکے رپورٹ کو منظر عام لایا جاتا اور خونی دہشتگردوں کو گرفتار کرکے کیفر کردار تک پہنچایا جاتا آج ملک بھی میں اس قسم کے سانحات کا سامنا نہ کرنا پڑتا لیکن افسوس سے دیکھ رہے ہیں کہ انتظامیہ دہشتگردوں کو گرفتار کرنے کی بجائے دبائو میں آکر قاتلوں کو رہا کر کے مقتولین پر ہی ہاتھ ڈال رہی ہے جو کہ سراسر ظلم اور زیادتی اورنا انصافی ہے۔
حجت الاسلام سید ساجد علی نقوی نے مزید بیان کیا : ملک کی عوام شدید عدم تحفظ کے احساس سے دوچار ہیں اور ریاستی اداروں سے یہ سوال پوچھنے پر مجبور ہیں کہ آخر ارض پاک کو کیوں معصوم اور بے گناہ انسانوں کی قربان گاہ بنادیا گیا ۔
انہوں نے تاکید کی : اگر قصاص کے قرآنی قانون اور اصول پر عمل پیرا ہوکر اعلی عدالتوں سے سزائے موت پانے والے قاتلوں اور دہشت گردوں کی سزائوں پر عمل درآمد ہوتا اور وہ تختہ دار پر لٹکائے جاتے تو ایسے واقعات کی روک تھام میں مدد ملتی ۔ لیکن ایسا نہیں کیا گیا جس کا ہم سختی سے نوٹس لے رہے ہیں کہ سزائے موت کیوں نہیں دی جارہی ، ٹارگٹ کلنگ مسلسل جاری ہے لوگ مارے جارہے ہیں یہ ایک سوالیہ نشان ہے ؟۔
ساجد علی نقوی نے کہا : ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ دہشت گردی کے واقعات میں ملوث عناصر کے خلاف کاروائی کرکے ان خاتمہ کیا جانا چاہیے۔
آخرمیں قائد ملت جعفریہ نے شہداء کی مغفرت کی دعا کرتے ہوئے ورثا اور لواحقین کے ساتھ یکجہتی کا اعلان کیا۔